باقی دنیا کا تو پتا نہیں، ہمیں البتہ مذہب کے بارے میں پانچ غلط فہمیاں ہیں۔ پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ ہم چاہے جتنے بھی گناہ کر لیں، لوگو ں کے گردے نکال کر بیچ دیں، بچوں کے ساتھ مدرسوں میں زیادتی کریں، غیر مسلموں کی بستیوں کو آگ لگا دیں، ملاوٹ کریں، دھوکا دیں، امانت میں خیانت کریں، بالآخر سزا پانے کے بعد ہم نے جنت میں ہی جانا ہے۔
دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ ضروری نہیں اِن تمام گناہوں کی ہمیں سزا بھی ملے کیونکہ ہمارے خیال میں کچھ وظائف اور سورتیں اگر ایک مخصوص طریقے سے پڑھ لی جائیں تو اِن کا اس قدر ثواب ملتا ہے کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے، اس سے تمام گناہ دھل جاتے ہیں اور مسلمان بالکل نومولود کی طرح قلقاریاں مارتا ہوا جنت میں داخل ہو سکتا ہے۔
تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ دنیاوی مسائل تعویذ، ٹوٹکوں، عملیات، وظیفوں اور روحانی کشف کی مدد سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ چوتھی غلط فہمی یہ ہے کہ وبائیں، قدرتی آفات سب خدا کی ناراضی کی نشانیاں ہیں، یہ ہمارے گناہو ں کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں، اِن سے بچاؤ کا طریقہ یہی ہے کہ خدا کے آگے دعا کی جائے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے۔
پانچویں غلط فہمی یہ ہے کہ چونکہ یہ دنیا عارضی اور فانی ہے، اِس کی حیثیت ایک امتحان گاہ سے زیادہ نہیں، لہٰذا دنیا کمانے کے بجائے آخرت کمانی چاہیے۔
میں نہیں جانتا کہ یہ غلط فہمیاں ہمارے دماغوں میں کیسے راسخ ہو گئیں، میں خود دین کا ادنیٰ سا طالبعلم ہوں، قران کی تفاسیر اور سیرت کی کتابوں سے استفادہ کرتا رہتا ہوں، مختلف علمائے کرام کو بھی سنتا رہتا ہوں اور جہاں کوئی بات سمجھ نہ آئے تو قران مجید کے اصل متن سے رہنمائی لے کر اپنی رائے قائم کرتا ہوں۔
اپنی تمام تر کم علمی کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جس قسم کا تصور مذہب ہم نے اپنے دماغوں میں بٹھا رکھا ہے اُس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ وہی تصورِ مذہب ہے جس کی جھلک مولانا طارق جمیل نے اگلے روز اپنی دعا میں دکھائی۔
بیشک مولانا نے رزق حلال کمانے پر زور دیا، جھوٹ کو برائی کی جڑ قرار دیا اور امانت داری کا درس دیا مگر مولانا کے بیان کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اصل میں یہ وبا ہمارے گناہوں کی سز اور خدا کا عذاب ہے، ہمارے معاشرے میں چونکہ ناچتی ہوئی عورتوں کی بے حیائی بڑھ رہی ہے تو ایسے میں خدا ہمیں کیونکر معاف کرے گا۔
ظاہر ہے کہ جب ہمارے عالم دین اِس قسم کی تاویلات پیش کریں گے تو اُن پر اعتراضات بھی ہوں گے، مثلاً اگر یہ وبا جھوٹ اور بے حیائی کی وجہ سے پھیلی تو سب سے پہلے تبلیغی جماعت اور زائرین کیوں اِس کا نشانہ بنے، یہ عجیب وائرس ہے کہ پھیلا تو عورتوں کی بے حیائی کی وجہ سے ہے مگر زیادہ تر مرد اِس کا شکار ہو رہے ہیں، اگر وائرس پھیلنے کا معیار بے حیائی ہے تو پھر یہ وائرس مکہ مکرمہ میں کیوں پھیلا؟ ہم ظالم ہیں، لالچی ہیں، جھوٹے، دغا باز اور فحش لوگ ہیں تو پھر خدا سے کس منہ سے دعا کر رہے ہیں کہ یہ وبا موڑ دے، مولانا نے تمام ثبوت ہمارے خلاف دیے، قوم لوط کی مثال بھی جڑ دی تو پھر اللہ ہماری کیوں سنے؟ ایک طرف آپ فرماتے ہیں کہ خدا کا عذاب ہے، دوسری طرف کہتے ہیں کہ اِس بیماری سے مرنے والے شہید ہیں۔ گویا یہ عذاب ہماری بے راہ روی اور بے ایمانی کے نتیجے میں آیا اور جو اِس کی زد میں آیا وہ شہید ٹھہرا اور کیا بطور مومن ہمیں شہادت سے بچنا چاہیے یا اسے گلے لگانا چاہیے!
یہ خلاصہ ہے اسی تصورِ دین کا جو ہمارے دماغ میں بچپن سے بٹھا دیا گیا، اِس تصور میں بھلے کتنے ہی تضادات کیوں نہ ہوں، اسے پذیرائی ملتی ہے اور عام مسلمان اِس کی طرف کھنچتا ہے، اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کا آسان حل چاہتے ہیں، جیسے کوئی پاور ڈوز جو سب کچھ ٹھیک کر دے، کوئی معجزہ، کوئی کرشمہ، جنت میں جانے کا کوئی شارٹ کٹ راستہ! حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ہونا آسان کام نہیں، اسلام چند وظائف پڑھ کر جنت کمانے کا نام نہیں اور نہ ہی یہ چار پیسے خیرات کرکے جنت میں حور سے ملاقات کروانے کا اہتمام کرتا ہے، اسلام تو ظلم کے خلاف لڑنے کا نام ہے، اِس کے راستے میں تو غاصب کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا پڑتا ہے، مظلوم کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ دینا پڑتا ہے، امرا اور طاقتور طبقات کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے یہی کیا، آپﷺ نے مکہ کی اُس وقت کی اشرافیہ اور Ruling Eliteکے خلاف ایسی جدوجہد کی جو رہتی دنیا تک امر ہو گئی، ایک حبشی غلام کو وہ درجہ دیا جو مکہ کے سردار کو حاصل تھا، رنگ و نسل کی تمیز مٹا دی اور ایسا انقلاب برپا کیا جو کسی معجزے سے کم نہیں مگر اِس کے لیے آپﷺ نے عملاً خود جدوجہد کی۔
سردارِ دو جہاںؐ نے خود تکالیف کاٹیں اور مصائب برداشت کیے، آپﷺ چاہتے تو خدا سے دعا کرکے ٹال سکتے تھے مگر آپﷺ نے ایسا نہیں کیا۔ یہ ہے وہ راستہ جس پر ہمیں چلنا تھا مگر افسوس کہ ہم نے بھلا دیا اور اس کی جگہ دین کی بگڑی ہوئی شکل کو اپنا لیا، اب ہمارے عالم دین مبہم دعائیں کرتے ہیں، حوروں کی تصویر کشی کو دین کی خدمت سمجھتے ہیں اور جن طبقات کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے، الٹا انہی سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہیں۔ اِس تصورِ دین کو بڑھاوا دینے میں صرف اِن مبلغو ں کا قصور نہیں بلکہ معاشرے کے تمام طبقات نے اِن کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں، ہر دور کے حکمرانوں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا ہے، تاجر برادری کی یہ آنکھ کا تارا ہیں، سرکاری افسران اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے انہیں بیان کی دعوت دیتے ہیں اور رہے عام مسلمان تو ان بیچاروں کی داد رسی جب ریاست نہیں کرتی تو یہ مجبور ہو کر اِن کے در پر پہنچ جاتے ہیں اور مولانا سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔ جیسے عوام ہوں گے ویسی دعا ہو گی!