پاکستان کی لاہور ہائیکورٹ نے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کی طرف سے دائر اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے جس میں استدعا کی گئی تھی کہ حکومت ڈاکٹروں کو ذاتی حفاظتی لباس اور کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے ڈاکٹروں کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کرے۔
سنیچر کو جاری ہونے والے حکم نامے میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے لکھا کہ حقائق کی جانچ پڑتال اور حکومتی مؤقف جسے درخواست گزار غلط ثابت نہیں کر پائے، جاننے کے بعد ’بادی النظر میں درخواست ناجائز اور سوشل میڈیا پر آسان تشہیر حاصل کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔‘
عدالت فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر متعلقہ ادارہ یا حکام یہ سمجھیں کہ ایسی درخواست دائر کرنے سے مذکورہ درخواست گزار ڈاکٹروں نے سول سروس کے قواعد یا متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کی ہے یا ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے تو اتھارٹی ان کے خلاف کارروائی کرنے میں آزاد ہو گی۔
دوسری طرف برطانیہ کے شہر ڈربی میں مقیم ایک سمندر پار پاکستانی ڈاکٹر نے عدالتی فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد ’انھیں پاکستان میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی حفاظت اور ان کے کام کرنے کے جذبے کو نقصان پہنچنے کے حوالے سے خدشات ہیں۔‘
’صفِ اول کے جنگجوؤں کو صبر کرنے کی ضرورت ہے‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ مذکورہ درخواست میں ڈاکٹروں کی طرف سے ریلیف پیکج جیسی جن شکایات کا ذکر کیا گیا ہے ان کا تعلق ان کی نوکری کی شرائط سے ہے اور ان کی داد رسی کے لیے ان کے پاس متعلقہ ادارے میں ہر سطح پر فورم موجود ہیں۔
حکم نامے کے مطابق ’دادرسی کے ان ذرائع کی طرف جائے بغیر سرکاری ملازمین ایک آئینی درخواست لے کر اس عدالت سے رجوع نہیں کر سکتے۔ ان بنیاد پر بھی ان کی درخواست قابلِ سماعت نہیں ہے۔‘
لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا کے خلاف جاری جنگ میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیک کا عملہ ہمارے لیے صفِ اول کے جنگجوؤں کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
’اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ میڈیکل ایک انتہائی محترم پیشہ ہے اور ڈاکٹر اپنی اور اپنے خاندان کی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں۔
‘تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صفِ اول کے جنگجوؤں کو پختگی اور صبر کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انھیں اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ ان کی طرف سے غلط بیانی یا بے جا ردِ عمل کے معاشرے پر بدترین اثرات ہو سکتے ہیں جو پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔’
عدالت نے اپنی فیصلے میں لکھا کہ درخواست گزار ڈاکٹروں کی شکایت کے جواب میں متعلقہ اداروں نے عدالت میں جو ریکارڈ جمع کروایا اس کے مطابق ان میں سے کسی بھی ڈاکٹر کو کورونا کے حوالے سے ڈیوٹی نہیں دی گئی تھی۔
’صرف ایک ڈاکٹر کو ایک دن کے لیے مریضوں کی سکریننگ کا کام سونپا گیا تھا لیکن انھیں مکمل پی پی ایز فراہم کی گئی تھیں جس کے تصویری ثبوت بھی عدالت میں پیش کیے گئے۔۔۔ حکومت کورونا کے خلاف کام کرنے والے شعبہ طب کے افراد کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان بھی کر چکی ہے۔‘
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ درخواست گزار عدالت کے سامنے جمع کروائے گئے دستاویزات سے بھی نہ تو اپنا مؤقف درست ثابت کر سکے اور نہ ہی مدعا علیہ یعنی حکومتی مؤقف کو غلط ثابت کر سکے اور اس کے باوجود وہ مسلسل پی پی ایز کا مطالبہ کرتے رہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ‘ان غیر معمولی حالات میں ترقی یافتہ ممالک میں بھی حفاظتی سامان کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کے باوجود ہماری حکومت اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے فیلڈ میں کام کرنے والے افراد کے حفاظت کی لیے موزوں اقدامات کر رہی ہے۔
’ڈاکٹر بھی سرکار کے ملازم ہیں اور جہاں ہم انھیں انتہائی بلند درجہ دیتے ہیں وہیں ہم اس بات کی اجازت بھی نہیں دے سکتے کہ کوئی بھی ریاست کے اداروں کے خلاف بے بنیاد الزام لگائے اور معاشرے میں بدامنی کا باعث بنے۔‘
عدالت کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی سرکاری ملازم کو لگتا ہے کہ اسے کسی ایسے کام میں جھونکا جا رہا ہے جو وہ کرنے کا پابند نہیں تو اس کے پاس استعفٰی سمیت کئی اور راستے ہیں مگر حکومتی اداروں کو متنازع کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
’ڈاکٹروں کے جذبے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مصدق اقبال کا کہنا تھا کہ سمندر پار پاکستانی ڈاکٹر ’معزز عدالت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور اسے واپس لے کیونکہ اس سے موجودہ مشکل حالات میں ڈاکٹروں کے کام کرنے کے جذبے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔‘
ڈاکٹر مصدق کا کہنا تھا کہ ذاتی حفاظتی لباس یعنی پی پی ایز کا مطالبہ کرنا کوئی جرم نہیں ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں ڈاکٹروں کو پی پی ایز کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے انھیں اور ان کے اہلخانہ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہے۔
’برطانیہ میں بھی ڈاکٹروں نے مختلف مقامات پر پی پی ایز نہ ملنے پر احتجاج کیا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت اور عوام نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے اور ان کے کام کو سراہا ہے۔‘
عدالتی فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے بیرونِ ملک برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر مصدق اقبال کا کہنا تھا کہ ’پی پی ایز کی ضرورت صرف ان ڈاکٹروں کو نہیں جو کورونا کے مریضوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ہسپتال میں کام کرنے والے کسی بھی ڈاکٹر اور عملے کو وائرس سے خطرہ ہو سکتا ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ایسے میں پی پی ایز کا مطالبہ کرنا ڈاکٹروں کی طرف سے کوئی جرم نہیں ہے۔ ڈاکٹر مصدق اقبال کا کہنا تھا کہ وہ ڈربی میں مقیم تمام پاکستانی ڈاکٹروں کے احساسات کی ترجمانی کر رہے ہیں اور عدالت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔
درخواست گزار ڈاکٹروں کے وکیل ریحان احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فی الوقت وہ عدالتی فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ سماعت کے دوران انھوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ اپنی درخواست واپس لے سکتے ہیں کیونکہ ان کے درخواست دائر کرنے اور سماعت کے دوران کے عرصے میں حکومت نے ان کے دونوں بنیادی مطالبات پر عملدرآمد کر لیا تھا۔