کورونا پر پاکستان میں جتنی بحثیں چل رہی ہیں ان میں سب سے واہیات وہ ہے جو مذہب بیزار لوگوں اور جنت کا ٹکٹ جیب میں لے کر گھومنے والے مومنین میں ہو رہی ہے۔
وہ خالی خانہ کعبہ کی تصویریں لگا کر کہتا ہے کہ دیکھو تمہارا خدا بھی چھٹی پر چلا گیا ہے۔ دوسری طرف سے جواب آتا ہے کہ تم کہتے تھے کہ مغرب نے بہت ترقی کر لی ہے اب سارے کافر جان بچانے کے لیے ہمارے وضو کی نقل کر رہے ہیں۔
وہ کہتا ہے کہ دنیا میں کونسا مسلمان ہے جو ویکسین تیار کر رہا ہے۔ جواب آتا ہے کہ کورونا وہاں پھیلا ہے جہاں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا تھا۔
مسجدیں بند کرنے کا مطالبہ آتا ہے، کوئی مائی کا لعل مسجد کا امام کر کے تو بتائے۔ کورونا کو شیعہ سنی بنانے کی بھی کوشش ہوئی ہے۔
ایسے میں عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں تو اگلے ہی دن صوبے کہتے ہیں کہ ہمارا جی تو گھبرا رہا ہے۔
خان صاحب ویسے پہلے فرما چکے ہیں کہ سکون تو قبر میں ہی آنا ہے تو لوگوں کو یہ شک بھی پڑتا ہے کہ شاید یہ کورونا خان صاحب کے ایجنڈے کا حصہ ہو اورکل وہ ہاتھ اٹھا کر یہ دعوی کرتے پائے جائیں کہ دیکھیں کورونا کو پاکستان میں میں لے کر آیا تھا جیسے ایک دفعہ لیڈی ڈیانا کو لے کر آیا تھا۔
خان صاحب ایک درد مند انسان ہیں اور اس قوم کے غم میں کبھی چھٹی بھی نہیں کرتے۔
تو گھبرانا یا گھبرانا نہیں کے بیچ کا راستہ نکالنے کے لیے ریاست کے پاس ایک ہی چارہ بچا تھا کہ قوم کو ایک چائے کے عوض مولانا طارق جمیل کو پیش کر دیا جائے۔
مولانا اتنے بھلے آدمی ہیں کہ گریہ کرتے ہوئے اپنی صفائی بھی پیش کرتے گئے کہ انھوں نے کبھی دین نہیں بیچا، چائے کے کپ کو کون نہ کر سکتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی مسئلہ نہیں جو مولانا پہلے حل نہیں کر چکے۔ جب جنرل مشرف پر پے در پے قاتلانہ حملے ہوئے اور تحقیقات کے بعد پتا چلا کہ مخبری گھر سے ہوئی ہے تو یہ بھی احساس ہوا کہ شاید بیماری عسکری حلقوں میں اصل اسلام کے بارے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے تو سپاہ کی روحانی اصلاح کے لیے مولانا سے رجوع کیا گیا۔
ایف بی آر پاکستان کا وہ ادارہ ہے جس کا کام ٹیکس اور محصولات وصول کرنا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ ہمارا خزانہ جو اکثر خالی پایا جاتا ہے اس میں کرپٹ سیاستدانوں کے علاوہ ایف بی آر کے افسر بھی ذمہ دار ہیں جو سیٹھوں سے رشوت لے کر پورا ٹیکس نہیں لیتے۔
اس ادارے نے بھی اپنے افسروں کو سدھارنے کے لیے اپنے سارے دفاتر میں مولانا طارق جمیل کا خطاب کروایا۔ خزانہ ویسے کا ویسا ہی ہے لیکن مبینہ راشی افسر اپنی محفلوں میں مولانا کے قول سناتے پائے جاتے ہیں۔
جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی فیلڈنگ اور نیت خراب ہونے لگتی ہے تو کس کو بلایا جاتا ہے؟
جب بالی وڈ کے سپر سٹار عامر خان کو احساس ہوتا ہے کہ اپنے سے آدھی عمر کی لڑکیوں کے ساتھ شرٹ اتار کے آئٹم نمبر کرتے کرتے ان کا ایمان تو خراب نہیں ہو گیا تو وہ بھی مولانا کو ہی فون کرتے ہیں۔
تو یوں سمجھیں کہ ہمارے پاس ایک ایسا قومی اثاثہ موجود ہے جو قومی سلامتی پر ہماری رہنمائی کرتا ہے، ہمارے خالی خزانے کو بھرنے کے لیے بھی دعا کرواتا ہے، قومی کرکٹ ٹیم کا روحانی کوچ بھی ہے اور عامر خان کا لائف کوچ بھی ہے۔
تو خوف اور شک و شبہے کے زمانے میں قوم سے خطاب اُس کا بنتا تھا کیونکہ عمران خان کو تو سکرین پر دیکھ کر ہی لوگ سمجھتے ہیں کہ گھبرانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
انھوں نے عمران خان کو محنتی قرار دیا تو شاید قوم کے محنت کشوں کو لگا ہو کہ پوری قوم میں کیا ایک ہی محنتی پیدا ہوا ہے، ہم جو ہفتے کے سات دن بارہ گھنٹے مزدوری کرتے ہیں تو کیا یہ عیاشی ہے؟ انھیں سمجھنا چاہیے کہ دعاؤں میں استعاروں سے بھی کام لیا جاتا ہے۔
اگر عمران خان کامیاب، تو پورا ملک کامیاب۔ تاریخی طور پر ہمارے علما ہمارے سپہ سالاروں کے عقیدے پڑھتے آئے ہیں لیکن مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی کسی عالم نے ٹی وی پر آ کر فضائیہ اور بحریہ کے سربراہوں کی توصیف کی ہو۔
مولانا طارق جمیل اپنی شفقت میں بخیلی نہیں کرتے۔ پپیاں، جپھیاں سب کے لیے، بخشش سب کی ہوگی۔
کراچی میں ایک سیٹھ ہیں جن میں سارے شرعی اور غیر شرعی عیب پائے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ مولانا کے جلی معتمد ہیں اور جھوم جھوم کر ان کے قول سناتے ہیں۔فون پر رنگ ٹون بھی ان کی تصویر لگا کر رکھی ہے۔
میں نے عرض کیا کہ یہ تھوڑا سے تضاد نہیں؟ فرمایا کہ کیسا تضاد؟ قیامت کے دن اللہ پوچھے گا تو میں کہوں گا کہ میں تو گناہ گار ہوں، اور پھر مولانا طارق جمیل کو آگے کر دوں گا کہ باقی بات آپ کو یہ حضرت بتائیں گے۔