منتخب تحریریں

ڈاکٹروں کے بجا خدشات

Share

کراچی کے چند مستند ڈاکٹروں نے یکجا ہوکر بدھ کی سہ پہر جو پریس کانفرنس کی اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت تھی۔ کرونا کو مگر ہم نے ’’سیاسی‘‘ بنادیا ہے۔وفاقی حکومت کے ترجمان نے الزام لگانا شروع کردیا کہ سندھ حکومت نے خوف پھیلانے کے لئے اس کانفرنس کا بندوبست کیا۔تاثر اگرچہ ہمیں یہ بھی دیا جارہا ہے کہ ملک بھر سے کرونا سے متعلق تمام تر حقائق روزانہ کی بنیاد پر اس ماسٹر کمپیوٹر میں جمع ہوجاتے ہیں جو اس مرض سے نبردآزما ہونے کے لئے بنائے ایک اعلیٰ سطحی ادارے کے تصرف میں ہے۔اس ادارے کا ہر روز ایک تفصیلی ا جلاس ہوتا ہے۔بدھ کے روز آرمی چیف نے بھی وہاں پہنچ کر تفصیلی بریفنگ لی۔ اس ادارے کے پاس جمع ہوئی معلومات کی بدولت ہم بآسانی یہ جان سکتے ہیں کہ کراچی کے ڈاکٹروں نے اپنی پریس کانفرنس میں جو اعدادوشمار پیش کئے وہ حقائق پر مبنی تھے یا نہیں۔ان کے بیان کردہ حقائق کو مگر جھٹلایا نہیں گیا۔

وفاقی حکومت کے کرونا کے ضمن میں نگہبان ٹھہرائے افراد بھی اپنے تئیں بلکہ متنبہ کررہے ہیں کہ مئی کے درمیانی اور تیسرے ہفتے کے دوران کرونا کی زد میں آئے افراد کی تعداد میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔مریضوں کی تعداد ایک مخصوص حد سے آگے گزرگئی تو ہمارے ہسپتالوں میں ان کی نگرانی کی سکت باقی نہیں رہے گی۔تشویش ناک حالت میں گرفتار مریضوں کو ہنگامی بنیادوں پر زندہ رکھنے والی سہولیات بھی میسر نہیں ہوںگی۔آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے ڈاکٹروں نے کراچی کے بارے میں ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا تھا۔ان کے بیان کردہ اعدادوشمار لہذا فکرمندی والی توجہ کے مستحق تھے۔معاملہ مگر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی نذر ہوگیا۔

اس ہفتے کا آخری کالم لکھتے ہوئے میں بہت گھبرایا ہوا ہوں۔کراچی کے ڈاکٹروں نے جو پریس کانفرنس کی ہے اٹلی کا اس میں بارہا ذکر ہوا۔ اٹلی میں جو ہوا اس کی تفصیلات دہراتے ہوئے میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا۔بنیادی بات یہ ہے کہ لاک ڈائون کو مزید کچھ روز تک سختی سے لاگو کرتے ہوئے اٹلی میں ہوئے واقعات کو ہم اپنے ہاں دہرانے سے روک سکتے ہیں۔ڈاکٹروں کی بیان کردہ فکرمندی ریاستی اور حکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات کی طلب گار ہے۔

ٹی وی دیکھنا عرصہ ہوا میں نے چھوڑ رکھا ہے۔خبروں کے لئے فقط اخبارات سے رجوع کرتا ہوں۔’’تازہ ترین‘‘ کے لئے فون کھول کر ٹویٹر دیکھ لیتا ہوں۔اپنے گھر تک محدود ہوکر کتب بینی کی طرف لوٹ آیا تھا۔ کرونا کی مسلط کردہ تنہائی سے مگر جی اُکتا گیا ہے۔سوچ رہا تھاکہ Netflixجیسی Appsکا فائدہ اٹھاتے ہوئے فلمیں دیکھنا شروع کردوں۔اس کے لئے ذہن کو تیار کررہا تھا تو خیال آیا کہ دورِ حاضر میں یوٹیوب ابلاغ کا مؤثر ترین ہتھیار بن چکا ہے۔اسے دیکھنا شروع کردوں اور سنجیدگی سے یہ جاننے کی کوشش کروں کہ ہمارے ہاں یوٹیوب پر چھائے Influencersیعنی ’’ذہن ساز‘‘ بنیادی طورپر کیا Messageیعنی پیغام دے رہے ہیں۔

مسلسل تین روز تک کئی گھنٹے میں نے یوٹیوب کی نذر کئے ہیں۔اس Appپر مقبول ’’ذہن سازوں‘‘ میں سے چند ایک کو اوسطاََ پچاس ہزار کے قریب لوگ دیکھتے اور سنتے ہیں۔ناظرین کی یہ تعداد یقینا متاثر کن ہے۔اس کی اثرپذیری کی اہمیت کے ادرا ک کے لئے آپ کو یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ یوٹیوب Captive Audienceنہیں ہوتی۔ آپ برضاورغبت اپنی پسند کے ’’ذہن ساز‘‘ کے بنائے یوٹیوب چینل پر جاتے ہیں۔پسند آئے تو اسے دیگر لوگوں سے Shareبھی کرتے ہیں۔

یوٹیوب پر چھائے ’’ذہن سازوں‘‘ کو گزشتہ تین روز سے مسلسل دیکھتے ہوئے مجھے ہرگز یہ احساس نہیں ہوا کہ پاکستان کا بنیادی اور سنگین ترین مسئلہ اس وقت کرونا کی وجہ سے مسلط ہوا عذاب ہے۔پیغام بلکہ مجھ سادہ لوح کو یہ ملا ہے کہ عمران حکومت نے اب یہ تہیہ کرلیا ہے کہ وطنِ عزیز میں مختلف دھندوں پر اجارہ کے حامل مافیاز کو بے نقاب کیا جائے۔ گندم اورچینی کے بحران کی تحقیقات کے بعد غیر ملکی قرضوں کی بابت بھی ایک رپورٹ تیار ہوچکی ہے۔اس رپورٹ کے برسرعام ہونے سے قبل ہی مگر ایک اور تحقیقاتی رپورٹ کا چرچا شروع ہوگیا جو نجی سرمایہ کاری کی بدولت بجلی کی پیداوار کے دھندے سے متعلق تیار ہوئی۔جو رپورٹس آئی ہیں وہ حکومت کو قائل کررہی ہیں کہ اجارہ دار سیٹھوں نے ماضی کی حکومتوں سے اپنی پسند کی پالیسیاں بنوائیں۔ان پالیسیوں کی بدولت اربوں روپے کمائے۔قومی خزانے میں اس کمائی کا اونٹ کے منہ میں زیرہ والا حصہ بھی نہیں آیا۔صارفین کامل بے بسی سے اجارہ داروں کی تجوریاں بھرتے رہے۔ سرکار ہم صارفین کا ’’مائی باپ‘‘ نہ بنی۔حکومتوں میں بیٹھے وزیر اور معاشی پالیسیاں بنانے اور ان پر عملدرآمد کے ذمہ دار اداروں میں بیٹھے افسران صارفین سے ہتھیائی دولت سے بلکہ اپنا حصہ وصول کرتے رہے۔

یہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی کہ چند اجارہ دار عمران خان صاحب کی قیادت میں قائم ہوئی کابینہ میں بھی موجود ہیں۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو قطعی اکثریت میسر نہیں۔وہ حکومت برقرار رکھنے کے لئے اتحادیوں کی محتاج ہے۔مافیاز کو عبرت کی نشانیاں بنانے کے لئے عمران خان صاحب اپنے عہد پر ڈٹے رہے تو وہ قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم بھی ہوسکتے ہیں۔’’کپتان‘‘مگر ڈٹ گئے ہیں۔فیصلہ کرلیا ہے کہ حکومت جاتی ہے تو جائے مافیاز کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

’’کپتان‘‘ کے تخت یا تختہ والے فیصلے کو سراہتے ہوئے یوٹیوب پرچھائے ذہن ساز ہمیں یہ بھی بتارہے ہیں کہ اگر مافیا کے خلاف ڈٹ جانے کی وجہ سے عمران خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہونا پڑا۔ قومی اسمبلی تحلیل ہوگئی تو قبل از وقت انتخابات ہوں گے۔ ہمارے عوام کی اکثریت بآسانی جان لے گی کہ عمران خان صاحب قبل از وقت انتخابات کا سامنا کرنے کے لئے مافیاز کی وجہ سے مجبور ہوئے۔اجارہ داروں کے گھنائونے کرتوت خوب جان لینے کے بعد ہمارے لوگوں کی بے پناہ اکثریت لہذا تحریک انصاف کو ووٹ دینے کو بہت اشتیاق سے رضا مند ہوجائے گی۔ عمران خان صاحب وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر دو تہائی اکثریت کے ساتھ لوٹ آئیں گے۔متوقع اکثریت کی بدولت وہ آئین اور قوانین میں ایسی ترامیم کریں گے جو انہیں ویسی ہی سیاسی قوت واختیار فراہم کردیں گی جو مثال کے طورپر چین کی حکومت کو حاصل ہے۔کرپشن کے عادی ہوئے اجارہ داروں اور رشوت خورافسروں کے لئے ہماری زمین تنگ ہوجائے گی۔

اجارہ داروں کے خلاف تخت یا تختہ والے معرکے کا ذکر ہوتاہے تو بخدا مجھ جیسے ذلتوں کے مارے دیہاڑی دار نہایت خلوص سے ’’تیرے منہ میں گھی شکر‘‘ پکارتے ہیں۔جوانی میں ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘کے سحر میں مبتلا ہوگیا تھا۔عمر گزاردی گئی۔ ’’جس کا وعدہ ہے‘‘ وہ دیکھنا مگر نصیب نہ ہوا۔عمر کے آخری حصے میں نوجوانی کے دنوں سے دل میں جاگزین ہوئے خوابوں کی عملی تعبیرواقعتا نظر آگئی تو اپنی عمرکو رائیگاں کا سفر شمار کرنے کی اذیت سے نجات مل جائے گی۔خوابوں کی مسلسل شکست سے پژمردہ ہوئے دل کو مگر ایک فلمی گانا بھی یاد آجاتا ہے۔اس کا ایک مصرعہ ہے جو بہت دُکھ سے یہ سوچتا ہے کہ یہ رات گزرجائے تب ہی ’’سحردیکھیں گے‘‘۔

کرونا یقین مانیے ایک دردناک رات کی طرح ہی نازل ہوا ہے۔اس رات کی طوالت کا تعین صحت عامہ کا عالمی سطح پر مستند تصور ہوتے ماہرین بھی نہیں کرپارہے ہیں۔کرونا کی پہلی لہر چین،اٹلی اور امریکہ وغیرہ میں قیامت خیز مناظر دکھانے کے بعد ابھی پوری طرح گزری ہی نہیں اور عالمی ادارئہ صحت ’’دوسری لہر‘‘ کا تذکرہ کرنابھی شروع ہوگئے ہیں۔پاکستان نے ربّ کریم کے فضل کی وجہ سے ابھی تک ’’پہلی لہر‘‘ کی شدت نہیں دیکھی۔ کاروبار اس کے باوجود تقریباََ ٹھپ ہوچکے ہیں۔انہیں بحال کرنے میں طویل عرصہ درکار ہوگا۔

اداسی کے اس موسم میں سیاسی مستقبل کی زائچہ نویسی میرے بس سے ہرگز باہر ہے۔نہایت ایمان داری سے مگر اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ ہماری سیاست ویسی رہ ہی نہیں سکتی جسے قریبی مشاہدے کے بعد رپورٹ کرنے کے لئے میں نے 30سے زیادہ برس خرچ کردئیے ہیں۔1947سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر جو Dynamicsنظر آتی رہی ہے۔اس کی بدولت جو نتائج اخذ کئے ان کا مابعدِ کرونا حالات کی پیش بینی کے لئے اطلاق میری ناقص رائے میں قطعاََ ایک کارِ بے سود ہے۔وباء کے موسم میں جی کو خوش رکھنے کے لئے گھروں میں محصور ہوئے لوگوں کو مگر اُمید دلاتی کہانیاں درکار ہیں۔یوٹیوب پر ان دنوں چھائے Influencersکا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ وہ اس ضمن میں کارِ خیر سرانجام دے رہے ہیں۔ربّ کریم ان کے یوٹیوب چینلوں پر مزید رونق لگائے۔