Site icon DUNYA PAKISTAN

رمضان اور کورونا وائرس: کیا کووڈ 19 کے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں؟

Share

پاکستان سمیت دنیا بھر کے زیادہ تر ممالک اس وقت کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہیں۔ لاکھوں لوگ اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں اور ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں آنے والے دنوں میں متاثرین میں مزید اضافہ ہو گا۔

یہ وبا ان دنوں میں پھیلی ہوئی ہے جب مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کا آغاز ہو چکا ہے یا آج ہونے والا ہے۔ اس مہینے میں دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان سحر سے غروبِ آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں اور اس دوران کھانا پینا ترک کر دیتے ہیں۔

رمضان کے آغاز سے ہی یہ سوال بھی گردش کرنے لگا ہے کہ اس وبا کا روزے داروں پر کوئی اثر ہو سکتا ہے یا نہیں اور کیا اس وائرس کا شکار ہونے والے یا اس سے صحت یاب ہونے والے افراد روزہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔

صوم یعنی روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے تاہم اسلام میں ایسے بیمار شخص کو روزہ قصر کرنے کی اجازت ہے جو اپنی بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی سکت نہ رکھتا ہو۔

روزے کے انسانی جسم پر اثرات

ماہرین صحت کے مطابق انسان کا جسم روزے کے آغاز کے آٹھ گھنٹے بعد تک معمول کی حالت میں رہتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب معدے میں پڑی خوراک مکمل طور پر ہضم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد جسم جگر اور پٹھوں میں ذخیرہ شدہ گلوکوز کے ذرائع استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے اور جب یہ ذخیرہ بھی ختم ہو جائے تو پھر جسم چربی کو پگھلا کر توانائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ماہرین کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم میں ذخیرہ شدہ چربی کے بطور خوراک استعمال سے وزن گھٹنا شروع ہو جاتا ہے، کولیسٹرول کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے اور ذیابیطس کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی جسم میں شوگر کم ہونے سے کمزوری اور تھکاوٹ کا احساس شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سردرد، سر چکرانا، متلی اور سانس سے بدبو جیسی شکایات بھی ہو سکتی ہیں۔

کیا کورونا وائرس کے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں؟

پاکستان پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کو قطعاً روزہ نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ یہ وائرس جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہونے کی وجہ سے ہی حملہ آور ہوتا ہے اور اگر مریض بھوکے یا پیاسے رہیں تو اس سے مدافعتی نظام مزید کمزور ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔

سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ کے ڈاکٹر ناصر حسن کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کا جو رجحان نظر آرہا ہے اسے معمولی بیماری، متعدل اور شدید بیماری میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

تاہم انھوں نے کہا ’ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بعض لوگوں کی ہلکی علامات بعد میں شدت اختیار کر لیتی ہیں‘۔

ڈاکٹر ناصر کے مطابق ’معالج ہونے کے ناطے اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا تمام افراد اللہ تعالی کی دی ہوئی رعایت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور صحتمند ہونے کے بعد اپنے روزے شروع کر سکتے ہیں‘۔

اسلامی نظریاتی کاؤنسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا ہے کہ جن لوگوں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے انھیں تو روزہ رکھنے سے استثنیٰ حاصل ہے۔

تاہم ان کے مطابق جو لوگ تیمارداری پر مامور ہیں ان کا معاملہ فرداً فرداً دیکھنے کی ضرورت ہے اور ایسے افراد علما کی ہدایت کی روشنی میں فیصلے کرسکتے ہیں۔

افطار کے لوازمات کی فروخت کے لیے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں جگہ جگہ عارضی سٹال لگائے جاتے ہیں

کورونا سے صحت یاب افراد کیا روزے رکھ سکتے ہیں؟

اس بارے میں ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ جو مریض صحت یاب بھی ہو چکے ہیں ان کا جسم جب تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو جاتا انھیں روزے نہیں رکھنے چاہییں کیونکہ اس سے انھیں مزید کمزوری ہو سکتی ہے۔

تاہم ڈاکٹر ناصر حسن کا کہنا ہے کہ اس کا فیصلہ اسی شخص کو کرنا چاہیے جو صحت یاب ہوا ہے۔ ’جو لوگ اس بیماری سے صحت یاب ہو چکے ہیں اور وہ اپنے اندر کمزوری اور نقاہت محسوس نہیں کرتے تو وہ روزے رکھ سکتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ مریضوں کے ٹھیک ہونے کا عرصہ دو ہفتے تو کچھ تین چار ہفتوں میں صحت یاب ہو رہے ہیں۔ اب اگر وہ معمولات زندگی درست انداز میں سرانجام دے رہیں تو روزہ رکھ سکتے ہیں‘۔

اس بارے میں ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص کو دن میں دوائی لینی ہے تو ایسے شخص کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔

Exit mobile version