شہباز ، نیب آنکھ مچولی اور بیانیے کا مسئلہ
شہباز شریف اور نیب میں آنکھ مچولی جاری ہے۔ وہ 22 اپریل کو بھی پیش نہیں ہوئے۔ اس سے پہلے انہیں 17 اپریل کو طلب کیا گیا تھا لیکن انہوں نے کورونا کی آئسولیشن کے باعث جسمانی حاضری سے معذرت کر لی اور پیش کردہ سوالنامے میں مطلوبہ معلومات، ضروری دستاویزات کے ساتھ ارسال کر دیں۔
اب 22 اپریل کو بھی انہوں نے آئسولیشن ہی کو جواز بناتے ہوئے حاضری سے معذرت کی اور پاکستان اور برطانیہ سے حاصل کردہ ریکارڈ پر مشتمل 24 صفحات کا جواب ارسال کر دیا اور اس کے ساتھ یہ ”پیشکش‘‘بھی کی کہ وہ مزید سوال، جواب کے لیے سکائپ پر دستیاب ہوں گے (اور متعلقہ ادارے کو اپنا سکائپ ایڈریس بھی ارسال کر دیا)۔ نیب نے ان کے تازہ جواب کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے 4مئی کو پیشی کا نیا نوٹس بھجوا دیا ہے اور اس کے ساتھ یہ یاد دہانی بھی کہ قانون سب کے لیے یکساں ہے اور یہ بھی کہ انویسٹی گیشن میں عدم تعاون کی صورت میں انہیں سنگین نتائج کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اِدھر شہباز شریف کا تحریری جواب موصول ہوا، اُدھر انہیں 4مئی کے لیے نیا نوٹس ارسال کر دیا گیا۔ 24 صفحات پر مشتمل دستاویزی جواب کو پڑھے بغیر ”غیر تسلی بخش‘‘ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
شاہد خاقان عباسی بھی اس صورتحال پر مضطرب اور معترض نظر آئے۔ میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے بھی ”نیب نیازی گٹھ جوڑ‘‘ کا مسلم لیگ(ن) کا طے شدہ مؤقف دہرایا اور مطالبہ کیا کہ شہباز شریف اور نیب کا ”مکالمہ‘‘ آن لائن دکھایا جائے تاکہ ساری دنیا دیکھ لے اور دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہو جائے۔ اپنے خلاف ایل این جی کیس میں بھی شاہد خاقان عباسی اسی پر اصرار کرتے رہے تھے۔ گرفتاری کے بعدانہیں جسمانی ریمانڈ کے لیے عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے اپنی وکالت آپ کرنے کا فیصلہ کیا ، کلامِ شاعر بزبانِ شاعر۔ عدالت کی خدمت میں ان کی گزارش تھی کہ انہیں ایک ہی بار 90 روز کے جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں دے دیا جائے تا کہ وہ تفصیل کے ساتھ انہیں یہ کیس سمجھا سکیں ( نیب قوانین کے تحت جسمانی ریمانڈ کی زیادہ سے زیادہ مدت 90روز ہے، جس کے بعد ملزم کو (مزید تفتیش کے لیے) جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے جوڈیشل ریمانڈ کے دوران ضمانت کی درخواست دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی کی دس ماہی کابینہ میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی اس کیس میں شریک ملزم تھے۔ کراچی کی بزنس فیملی سے تعلق رکھنے والے مفتاح اسماعیل کی مسلم لیگ(ن) سے وابستگی تو قدیم تھی لیکن وہ معروف معنوں میں ”سیاسی کارکن‘‘ نہیں رہے تھے لیکن انہوں نے بھی چار ماہ کی حراست بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ کاٹ لی۔ عدالت میں پیشی پر میڈیا کے کیمروں کے سامنے وہ ہمیشہ ہنستے مسکراتے نظر آئے۔ شاہد خاقان عباسی نے نیب کی حراست میں اور پھر اڈیالہ جیل میں جسمانی ریمانڈ کے دوران بی کلاس کی وہ سہولتیں لینے سے بھی انکار کر دیا تھاجو سیاسی و سماجی مرتبے کے حوالے سے ان کا قانونی حق تھیں۔ وہ تو مفتاح اسماعیل نے جیل سے رہائی کے بعد، لندن میں حسین نواز کے ذریعے میاں صاحب سے رابطہ کیا جنہوں نے شاہد خاقان عباسی کو ضمانت کے لیے درخواست دینے کی ہدایت کی کہ وہ چھ ماہ سے زائد جیل کاٹ چکے ، ان کا جیل سے باہر ہونا مسلم لیگ کے لیے زیادہ مفید ہو گا۔
شہباز شریف آشیانہ ہاؤسنگ سکیم والے کیس میں 133 دن حراست میں رہے۔ ان میں 61 دن براہِ راست نیب کی تحویل کے تھے۔ اب وہ منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں مطلوب ہیں۔ کیا وہ 4 مئی کو بھی نیب کی کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم(CIT) کے روبرو پیش نہیں ہوں گے اور ”قانون سب کے لیے یکساں‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے انہیں تفتیش میں عدم تعاون کے الزام میں حراست میں لے لیا جائے گا؟ اس روز 9واں روزہ ہو گا۔ اس صورت میں کیا قائدِ حزب اختلاف کی ایک اور عید جیل میں گزرے گی؟ ادھر ”فرزندِ لال حویلی‘‘ کا کہنا ہے کہ انہوں نے عمران خان سے کہہ دیا ہے کہ ابھی وہ اپنی تمام تر توجہ کورونا پر رکھیں۔ اس سے بچ نکلے تو احتساب کے لیے بہت وقت ہو گا۔
اس عالم میں بھی، کہ میڈیا کی توجہ کورونا پر مرکوز ہے، شہباز شریف کا ”انٹرویو‘‘ سیاسی و صحافتی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ ٹاک شوز کا موضوع بھی بنا اور کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں نے بھی اس پر طبع آزمائی کی۔ اس انٹرویو میں‘ جو سہیل وڑائچ نے کالم کی صورت شائع کیا، شہباز صاحب نے اپنے اس ”بیانیے‘‘ کا اعادہ کیا کہ ملک کو اگر چلانا ہے تو فوج اور سیاست دانوں نے مل کر چلانا ہے۔ چنانچہ وہ فوج کے ساتھ محاذ آرائی کی بجائے، اس کے ساتھ بنا کر رکھنے کے قائل ہیں۔ 25 جولائی 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے اقتدار میں واپسی کے امکانات روشن تر تھے لیکن میاں نواز شریف (اور مریم نواز کے) بیانیے نے راستہ روک دیا حالانکہ اگر اقتدار ملتا تو شہباز شریف (اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران) پل کا کردار ادا کر کے بیانیے کا یہ مسئلہ بھی حل کر سکتے تھے۔
”بیانیے‘‘ کے حوالے سے دونوں بھائیوں میں اختلاف نیا نہیں۔ شہباز صاحب شروع ہی سے ”بنا کر رکھنے‘‘ کے حق میں رہے ہیں اور انہوں نے اپنی اس رائے کو چھپا کر رکھنے کی ضرورت بھی کبھی محسوس نہیں کی۔ اپنی اسی رائے کے باعث وہ ”مقتدرہ‘‘ کے لیے ہمیشہ قابلِ قبول (بلکہ قابلِ ترجیح) رہے۔ 1990 والی قومی اسمبلی میں (میاں نواز شریف کی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دوران) شہباز صاحب بھی قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ انہوں نے لاہور سے پنجاب اسمبلی کی نشست چھوڑ دی تھی۔ تب غلام حیدر وائیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔ صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف میں فاصلے پیدا ہونے لگے تو ایوانِ صدر کی طرف سے شہباز شریف کو بڑے بھائی کی جگہ لینے کے اشارے ملنے لگے لیکن شہباز شریف نے کان نہ دھرے۔ 1997-99 میں میاں نواز شریف کی دوسری وزارتِ عظمیٰ کے دوران بھی ایک سے زائد بار یہ ”پیشکش‘‘ دہرائی گئی لیکن شہباز شریف بڑے بھائی سے بے وفائی پر آمادہ نہ ہوئے؛ البتہ ”بنا کے رکھنے‘‘ کی پالیسی پر وہ قائم تھے۔ مشرف دور میں، جلا وطنی سے قبل، لانڈھی جیل میں حراست کے دوران بھی شہباز شریف کا یہی مؤقف تھا، جس کا انہوں نے ایک آدھ بار میڈیا میں اظہار بھی کر دیا، جس پر انہیں بڑی بیگم صاحبہ (مرحومہ) کی طرف سے سرزنش کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ میاں صاحب کے تیسرے دورِ اقتدار میں مشرف پر مقدمے کے حوالے سے بھی ان کے تحفظات تھے۔ وہ ”خلائی مخلوق‘‘ والے بیانیے پر بھی خوش نہیں تھے۔ میڈیا سے گفتگو میں ”خلائی مخلوق‘‘ کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی ”خلائی مخلوق‘‘ کو نہیں، ”خدائی مخلوق‘‘ کو جانتے ہیں۔
اُدھر بڑے میاں صاحب کا بیانیہ کیا ہے؟ ”ووٹ کو عزت دو‘‘۔ اور ان کے بقول، اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہاں حکومتوں کے قیام (اور زوال) میں فیصلہ کن حیثیت عوام کو حاصل ہو۔ اس ملک میں ایک تحریری آئین ہے جس نے سب کے اختیارات، حقوق اور فرائض متعین کر دیئے ہیں۔
شہباز صاحب کی یہی بات مسلم لیگی ورکر اور ووٹر کو خوش آ گئی ہے کہ ”حکمت عملی‘‘ یا بیانیے کے اختلاف کے باوجود ان کی آخری وفاداری اپنے بھائی کے ساتھ ہے جس کے لیے ”اپنے‘‘ اقتدار سے محرومی بھی ان کے خیال میں کوئی بڑی قیمت نہیں۔ اس انٹرویو میں بھی ان کا کہنا تھا، مجھے اپنے بڑے بھائی کے پیٹ میں چھرا گھونپ کر ملنے والا اقتدار (محاورہ پیٹھ میں چھرا گھونپنا ہے) کسی صورت قبول نہیں۔ میری اس کمٹ منٹ کا سب کو علم ہے۔