منتخب تحریریں

ایک برے دوست کے لیے

Share

آج سے 27سال پہلے 6 جون کو جب میں ملتان سے ’’فرار‘‘ ہوکر لاہور آیا تو میری جیب میں 55روپے اور ہاتھ میں کتابوں سے بھرا اٹیچی کیس تھا۔ لاہور میں میری پہلی دعوت ’’داتا صاحب‘‘ نے کی۔ ریلوے اسٹیشن سے میں سیدھا اُن کے مزار پر پہنچا۔ ایک شاپر اٹھایا اور لنگر خانے سے ادھ پکے چاولوں کا ایک ڈھیر اُس میں ڈلوا کر وہیں بیٹھ کر کھانا شروع کر دیا۔ میرے پاس لاہور میں موجود میرے سارے دوستوں کے فون نمبر موجود تھے لہٰذا پیٹ بھرنے کے بعد میں نے اطمینان سے فون نمبر والی چٹ نکالی اور قریبی پی سی او سے اپنے ایک ’’اچھے دوست‘‘ کو فون کیا۔ میری آواز سن کر وہ بہت خوش ہوا لیکن جب اسے پتا چلا کہ میں واقعی لاہور آگیا ہوں تو وہ پریشان سا ہوگیا۔ اُس کے لہجے میں بے بسی اُتر آئی، گھگھیا کر بولا ’’ہمارے گھر کا ماحول تو تمہیں پتا ہے، ابو کبھی بھی کسی غیر کو گھر میں رہنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ میرا اچھا دوست لاہور جیسے انسانوں کے سمندر میں مجھ سے ہاتھ چھڑا رہا تھا۔ میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ میری نظر فون پر پڑی جہاں دو یونٹ گر چکے تھے۔ میں نے جلدی سے فون رکھ دیا۔ اچانک یاد آیا کہ سنا تھا ’’داتا صاحب‘‘ کے دربار پر دعائیں بڑی قبول ہوتی ہیں۔ میں نے جلدی سے اٹیچی کیس اٹھایا، جوتے بغل میں دبائے اور دربار کی سیڑھیاں چڑھ گیا۔ سنگ مرمر کے ٹھنڈے فرش پر قدم رکھتے ہی مزا آ گیا، مجھے یقین ہوگیا کہ داتا صاحب نے میری آدھی دعا سن لی ہے۔ سامنے مزار تھا۔ میں دعا بھول کر شب بسری کے لیے کوئی مناسب کونا ڈھونڈنے لگا، پھر صحن میں مسجد کے سامنے مجھے ایک جگہ مل ہی گئی۔ میں نے جیب سے رومال نکال کر پھولوں کی پتیوں اور مخانوں کو فرش سے صاف کیا، جوتیاں بیگ میں رکھیں، بیگ کو دائیں جانب رکھا، ہاتھوں کا تکیہ بنایا اور اطمینان سے آنکھیں موند لیں۔ اسی دوران عشاء کی اذان شروع ہوگئی۔ آنکھ کھلی تو اذان جاری تھی۔ اسی لمحے موذن پکارا ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ اور میں ہڑبڑا گیا۔ یہ عشاء کی نہیں فجر کی اذان تھی۔ میں لاہور میں پہلی رات گزار چکا تھا۔ ناشتے میں ’’داتا صاحب‘‘ میرے لیے دال روٹی لائے تھے۔ میں نے وضو والی ٹونٹی سے منہ ہاتھ دھوئے۔ لنگر سے جاکر دال روٹی کھائی۔ جیب میں رکھے پیسوں کو گنا اور بیگ اٹھا کر پھر سڑک پر آگیا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ پی سی او پر پہنچا، جیب سے اچھے دوستوں کے فون نمبر والی چٹ نکالی اور باری باری نمبر ملانا شروع کیے۔ ہر اچھا دوست واقعی بہت اچھا ثابت ہوا کیونکہ کسی نے بھی لفٹ نہ کرائی۔ البتہ آخری کال میں نے جس اچھے دوست کو ملائی اُس نے ایک اچھی بات ضرور کی کہ اِس طرح گھر سے بھاگ کر آنے والوں کا حال ’’شکیل لنگڑے‘‘ کی طرح ہوتا ہے جو دس سال پہلے لاہور آیا تھا اور اب منشیات اور جوے میں غرق ہو چکا ہے۔ مجھے فوراً یاد آیا کہ میرے پاس شکیل لنگڑے کا نمبر بھی کہیں محفوظ ہے، میں نے کال ختم کی اور اٹیچی کیس کھول کر اُس میں سے کتابیں نکال نکال کر چیک کرنا شروع کر دیں، ایک کتاب کے آخری صفحے پر کچی پنسل سے لکھا ہوا شکیل لنگڑے کا نمبر مل گیا۔ شکیل لنگڑا ملتان میں میرے ساتھ پل بڑھ کر جوان ہوا تھا، انتہا کا لوفر اور آوارہ انسان تھا۔ والدین کی طرف سے مجھے سخت ہدایت تھی کہ اس شخص کے سائے سے بھی دور رہنا ہے لیکن چونکہ ہم سب کھیلتے اکٹھے تھے اس لیے شکیل لنگڑے سے قطع تعلق مشکل ہو جاتا تھا، تاہم میں نے ہمیشہ اُسے ناپسندیدگی کی نظروں سے ہی دیکھا۔ بچپن میں شکیل لنگڑے کی ٹانگ پر سے ریڑھا گزر گیا تھا اس لیے وہ لنگڑا کر چلتا تھا۔ ہم سب اسے چھیڑتے تھے کہ وہ چلتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے لڈی ڈال رہا ہے۔ مجھے یاد ہے جب اس کے باپ نے تیسری شادی کی تھی تو وہ اپنے باپ کی دعوت ولیمہ والے دن لاہور بھاگ گیا تھا۔ میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ شکیل لنگڑے کا نمبر ملایا۔ دوسری طرف سے ایک غلیظ گالی کے ساتھ آواز آئی ’’کون ہے بے تُو‘‘۔ میں نے جلدی سے اپنا نام بتایا۔ نام سنتے ہی وہ خوشی سے پاگل ہوگیا۔ فوراً بولا تم اُدھر ہی رُکو میں آرہا ہوں۔ میں رسیور ہاتھ میں پکڑے حیران کھڑا تھا۔ اچانک ہی کام بن گیا تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ اپنی پھٹیچر سی موٹر سائیکل پر دربار کے باہر آگیا، مجھے دیکھتے ہی اس کے پیلے پیلے دانت نکل پڑے اور وہ بے اختیار مجھ سے چمٹ گیا۔ اس نے مجھے موٹر سائیکل پر بٹھایا اور ایک کچی سی بستی کے ٹوٹے پھوٹے گھر میں لے آیا۔ اس کے سارے جواری دوست یہاں رہتے تھے اور ہر وہ کام کرتے تھے جو کوئی بھی برا انسان کر سکتا ہے۔ شکیل لنگڑے کے اس گھر میں مجھے دو ماہ گزارنے کا موقع ملا۔ اِس دوران نہ اُس نے مجھ سے کرایہ مانگا نہ کھانے کے پیسے بلکہ الٹا سو دو سو مجھے پکڑا دیتا۔ وہ اور اُس کے برے دوست بہت ہی برے تھے لیکن جب میں ’’شہاب نامہ‘‘ خریدنا چاہتا تھا تو اِن برے دوستوں نے جوے کے پیسے میرے ہاتھ پر رکھ دیے اور یوں میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایک بیش قیمت کتاب خریدی۔ رسالوں کو بذریعہ ڈاک اپنی تحریریں بھیجنے کے لیے ڈاک ٹکٹ اور لفافے بھی شکیل لنگڑا فراہم کرتا تھا۔ میری لائبریری میں رکھی متعدد کتابیں شکیل لنگڑے کی مرہونِ منت ہیں۔ 27سال گزر گئے۔ شکیل لنگڑا پولیس مقابلے میں مارا جا چکا ہے۔ اُس کی لاش کو لاوارث قرار دے کر دفنا دیا گیا تھا۔ میانی صاحب قبرستان میں اس کی گمنام سی قبر آج بھی موجود ہے۔ میں جب بھی اُس کی قبر پر جاتا ہوں بغیر کچھ پڑھے آ جاتا ہوں۔ کسی نے بتایا تھا کہ ایسے بُرے لوگوں کے لیے بخشش کی دعا بھی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن پتا نہیں کیوں مجھے لگتا ہے اگلے جہان میں بھی جب کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا شکیل لنگڑا ضرور کہیں سے نکلے گا اور مجھے جپھی ڈال لے گا۔