مولانا طارق جمیل کے حوالے سے میرا دکھ اور ہے۔
دلوں کے بند دروازوں پر دستک دینے اور پھر دلوں میں گھر کر جانے والے ایک مؤثر اور پُرتاثیر مبلغ کے طور پر مولانا کی شہرت عام ہو چکی تھی‘ لیکن مجھے ان سے پہلی ملاقات کا شرف جدہ کے سرور پیلس میں حاصل ہوا‘ جہاں شریف فیملی جلاوطنی کے دن گزار رہی تھی۔
اپنی صحافتی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد ہفتے میں تین چار بار سرور پیلس کا چکر لگانا ایک طرح کا معمول بن چکا تھا (اسے آپ ایک صحافتی سرگرمی بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہاں کئی خبریں بھی مل جاتیں) اُس روز بھی ارادہ تھا‘ جسے میاں صاحب کے پیغام نے پختہ کر دیا کہ میں مغرب کی نماز سرور پیلس میں ادا کروں۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ مولانا طارق جمیل تشریف لا رہے ہیں۔ 2005ء کا حج ہو چکا تھا اور اب حجاج کے واپسی کے ایام تھے۔ مولانا طارق جمیل وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب رحیم کے حج وفد میں آئے تھے۔ اپنی سرکاری مصروفیات کے باعث وزیراعلیٰ تو حج سے فارغ ہوتے ہی لوٹ گئے‘ لیکن مولانا نے اپنا قیام بڑھا لیا تھا۔
محل کے بیرونی استقبالیہ کے لیے میاں صاحب کی ہدایت تھی کہ جوں ہی مولانا کی گاڑی پہنچے‘ انہیں اندر اطلاع کر دی جائے (دیگر اہم مہمانوں کی آمد پر بھی یہی ہوتا۔) میاں صاحب مولانا کی آمد کی اطلاع پاتے ہی تیزی سے باہر لپکے شہباز شریف‘ عباس شریف‘ حسین‘ کیپٹن صفدر اور سہیل ضیا بٹ نے بھی پیروی کی‘ ہم بھی ساتھ ہو لئے۔ جوں ہی مولانا کی گاڑی پہنچی‘ میاں صاحب نے لپک کر دروازہ کھولا اور پرجوش مصافحہ معانقہ میں تبدیل ہو گیا۔ ہم خوش قسمت تھے کہ ہمیں بھی مولانا سے معانقے کا شرف حاصل ہو گیا ہے۔ نماز میں ابھی چند منٹ تھے؛ چنانچہ عجوہ کھجوروں کے ساتھ عربی قہوے کا دور چلا۔ مولانا نے نمازِ مغرب کی امامت کی۔ سرور پیلس میں پانچوں نمازوں کا باجماعت اہتمام ہوتا تھا۔ اس کے لیے باقاعدہ قاری صاحب مقرر تھے جو حسین اور مریم کے بچوں کو قرآن پاک بھی پڑھاتے۔ قاری صاحب موجود نہ ہوتے تو امامت کا فریضہ خود میاں صاحب ادا کرتے۔ (میاں صاحب خاصے خوش الحان واقع ہوئے ہیں۔)
نماز ِمغرب کے بعد سرور پیلس کے بالائی (رہائشی) حصے کے وسیع و عریض لاؤنج میں مولانا طارق جمیل کے درسِ قرآن کا اہتمام کیا گیا تھا۔ خواتین کے لیے پردے کا اہتمام تھا۔ میاں محمد شریف کے انتقال کو سوا تین ماہ ہو چکے تھے (میاں صاحب کا انتقال 15رمضان المبارک کو ہوا۔ سرور پیلس میں تراویح کی نماز ہو رہی تھی‘ جب ان کے انتقال کی خبر موصول ہوئی۔ وہ کچھ دنوں سے علیل تھے‘ اور علامت کے باعث نماز باجماعت میں بھی شریک نہیں ہو رہے تھے۔ نماز جنازہ‘ سحری کے بعد حرم شریف میں ہوئی۔ رمضان المبارک کے باعث دنیا بھر سے لاکھوں معتمرین حرم میں موجود تھے۔ میاں برادران‘ اپنے والد ِمحترم کی تدفین کے لیے پاکستان کیوں نہ آ سکے‘ ایک الگ کہانی ہے۔)
مولانا طارق جمیل کے درسِ قرآن کا آغاز میاں محمد شریف مرحوم کے لیے تعزیتی کلمات سے ہوا۔ مولانا نے میاں صاحب کی غریب پروری اور زہد و تقویٰ والی زندگی کا تفصیل سے ذکر کیا۔ جس کے بعد مولانا کا پورا درس فلسفۂ موت و حیات پر مبنی تھا۔ ان کے ایک ایک فقرے اور ایک ایک لفظ میں کیا تاثیر تھی۔ پردے کے پیچھے خواتین کی سسکیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ادھر مردوں والے حصے میں بھی سبھی اشک بار تھے۔ میاں نواز شریف‘ شہباز شریف سے کم حساس نہیں‘ لیکن وہ اپنے جذبات کو دبا لینے‘ اپنے غم کو دل کے اندر چھپا لینے کی صلاحیت بھی خوب رکھتے ہیں‘ یہاں ان کی پلکیں بھی بھیگ رہی تھیں۔ درس قرآن کے بعد‘ نمازِ عشا‘ اس کے بعد پُرتکلف عشائیہ اور پھر معزز مہمان کی اسی اہتمام کے ساتھ واپسی۔میاں صاحب نے کار کا دروازہ کھولا‘ احترام کے ساتھ انہیں رخصت کیا اور محل کے بیرونی دروازے سے گاڑی کے نکل جانے تک محل کے دروازے پر موجود رہے۔
یہ گزشتہ ربیع الاول کی بات ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے ”پائنا‘‘ کے زیر اہتمام ”ریاستِ مدینہ کے تقاضے‘‘ پرسیمینار کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد صاحب نے پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے اشتراک کی پیشکش کر دی۔ سیمینار کو جلسے میں تبدیل کر دینے کا فیصلہ ہوا۔ مولانا طارق جمیل کا کلیدی خطاب تھا۔ مولانا کے خطاب کے لیے نوجوان طلبہ و طالبات کے بے پناہ اشتیاق کا قبل از وقت اندازہ کرتے ہوئے یہ پروگرام فیصل آڈیٹوریم سے یونیورسٹی گراؤنڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ دس بارہ ہزار کرسیوں میں‘ کوئی خالی نہ رہی۔ جنہیں کرسی نہ ملی‘ وہ دو گھنٹے کھڑے رہے۔ مرد اور خواتین اساتذہ کی بڑی تعداد بھی موجود تھی ۔یوں تو سوسائٹی کے سبھی طبقے‘ مولانا کا ”ٹارگٹ‘‘ ہیں ‘لیکن نوجوان (اور خصوصاً پڑھے لکھے نوجوان) ان کی خاص توجہ کے مستحق ہوتے ہیں اور ہم جیسوں کے لیے خوشی اور اطمینان کی یہ بات کہ نوجوانوں میں مولانا کی سنی جاتی ہے۔ کتنے ہی نوجوان ہیں ‘جو مولانا کی پکار پر سیدھے راستے کی طرف پلٹ آئے‘ ان کی زندگیاں بدل گئیں اور وہ خود اللہ کی راہ میں تبلیغ کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کا معاملہ الگ ہے۔ وہ دنیا سے اور دنیاداروں سے الگ تھلگ رہتے ہیں۔ سرکار دربار سے بھی دوری اختیار کرتے ہیں۔ دنیا اور دنیا دار خود ان کی طرف لپکتے اور فیض پاتے ہیں۔ پیاسا خود کنویں کے پاس آتا ہے‘ لیکن مبلغ کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ وہ اپنے رب کا پیغام پہنچانے کے لیے خود دنیا سے اور دنیا داروں سے رابطہ کرتا ہے اس کے لیے سرکار‘ دربار پہنچنے میں بھی اسے کوئی عار نہیں ہوتی‘ البتہ یہاں بھی ایک خاص فاصلہ ضرور رکھتا ہے۔
مولانا طارق جمیل بھی تبلیغ والوں میں سے ہیں۔ وہ اپنے رب اور رسولؐ کے پیغام کی یاد دہانی کے لیے ہر جگہ پہنچتے ہیں۔ اس کے لیے حکمران طبقات سے بھی رابطے میں رہتے ہیں‘ لیکن یہ تنے ہوئے رسے پر چلنے والی بات ہے۔Tight Rope Walk‘کہ وہ وہاں موجود بھی ہوں اور ان کا حصہ بھی نظر نہ آئیں۔پاکستان جیسی پولرائزڈ سوسائٹی میں تو یہ کام کہیں زیادہ احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے۔ مولانا اس احتیاط کو ملحوظ بھی رکھتے رہے ہیں؛ چنانچہ وہ اپنا شخصی وزن کسی خاص سیاسی پلڑے میں نہیں ڈالتے تھے۔ چودھریوں کے بچوں کے نکاح سے لے کر محترمہ کلثوم نواز کی نمازِ جنازہ تک‘ ان کی امامت کو باعثِ خیر و برکت سمجھا گیا۔ وہ ماضی میں حکمرانوں کی رشد و ہدایت کے لیے دعاگو رہے ہیں تو عمران خان صاحب ان کی دعاؤں سے محروم کیوں رہیں؟ لیکن میرا احساس ہے کہ یہاں مولانا ضروری احتیاط کا اہتمام نہیں کر سکے۔ انہوں نے میڈیا کے حوالے سے اپنی زبان کے پھسل جانے کا اعتراف کر لیا (اور اس پر معذرت بھی)۔ وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے ان کے توصیفی الفاظ (اس روز کی ٹیلی تھون کے علاوہ بھی) سیاسی لحاظ سے منقسم پاکستانی معاشرے میں‘ مولانا کے اثر و رسوخ میں کمی کا باعث بنے ہیں اور یہی میرا دُکھ ہے۔
مولانا طارق جمیل کے ایک ایک فقرے اور ایک ایک لفظ میں کیا تاثیر تھی۔ پردے کے پیچھے خواتین کی سسکیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ادھر مردوں والے حصے میں بھی سبھی اشک بار تھے۔ میاں نواز شریف‘ شہباز شریف سے کم حساس نہیں‘ لیکن وہ اپنے جذبات کو دبا لینے‘ اپنے غم کو دل کے اندر چھپا لینے کی صلاحیت بھی خوب رکھتے ہیں‘ یہاں ان کی پلکیں بھی بھیگ رہی تھیں۔