پہلی بار کووڈ 19 کے انٹری پوائنٹس بننے والے ممکنہ خلیات کی شناخت
سائنسدانوں نے پہلی بار جسم کے اس مقام کی شناخت کرلی ہے جو ممکنہ طور پر سب سے پہلے نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا مرکز بنتا ہے۔
درحقیقت ناک کے 2 اقسام کے خلیات میں اس بیماری کے ابتدائی انٹری پوائنٹ بنتے ہیں۔
گوبلیٹ اور سیلیاٹیڈ نامی خلیات میں کووڈ 19 کے انٹری پروٹینز کی بہت زیادہ مقدار ہائی جاتی ہے اور یہ پروٹینز اس وائرس کو دیگر خلیات میں داخل ہونے کا موقع دیتے ہیں
یہ دریافت برطانیہ کے ویلکم سانگر انسٹیٹوٹ، نیندرلینڈ کے یونیورسٹی میڈیکل سینٹر گرونینجین، فرانس کی کوٹ ڈی ازور یونیورسٹی، سی این آر ایس، نائس اور دیگر نے کی، جس سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ یہ بیماری اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے۔
جریدے نیچر میڈیسین میں شائع تحقیق اس بین الاقوامی کوشش کا نتیجہ ہے جس کے تحت انسانی خلیات کے ڈیٹا کو استعمال کرکے انفیکشن اور یبماری کے بارے میں سمجھنا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ آنکھوں اور چند دیگر اعضا کے خلیات بھی وائرس کے انٹری پروٹین کا مرکز بنتے ہیں جبکہ محققین نے بتایا کہ کس طرح ایک انٹری پروٹین کو ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے اور علاج کے لیے ممکنہ اہداف کا ذکر بھی کیا گیا۔
نیا نوول کورونا وائرس پھیپھڑوں اور سانس کی گزرگاہ کو متاثر کرتا ہے اور مریضوں میں فلو جیسی علامات جیسے بخار، کھانسی اور گلے کی سوجن نظر آتی ہے، جبکہ متعدد افراد ایسے ہوتے ہیں، جن میں علامات نظر نہیں آتیں مگر پھر بھی وائرس کو آگے منتقل کردیتے ہیں۔
بدترین کیسز میں نمونیا کی شکایت ہوتی ہے جو موت کا باعث بن جاتی ہے۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ یہ وائرس چھینک اور کھانسی کے دوران منہ یا ناک سے خارج ہونے والے ذرات سے پھیلتا ہے اور متاثرہ علاقوں میں بہت آسانی سے پھیل جاتا ہے۔
دنیا بھر میں سائنسدان یہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ وائرس کس طرح پھیلتا ہے تاکہ اس کو پھیلنے سے روکا جاسکے اور ایک ویکسین تیار کی جاسکے۔
اگرچہ یہ پہلے سے معلوم تھا کہ کووڈ 19 کا باعث بننے والا وائرس سارس کوو 2 اسی طرح خلیات کو متاثر کرتا ہے جیسے 2003 میں سارس وائرس کرتا تاھ، مگر ناک میں مخصوص خلیات کی پہلے نشاندہی نہیں ہوئی تھی۔
اس کو جاننے کے لیے اس تحقیق میں شامل ائنسدانوں نے ہیومین سیل اٹلس ڈیٹا سیٹ کا تجزیہ کیا اور صحت مند افراد کے 20 سے زیادہ ٹشوز کو دیکھا گیا۔
ان میں پھیپھڑوں، نسل کیویٹی، آنکھوں، معدے، دل، گردے اور جگر کے خلیات بھی شامل تھے اور سائنسدانوں نے یہ دیکھا کہ کونسے خلیات پر وائرس کے 2 اہم انٹری پروٹینز بیماری کو داخل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا ‘ہم نے دریافت کیا کہ ریسیپٹر پروٹین ایس 2 اور ٹی ایم پی آر ایس ایس 2 سارس کوو 2 کے انٹری پروٹین کو متحرک کرکے مختلف اعضا کے خلیات تک پہنچااتے ہیں، جن میں ناک کے اندرونی حصے کے خلیات بھی شامل ہیں۔
جب محققین نے مزید تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ بلغم بنانے والے گوبلیٹ اور سیلیاٹیڈ خلیات میں کووڈ 19 وائرس کے پروٹینز کی سب سے زیادہ مقدار پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ممکنہ طور یہ خلیات وائرس کے لیے ابتدائی انفیکشن روٹ ثابت ہوتے ہیں۔
محققین نے کہا کہ یہ پہلی بار ہے جب معلوم ہوا کہ ناک کے یہ مخصوص خلیات کووڈ 19 سے منسلک ہیں اور وائرس کی منتقلی میں متعدد عناصر کردار ادا کرتے ہیں، مگر ہماری دریافت سے ثابت ہوتا ہے کہ ان خلیات کا مقام بہت تیزی سے وائرس کو پھیلنے میں مدد دیتا ہے۔
وائرس کے 2 انٹری پروٹیشنز ایس 2 اور ٹی ایم پی آر ایس ایس 2 کو آنکھوں کے قرینے کے خلیات اور آننتوں کے خلیات میں بھی دریافت کیا گیا جو کہ آنکھوں اور آنسوؤں کی نالی سے بھی وائرس کے ایک اور ممکنہ روٹ کا عندیہ دیتے ہیں۔
جب خلیات کو انفیکشن سے نقصان پہنچتا ہے تو متعدد مدافعتی جینز متحرک ہوجاتے ہیں اور اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناک کے خلیات میں ایس 2 ریسیپٹر کی پروڈکشن اس وقت جگہ بدلل لیتی ہے جب مدافعتی جینز حرکت میں آتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس معلومات کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو سمجھنے میں مدد دے سکے گی اور یہ معلوم ہونا بہت اہم ہے کہ کونسی قسم کے خلیات وائرس کی منتقلی میں کردار ادا کرتے ہیں، جس سے ممکنہ طریقہ علاج کو تشکیل دیکر اس کے پھیلنے کی رفتار میں کمی لانا ممکن ہوسکے گی۔