منتخب تحریریں

دیہاڑی داروں کا المیہ

Share

جب سے لاک ڈائون (بے شک یہ صرف اور صرف نام کا لاک ڈائون تھا) شروع ہوا ہے میں ملتان میں ہوں اور حتی الامکان حد تک لاک ڈائون اور سماجی فاصلے کی ہدایات کے ساتھ ساتھ ہاتھ دھونے اور ہینڈ سینی ٹائزر ملنے میں مصروف ہوں۔ اس لاک ڈائون کے دو حصے تھے۔ پہلا حصہ تھا جس میں میڈیکل سٹورز، ضروریات زندگی کی روزمرہ والی اشیا، گوشت، سبزی اور دودھ کی دکانیں کھلی تھیں اور باقی سب کچھ بند تھا۔ دوسرا حصہ وہ ہے جس میں کھلنے والی دکانوں کی تفصیل اتنی طویل ہے کہ یہ بتانا زیادہ مناسب ہے کہ کون کون سے کاروبارِ زندگی بند ہیں۔ شادی ہال، بڑے بڑے مال اور کپڑے وغیرہ کی دکانیں بند ہیں۔
سماجی فاصلے کو برقرار رکھتے ہوئے باربر شاپ پر بال کٹوانا کیسے ممکن ہے؟ ابھی تک کم از کم پاکستان میں تو اس عاجز کو چھ فٹ لمبی قینچی اور چار فٹ لمبا استرا دیکھنے کا کہیں اتفاق نہیں ہوا۔ درزی کی دکانیں کھلی ہیں لیکن کپڑے کی دکانیں بند ہیں۔ سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بند ہیں لیکن کتابوں کی دکانیں کھلی ہیں۔ سینٹری سٹور ابھی تک بند ہیں؛ تاہم پلمبر کام کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ یہی حال ہارڈ ویئر اور الیکٹرک سٹورز کا ہے‘ الیکٹریشن اور مستریوں کو کام کرنے کی چھوٹ ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے؟
ملک خالد نے لندن سے فون کر کے پوچھا کہ سڑکوں پر ٹریفک کا کیا حال ہے؟ میں نے بتایا کہ سب کچھ اب معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ سڑکوں پر الحمد للہ کافی رش ہے (کم از کم ملتان کی حد تک)کافی ریل پیل ہے اور دکانوں میں بندے پر بندہ چڑھا ہوا ہے اور بازاروں میں کھوّے سے کھوا چھل رہا ہے۔ سماجی فاصلے کی سب نے ایسی کی تیسی پھیر کر رکھ دی ہے۔ ہر بندہ اپنی مرضی سے زندگی گزار رہا ہے۔ دنیا بھر میں مسجدیں بند ہیں پاکستان میں کھل گئی ہیں‘ بلکہ کھلی تو پہلے بھی تھیں، اب سرکاری طور پر کھل گئی ہیں۔ گورنمنٹ بلا شک و شبہ پاکستان کے مولویوں سے ڈر گئی ہے؛ تاہم محض انگریزی والے Face saving کے مطابق علما اور حکومت نے کوئی بیس نکاتی باہمی فارمولا طے کر لیا ہے جس کے موٹے موٹے نکات تو آپ نے خود پڑھ لیے ہوں گے۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ صفوں کے درمیان فاصلہ چھ فٹ اور نمازیوں کے درمیان فاصلہ تین فٹ ہوگا اور پچاس سال سے زیادہ عمر کے افراد اور بچے مسجد میں نہیں آئیں گے۔ اس عمر کے سہارے مولوی منیب الرحمان، مفتی تقی عثمانی اور دیگر علما خود تو گھر میں بیٹھ جائیں گے کہ حکومت سے ان کا معاہدہ یہی طے پایا ہے اور معاہدے کی پابندی اب ان کا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہوگا۔ ظاہر ہے اتنے جید علما اپنے زرداری صاحب کی طرح یہ تو ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ معاہدے کون سا قرآن و حدیث ہیں کہ ان کی پابندی کی جا ئے۔ اب تمام بزرگ علمائے دین خود تو گھروں میں نماز اور تراویح پڑھیں گے اور ان کے سارے مقلدین مسجد میں نمازیں ادا کر کے کورونا کے رسک کا سامنا کریں گے۔ معاہدہ کرنے والا کوئی بھی عالم دین خود پچاس سال سے کم عمر کا نہیں تھا۔
گزشتہ دنوں اسی سماجی فاصلے والی ہدایت کے جاری ہونے کے بعد ایک جنازے میں شرکت کی۔ لواحقین نے پوری کوشش کر لی کہ نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے اصحاب درمیان میں فاصلہ رکھ لیں لیکن کسی نے ان کی نہ سنی بلکہ لواحقین کو زبردستی گلے مل کر تعزیت کرنے کی نہ صرف کوششیں کیں بلکہ بالآخر کئی اس میں کامیاب بھی ہو گئے۔ یہی حال سرکاری مسجد کا ہے جہاں میں جمعہ کی نماز ادا کرنے جاتا ہوں۔ یہ سرکاری کالونی اور دفاتر کے عین وسط میں سرکار کی مسجد ہے۔ امام مسجد سرکار کا تنخواہ دار ہے۔ مسجد سے قالین اور صفیں اٹھا دی گئی ہیں۔ امام صاحب مسجد کے ہال کے اندر چار کی بجائے تین صفیں بنواتے ہیں اور نمازیوں کا باہمی فاصلہ تین فٹ رکھوانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی تو مسجد کے ہال کے اندر کوئی نہیں سنتا برآمدے اور صحن میں تو ویسے بھی قانون کی کوئی نہیں سن رہا۔ دو نمازیوں نے درمیان میں تین فٹ کا فاصلہ چھوڑا تو پیچھے سے کوئی صاحب آئے اور اس ”درمیانی فاصلے‘‘ میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے: درمیان میں فاصلہ نہیں چھوڑنا چاہئے‘ اس طرح جماعت نہیں ہوتی۔
ایک بڑے گروسری سٹور میں داخلے کے دروازے پر ایک ورکر ڈیجیٹل تھرما میٹر کوہر آنے والے کے ماتھے کی طرف کر کے ان کا درجہ حرارت نوٹ کر رہا تھا۔ ساتھ ہی ہینڈ سینی ٹائزر ہے جو لگوایا جا رہا تھا۔ سامان کی ٹرالیوں کے ہینڈلز کو بھی ڈس انفیکٹ کیا جا رہا تھا اور اس کے بعد سب کچھ وہی ہو رہا ہے جو سماجی فاصلے کو ملیا میٹ کر رہا ہے۔ سامان کے Racks کے درمیان بنی ہوئی گلیاں لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ اردو محاورے کے عین مطابق ”کھوے سے کھوا چھل رہا تھا‘‘ لوگ کندھے سے کندھا ملائے شیلفوں میں سے سامان پسند کر رہے تھے۔ مصالحوں والے سیکشن میں اس سے بھی برا حال تھا۔ بیسن اور پکوڑیوں والی جگہ پر تو یہ حال تھا کہ لگتا تھا سب کچھ مفت تقسیم ہو رہا ہے۔ پورے سٹور کے اندر میلے کا سا سماں تھا اور تنگ گزر گاہوں میں لوگ ٹرالیاں پھنسائے کھڑے تھے۔ ایک لمحے کیلئے بھی کہیں یہ محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ کسی کو بھی کورونا کا خوف محسوس ہو رہا ہے اور وہ سماجی فاصلے کی ہدایت پر عمل کر رہا ہے۔ ہاں البتہ ”لش پش‘‘ پوری تھی۔ تقریباً ساٹھ ستر فیصد لوگوں نے فیس ماسک ضرور لگا رکھا تھا اور سٹور کے عملے نے بھی سو فیصد فیس ماسک لگا رکھے تھے؛ تاہم چیزوں کو ہاتھوں سے چھونے کا عمل بھی جاری تھا۔ سامان کو پہلے خود، پھر سکین کرنے والا اور پھر اسے شاپنگ بیگ میں ڈالنے والا‘ یعنی صرف کیش کائونٹر پر ہر چیز کو تین مختلف لوگ چھو رہے تھے۔ سکین کرنے والے نے ڈسپوزیبل دستانے بھی پہن رکھے تھے مگر سینکڑوں چیزوں کو سکین کرنے کے بعد یہ دستانے ان ہاتھوں سے زیادہ غیر محفوظ تھے جنہیں آپ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سینی ٹائزر سے ڈس انفیکٹ کر لیتے ہیں۔ گویا سارے کا سارا سسٹم ہی کورونا وائرس کی منتقلی کا فریضہ سر انجام دے رہا تھا۔ اوپر سے بھانت بھانت کے نوٹ جو خدا جانے کس کس کے ہاتھوں سے گزر کر آئے تھے اور آگے کس کس کے ہاتھوں میںجا رہے تھے۔ مرد و خواتین شیلفوں میں سے سامان اٹھا اٹھا کر دوبارہ واپس رکھ رہے تھے۔ ایک ایک چیز کم از کم چار پانچ بار مختلف ہاتھوں سے چھوئی جا رہی تھی۔ غرض جتنی بھی ہدایات کی خلاف ورزیاں ممکن تھیں زور و شور سے جاری تھیں۔ اب بھلا ایسی صورت میں دوسرے لوگوں کا کیا قصور ہے کہ انہیں روزی کمانے سے محروم رکھا جائے؟
یا تو یہ لاک ڈائون واقعی ویسا ہوتا جیسا کہ ہونے کا حق ہے‘ ورنہ اس منافقت اور دو عملی کو ختم کیا جائے اور کسی ایک طرف ہو جایا جائے۔ دیہاڑی دار سے مراد صرف مزدور یا مستری نہیں، پلمبر یا الیکٹریشن نہیں، باربر یا درزی نہیں‘ ریسٹورنٹ میں کام کرنے والا بیرااور باورچی بھی دیہاڑی دار ہے جو بے روزگار ہے۔ پرائیویٹ دفتر میں کام کرنے والا بھی دیہاڑی دار ہے جسے بلا تنخواہ فارغ کر دیا گیا ہے۔ پرائیویٹ سکولوں کے اساتذدہ کو تنخواہ نہیں مل رہی۔ عملی طور پر وہ بھی دیہاڑی دار ہی ہیں۔ یہاں ہر وہ شخص دیہاڑی دار ہے جسے کام نہ ہونے کی صورت میں بلا تنخواہ گھر بٹھا دیا جائے۔ کپڑے کی دکانوں کا سیلز مین ملازم بھی اسی زمرے میں آتا ہے اور بڑے بڑے مالز میں کام کرنے والے ملازمین بھی۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حکومتی ارکان اربوں روپے کے فنڈز نہ تو درست طریقے سے مستحقین تک پہنچ رہے ہیں اور نہ ہی ان کی مشکلات کم ہو رہی ہیں۔ لاک ڈائون ہے بھی نہیں اور دیہاڑی داروں کے لیے زندگی بھی عذاب بنی ہوئی ہے۔ حکمران، سرکاری افسر اور ادارے، ایسے بے رحم ہو چکے ہیں کہ سیلاب، زلزلے اور اب اس کورونا وغیرہ کے امدادی فنڈز پر بھی ہاتھ صاف کرنے سے باز نہیں آتے۔ سندھ میں اربوں روپے غتربود ہو چکے ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ دیہاڑی داروں کی مشکل میں معمولی کمی ضرور آئی ہوگی مگر ابھی بے شمار لوگ زندگی کے بدترین بحران کا شکار ہیں۔ دیہاڑی داروں کی کون کون سی قسم بیان کروں؟ ایک سابق وزیراعظم کی ایئر لائن کے ملازمین کو بھی دیہاڑی دار ہی شمار کریں کہ انہیں اپریل کی تنخواہ سے بھی پچانوے فیصد تک کی کٹوتی کی نوید سنائی گئی ہے۔ اب باقی کون رہ جاتا ہے جو سرکاری ملازمت کے علاوہ کہیں نوکری کرتا ہو اور دیہاڑی دار کی کیٹیگری میں نہ آتا ہو؟