Site icon DUNYA PAKISTAN

کورونا وائرس: کیا سویڈن کی کووِڈ 19 سے لڑنے کی حکمت عملی درست ہے؟

Share

کورونا وائرس کی وبا کے اس دور میں سویڈن میں سماجی سرگرمیاں جاری رکھنے کی سرکاری حکمتِ عملی کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ اس حکمت عملی کو حکومت کے لیے سائنسدانوں نے تشکیل دیا ہے اور حکومت نے اس کی حمایت کی ہے۔

لیکن ملک کے تقریباً تمام وائرالوجسٹ (وائرس اور ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین) اس سے متفق نہیں ہیں۔

دنیا کے بیشتر ممالک کے برعکس سویڈن میں لاک ڈاؤن نہیں ہے۔

دنیا بھر میں سویڈن کی ایسی تصاویر دیکھی گئی ہیں جن میں لوگ بار کے باہر بڑی تعداد میں بیٹھے ہوئے ہیں اور آئس کریم کی دکانوں کے باہر لوگوں کی قطاریں ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود سویڈن کے حوالے سے ایک عام غلط خیال یہ ہے کہ یہاں زندگی ’معمول کے مطابق‘ ہے۔

بظاہر سویڈن میں بہت کم جگہیں بند ہوئی ہیں۔ لیکن موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اکثر لوگوں نے رضاکارانہ طور پر سماجی فاصلہ اختیار کر لیا ہے۔

سویڈن کی حکمت عملی کا مرکزی حصہ یہی ہے کہ وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے لوگ خود سے سماجی فاصلہ اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔

پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، لوگوں کی ایک بڑی تعداد گھر سے کام کر رہی ہے اور زیادہ تر افراد نے ایسٹر کی چھٹیوں کے دوران سفر کرنے سے گریز کیا۔

حکومت نے 50 سے زیادہ افراد کے عوامی اجتماعات پر پابندی لگائی ہوئی ہے اور عمر رسیدہ افراد کے ’کیئر ہومز‘ میں بھی لوگوں کے جانے پر پابندی ہے۔

نووس نامی کمپنی کے سروے کے مطابق ہر 10 میں سے نو شہری کہتے ہیں کہ وہ آپسی میل جول کے دوران کم از ام ایک میٹر کا فاصلہ رکھ رہے ہیں۔

سویڈن میں وبا کی صورتحال کیا ہے؟

ملک کے محکمہ صحت کے مطابق جس طرح لوگوں نے وبا کے حوالے سے ردعمل دیا ہے وہ تعریف کے قابل ہے۔

سویڈن کے سائنسدانوں کی اس حکمت عملی پر عالمی سطح پر ہفتوں طویل بحث مباحثے ہوئے ہیں کہ آیا سویڈن نے عقل مندانہ اور مستحکم منصوبہ اپنایا ہے یا اس (سویڈن) نے غیر ارادی طور پر اپنی آبادی کو ایک تجربے کا حصہ بنا دیا ہے جس سے غیر ضروری اموات ہو رہی ہیں۔

بحث یہ بھی ہے کہ ممکن ہے کہ سویڈن کووڈ 19 کا پھیلاؤ کنٹرول میں رکھنے میں ناکام ہو جائے۔

دارالحکومت سٹاک ہوم اب تک ملک میں وائرس کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ نئے متاثرین کی تعداد رُک چکی ہے تاہم رواں ہفتے کے اختتام تک کیسز کی تعداد کافی زیادہ تھی کیونکہ گذشتہ دنوں کے دوران سویڈن میں کورونا ٹیسٹنگ میں اضافہ ہوا تھا۔

انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں اب بھی کورونا کے مریضوں کے لیے جگہ مختص کی گئی ہے اور ایک نیا فیلڈ ہسپتال قائم کیا گیا ہے جسے اب تک استعمال نہیں کیا گیا۔

سویڈن کی حکومت کے وبائی امراض کے ماہر اینڈرز ٹیگنل کا کہنا ہے کہ ’ہم وہ چیز بڑی حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو ہم حاصل کرنا چاہتے تھے۔‘

’دباؤ کے باوجود سویڈن میں صحت کا نظام چلتا رہتا ہے۔ لیکن ایسے نہیں کہ مریضوں کا علاج کرنے کے بجائے انھیں واپس گھر بھیج دیا جائے۔‘

دوسرے ملکوں میں سیاسی رہنما اس بحران پر قومی حکمت عملی پر بریفنگ دیتے ہیں مگر دنیا کے برعکس سویڈن میں یہ کام وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر ٹگنل کرتے ہیں۔

ان کی انداز کافی مخصوص ہے اور ان کی زیادہ توجہ اعداد و شمار دینے پر ہوتی ہے۔ جبکہ وہ اس بحران کے عوام پر پڑنے والے جذباتی اثرات کا بھی تھوڑا بہت ذکر کرتے ہیں۔

سویڈن نے الگ راستہ کیوں اختیار کیا؟

سویڈن نے یورپ کے برعکس بڑی سطح پر سماجی سرگرمیاں بحال رکھنے کا فیصلہ تب کیا جب ڈاکٹر ٹیگنل کی ٹیم نے اندازوں کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وائرس آبادی کے حجم پر کس طرح اثر انداز ہو گا اور کیسے اسے روکا جا سکتا ہے۔

یہ ان اندازوں سے مختلف تھا جو دوسرے سائنسدانوں نے تشکیل دیے جس میں لندن کے ایمپریل کالج کی ایک رپورٹ بھی شامل ہے۔

بظاہر ایمپریل کالج کی اسی رپورٹ کی بنیاد پر برطانوی حکومت نے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

جبکہ سویڈن کی ہیلتھ ایجنسی ان خطوط پر آگے بڑھی کہ سامنے آنے والے کورونا کے بیشتر کیسز ہلکی نوعیت کی ہوں گے۔

تاہم ہیلتھ ایجنسی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کی حکمت عملی ’ریوڑ کی مجموعی قوت مدافعت‘ کے اصول پر مبنی نہیں ہے۔

اس حکمت عملی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سماجی دوری کے کم سخت اقدامات متعارف کروائے جائیں جن پر ایک طویل عرصے تک عملدرآمد ہو سکے۔

16 سال سے کم عمر بچوں کے سکول بند نہیں کیے گئے تاکہ بچوں کے ساتھ ساتھ والدین بھی مصروف رہ سکیں۔

سویڈن کے برعکس شمالی یورپ کے لگ بھگ تمام ممالک نے عارضی طور پر اپنی اپنی عوام پر بہت سخت پابندیاں عائد کی تھیں۔ اگرچہ وقت کے ساتھ چند ممالک نے ان پابندیوں میں نرمی لانا شروع کر دی ہے۔

نمبرز ہمیں کیا بتاتے ہیں؟

سویڈن کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ ہے۔ اگر بات کورونا کے مصدقہ متاثرین کی کی جائے تو سویڈن کا شمار ان 20 ممالک میں ہوتا ہے جو وبا سے متاثرہ افراد کی فہرست میں سرِفہرست ہیں۔ سویڈن میں عموماً کورونا ٹیسٹ صرف ایسے مشتبہ مریضوں کا کیا جاتا ہے جن میں وبا کی علامات شدید نوعیت کی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں مختلف شعبوں اور صنعتوں میں کام کرنے والے افراد کے حوالے سے سکریننگ کا عمل شروع کیا گیا ہے۔

آبادی کے تناسب سے یہاں شرح اموات دیگر سکینڈینیوین ممالک سے زیادہ ہے۔

دیگر ممالک کے برعکس سویڈن میں متاثرہ افراد کی گنتی میں کیئر ہومز میں موجود عمر رسیدہ افراد کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں ہونے والی مجموعی ہلاکتوں میں 50 فیصد وہ عمر رسیدہ افراد شامل ہیں جن کی ہلاکتیں کیئرہومز میں ہوئی ہیں۔

اس کے علاوہ یہاں آباد دیگر ممالک کے افراد، خاص طور پر صومالیہ کے باشندوں کی ایک کثیر تعداد بھی مصدقہ متاثرین اور ہلاکتوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔

سویڈن کے سب سے بڑے میڈیکل ریسرچ سینٹر، کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ، سے منسلک وبائی امراض کی ماہر کلاڈیا ہینسن کہتی ہیں کہ ’بہت سے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔‘ کلاڈیا ہینسن سویڈن کی وبا کے حوالے سے اپنائی گئی حکمت عملی پر کڑی تنقید کرتی ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں کو مارچ کے مہینے میں ہی بند کر دینا چاہیے تھا۔

وہ ان 22 سائنسدانوں میں بھی شامل ہیں جنھوں نے گذشتہ ہفتے سویڈن کے بڑے روزنامے میں حکومتی کی تنقید پر مبنی ایک آرٹیکل لکھا تھا۔ اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ سویڈن میں ’ناتجربہ کار حکام‘ کو فیصلہ سازی کا انچارج بنا دیا گیا ہے۔

انچارج اینڈرز ٹیگنل کون ہیں؟

ڈاکٹر اینڈرز ٹیگنل

سویڈن میں اس وبا پر سرکاری ردعمل دینے والے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر اینڈرز ٹیگنل بہت مشہور ہیں۔ وہ ایک تجربہ کار سائنسدان ہیں اور میڈیسن میں ان کا تجربہ تین دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ وہ اپنے پُرسکون رکھ رکھاؤ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

سائنس کے مضمون کی لکھاری اور وبائی امراض کی ماہر ایما فرانز کہتی ہیں کہ ’وہ خاموش طبع انسان ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ایک طاقتور رہنما ہیں جو بات چیت کے دوران اپنی آواز بلند نہیں کرتے۔ وہ بہت سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں۔ اور یہ خوبی بہت سے لوگوں کے لیے باعث راحت ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ بہت کا مقامی اور بین الاقوامی میڈیا ان کے حوالے سے ’تنازع کی تلاش‘ میں کوشاں ہے مگر ان کا خیال ہے کہ سویڈن کی سائنسدانوں کی کمیونٹی میں اس بات پر اتفاق ہے کہ اینڈرز ٹیگنل کی حکمت عملی ’کافی مثبت‘ ہے یا آپ یوں کہیے کہ دیگر ممالک میں اپنائی گئی حکمت عملیوں سے بُری نہیں ہے۔

کیا سویڈن کے باشندے بہتر قوت مدافعت کے مالک ہیں؟

اس بات کا تعین تو تاریخ ہی کرے گی کہ کس ملک کی وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی سب سے بہتر تھی۔

لیکن سائنس کی دنیا میں تازہ ترین گفتگو کا محور سویڈن کے ایسے باشندے ہیں جو شاید وائرس کا شکار تو ہوئے مگر ان میں اس کی بیماری کی ظاہری علامات بالکل بھی سامنے نہیں آئیں۔

یہ بات اہم اس لیے ہے کیونکہ بہت سے سائنسدانوں کا خیال ہے لاک ڈاؤن کے دوران سخت پابندیوں میں رہنے والے افراد کے مقابلے میں سویڈن کے باشندوں میں قوت مدافعت کا لیول شاید بہت بہتر ہو۔

رواں ہفتے آنے والی ایک رپورٹ میں یہ اندازہ پیش کیا گیا ہے کہ مئی کے آغاز پر سٹاک ہوم کی ایک تہائی آبادی وائرس سے متاثر ہو چکی ہو گی۔ تاہم بعدازاں اس رپورٹ پر نظر ثانی کے بعد اس تعداد کو آبادی کا 26 فیصد بتایا گیا ہے۔ تاہم بہت سے دوسرے بڑے سائنسدانوں نے مئی کے آغاز پر سٹاک ہوم میں متاثرہ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔

یورپ میں وبائی امراض کی روک تھام کے ادارے ’ای سی ڈی سی‘ کے سابقہ چیف سائنسدان پروفیسر جوہان گیسیکی کا ماننا ہے کہ رواں ماہ کے اختتام تک سٹاک ہوم کی کم از کم آدھی آبادی وائرس سے متاثر ہو چکی ہو گی۔

جبکہ سٹاک ہوم یونیورسٹی سے منسلک ریاضی دان ٹام بریٹن کا اندازہ ہے کہ رواں ماہ کے اختتام تک سویڈن کی آدھی آبادی وائرس سے متاثر ہو سکتی ہے۔

وبائی امراض کی ماہر ایما فرانز کہتی ہیں کہ جب تک کورونا کی ویکسین دریافت نہیں ہوتی تب تک سویڈن کے لیے شاید سب سے اہم چیز قوت مدافعت ہو گی۔

ڈاکٹر فرانز کہتی ہیں کہ ’جب بات دوسری اقسام کے کورونا وائرسز کی آتی ہے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ ان کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر چکے ہیں۔ شاید یہ قوت مدافعت طویل مدتی نہ ہو مگر اگر یہ قلیل مدتی ہی تو اس کی مدد سے ہم اس وبا کے پھیلاؤ کو روک سکتے ہیں۔‘

ہمیں ابھی تک زیادہ معلومات دستیاب کیوں نہیں ہو سکی ہیں؟

سویڈین کے عوامی صحت کے ادارے کا ماننا ہے کہ یہ ’کہنا قبل از وقت‘ ہو گا کہ علامات کے بغیر والے انفیکشن کا عوامی صحت پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر ٹیگنل کے نائب اینڈرز ویلینسٹن کہتے ہیں کہ ’ہمیں قوت مدافعت کے حوالے سے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ اس بارے میں ہمارے پاس معلومات اسی وقت زیادہ دستیاب ہوں گی جب زیادہ سے زیادہ افراد کے اینٹی باڈیز ٹیسٹ کیے جائیں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس غیریقینی صورتحال کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ سویڈن کے ان علاقوں سے جہاں انفیکشن کا تناسب زیادہ ہے وہاں سے مستقبل قریب میں سماجی دوری کی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔

کیا سویڈن کی مثال غیر معمولی ہے؟

سویڈن میں مستقبل میں کیا ہو گا اس کا تعین صرف اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ لوگ کس طرح سماجی فاصلے کے اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

سٹاک ہوم یونیورسٹی سے منسلک پولیٹیکل سائنسدان پروفیسر نیکولس کہتے ہیں کہ ’سویڈن کے چند باشندوں نے یورپ کے دیگر ممالک میں رائج پابندیوں کا جواب قومیت پرستی اور تفاخرانہ انداز میں دیا ہے۔‘

’یہ ایک دوسرے کی آواز سے ہم آواز ہونے جیسا ہے نہ کہ اس احساس کی بنیاد پر کہ سویڈن میں کچھ خاص ہے۔‘

شاید سویڈن کے چند باشندے کورونا کے حوالے سے ہدایات پر عمل کریں مگر مجموعی طور پر سویڈن اس حوالے سے متحد نہیں ہے۔

سوشل میڈیا پر سویڈن میں رہنے والے چند غیر ملکی باشندوں کی جانب سے سخت ترین اقدامات اٹھانے جانے کی گذارشات کے جواب زبانی اختلاف کی صورت میں دیا جا رہا ہے۔

دریں اثنا سویڈن میں بسنے والے بہت سے افراد کا خیال ہے کہ وبا کے پھیلاؤ کے حوالے سے شاید برترین وقت اب گزر چکا ہے۔

سٹاک ہوم کے رہائشیوں کے موبائل ڈیٹا کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگ اب شہر کے سٹی سینٹر میں اب اس سے زیادہ وقت گزار رہے ہیں جتنا وہ 15 دن پہلے گزار رہے تھے۔ گذشتہ ہفتے کے اختتام پر پولیس نے عوامی مقامات پر زیادہ افراد کی موجودگی پر اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا تھا۔

سویڈن کے وزیر اعظم سٹیفن لوفون نے متنبہ کیا ہے کہ نہ تو یہ ’آرام کرنے کا وقت ہے‘ اور نہ ہی زیادہ وقت دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ بیتانے کا۔

ایسا کہنا شاید آسان ہو مگر اس پر عمل کرنا بہت مشکل کیونکہ سویڈن میں تاریک، طویل، اور یخ بستہ سردیوں کے اختتام پر اب موسم بہار کی آمد آمد ہے۔

Exit mobile version