جنرل (ر) عاصم باجوہ کی تعیناتی اور اپوزیشن کا ردعمل: ’موجودہ جمہوریت آدھا تیتر، آدھا بٹیر بن گئی ہے‘
سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا آخری سال شروع ہونے والا تھا، ملک میں اسامہ بن لادن کے خلاف کاروائی اور سلالہ حملے جیسے واقعات ہو چکے تھے، دہشت گردی کا ایک انتہائی سخت دور گزر چکا تھا مگر شہری اور سکیورٹی فورسز اب بھی دہشت گردوں کے نشانے پر تھے۔
اس وقت کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف بڑے فوجی آپریشنز جاری تھے، خود بّری فوج بڑے پیمانے پر ارتقائی عمل سے گزر چکی تھی مگر اس سب کے باوجود ملک کی مسلح افواج کی شہرت کا گراف نچلی سطح کو چھو رہا تھا۔
ایسے میں میجر جنرل کے عہدے پر تعینات عاصم سلیم باجوہ کو مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی سربراہی سونپی گئی۔ انھوں نے عوام میں فوج کی شبیہ بہتر بنانے کا بیڑا اٹھایا اور پھر جیسے تیسے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔
جب وہ آئی ایس پی آر سے رخصت ہوئے تو پاکستان کی مسلح افواج کی عوام میں مقبولیت بہت بڑھ چکی تھی، اس کا اندازہ وہ لوگ بخوبی لگا سکتے ہیں جنھوں نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تقریبات میں آمد کے مناظر دیکھے ہیں۔ آئی ایس پی آر بطور ایک ڈائریکٹوریٹ جدید ترین خطوط پر استوار ہو گیا تھا، اسے ففتھ جنریشن وار فیئر جیسی نئی اصطلاحات پر مبنی ذہنوں اور افکار کی جنگ کے لیے تیار کر لیا گیا تھا اور ’شکریہ راحیل شریف‘ جیسے ٹرینڈز تو اب بھی چلتے ہیں۔
جہاں آئی ایس پی آر کی سوشل میڈیا ٹیمز، فوج کے ہلال رسالے میں پالیسی سازی کی جھلک، جنگی نغموں، فلموں اور ڈراموں کا سہرا جنرل (ر) عاصم باجوہ کے سر ہے وہیں ان پر میڈیا کنٹرول کے الزامات بھی سامنے آئے جن کی ادارے کی جانب سے ہمیشہ تردید کی گئی۔
تاہم آج وہ ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت اس وقت بنے جب ان کی وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات تقرری کی خبر آئی۔
ایک طرف جہاں ان کی اس اہم عہدے پر تعیناتی کو ایک طبقہ پی ٹی آئی کی حکومت کا ایک ‘اہم اور ناگزیر فیصلہ’ قرار دے رہا ہے وہیں اس پر تنقید کرنے والے بھی کم نہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ’اس تعیناتی سے بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے ہیں جو موجودہ حکومت کی تشکیل کے وقت سے ہی سب کے ذہن میں تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’غالباً حکومت یہ تاثر بھی دینا چاہتی ہے کہ ادارے اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ ’ایک فوجی ادارے کی ترجمانی اور سیاسی حکومت کی ترجمانی میں زمین آسمان کا فرق ہے، آنے والا وقت جنرل عاصم باجوہ کے لیے بڑے چیلنجز لائے گا۔‘
خیال رہے کہ عاصم باجوہ کے علاوہ حکومت نے ایک مستقل وزیرِ اطلاعات کی تقرری کا بھی اعلان کیا ہے جو کہ سینیٹر شبلی فراز ہیں اور یہ ابھی واضح نہیں کہ عاصم باجوہ کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی۔
جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کا تعلق پاکستان ملٹری اکیڈمی کے 69ویں لانگ کورس سے ہے۔ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف، جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور پھر جنرل (ر) راحیل شریف کے نہایت قریب سمجھے جاتے تھے۔
وہ بطور لیفٹیننٹ کرنل سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے اسسٹنٹ ملٹری سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔ جنرل مشرف کی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘ کی تصنیف کے مرحلے میں انھوں نے مواد مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کا ذکر سابق صدرنے اپنی کتاب میں بھی کیا تھا اور اس کی تقریب رونمائی میں جنرل عاصم باجوہ کے لیے تالیاں بجوائی گئی تھیں۔
قمر زمان کائرہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت میں متعدد ایسے عہدے ہیں جو ان افراد کے حوالے کیے گئے جو کبھی سابق صدر پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں کے پاس تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کبھی ٹیکنوکریٹ گورنمنٹ کامیاب ہوئی ہے اور نہ ہی کسی اور شکل کی حکومت، کامیابی صرف جمہوریت کے نظام میں ہے لیکن جس انداز میں موجودہ حکومت جمہوریت چلانا چاہتی ہے یہ مکمل طور پر ناکام ہو گی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت میں جمہوریت ’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘ بن گئی ہے۔
قمر زمان کائرہ کے مطابق ’اس تعیناتی سے ان سوالوں کے جواب ملے ہیں کہ حکومت کس طرح چلائی جا رہی ہے، حکومت کیسے آئی ہے، ان سوالوں کے جواب اب کھل کر سامنے آرہے ہیں۔‘
کچھ یہی رائے مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چودھری کی بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’عمران خان کے پاس اپنی ٹیم تھی ہی نہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ کابینہ میں سب وہ لوگ ہیں جو سابق صدر پرویز مشرف کی ٹیم کا حصہ تھے اور یہی ان کی ناکامی ہے۔‘
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چودھری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن نے ہمیشہ ’وردی میں سیاست کی مخالفت کی ہے، یہ عاصم باجوہ کا حق ہے کہ اگر وہ سیاسی طور پر کسی سیاسی جماعت کے ترجمان بننا چاہتے ہیں تو ضرور بنیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر انھیں بہت سے مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ ’پی ٹی آئی نے ایک جوڑی بنائی ہے جس میں ایک سیاسی اور ایک پیشہ وارانہ شخص کو چنا گیا ہے۔‘
شبلی فراز کی تعیناتی سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’کم ازکم پہلی بار پی ٹی آئی ایسا چہرہ لائی ہے جو کہ حقیقی طور پر اس جماعت کی نمائندگی کرتا ہے، پہلی بار ان کے پرانے کارکنوں میں سے کسی کو یہ اہم سرکاری عہدہ دیا گیا ہے۔ یہ کم از کم ’فیس آف دی پارٹی‘ ہیں اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی نسبت خاصے سلجھے ہوئے انسان ہیں۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ‘وردی میں ادارے کا ترجمان ہونا مشکل کام نہیں کیونکہ افسر کے پاس ادارے کا کشن ہوتا ہے، خاص موضوعات اور محدود سوالات ہوتے ہیں، سوال پوچھنے والے عام طور پر ترجمان سے سخت سوالات نہیں کرتے ہیں مگر اب پرفارمنس تو حکومت کی ہو گی لیکن جواب جنرل عاصم باجوہ نے میڈیا کو دینے ہوں گا۔‘
طلال چودھری کے مطابق ’حکومتی ترجمان کو یہ جواب دینا ہو گا کہ آٹے اور چینی کے بحران سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا ہے، انھیں یہ بھی جواب دینا ہو گا کہ ملک میں سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر رہنماؤں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور سیلیکٹو احتساب کیوں کیا جا رہا ہے، اس لیے میرے خیال میں جنرل ر عاصم باجوہ کے لیے یہ نیا رول خاصا مشکل ثابت ہو گا۔‘