پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ڈسپلنری پینل نے کرکٹر عمر اکمل پر تین سال تک کسی بھی قسم کی کرکٹ سے متعلق سرگرمی میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
ان کے خلاف یہ کارروائی پی سی بی کے انسداد کرپشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر عمل میں آئی ہے۔
عمراکمل پر الزام تھا کہ انھوں نے مبینہ طور پر مشکوک افراد یا ایک فرد کی طرف سے کیے گئے رابطوں کے بارے میں بورڈ یا اس کے اینٹی کرپشن یونٹ کو مطلع نہیں کیا تھا۔
یاد رہے کہ یہ واقعہ 20 فروری کو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے آغاز کے موقع پر پیش آیا تھا جب پی سی بی کے اینٹی کرپشن یونٹ نے عمر اکمل کے مشکوک افراد سے رابطے پکڑے تھے اور ان کے سامنے ان رابطوں کی تفصیلات رکھ دی گئی تھیں۔
عمر اکمل کے خلاف کیس اور فیصلہ
پی ایس ایل میں ان کی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو اس بارے میں مطلع کر دیا گیا تھا جس کے بعد عمر اکمل کو فوری طور پر لیگ سے الگ کر دیا گیا تھا۔
عمر اکمل نے اس معاملے کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے اینٹی کرپشن ٹریبونل کے سامنے چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد یہ معاملہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈسپلنری پینل کو بھیج دیا گیا تھا اور عمراکمل کو 27 اپریل کو پینل کے سامنے پیش ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس سلسلے میں انھیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو نوٹس جاری کر دیے گئے تھے۔
عام طور پر کسی بھی کرکٹر کا معاملہ ٹریبونل میں اسی وقت جاتا ہے جب کرکٹر اپنی معطلی کے فیصلے کو چیلنج کرتا ہے۔
لیکن عمراکمل کا ٹریبونل میں نہ جانا یہ ظاہر کر چکا تھا کہ وہ ڈسپلنری پینل کے سامنے ہی پیش ہوں گے اور جو بھی فیصلہ کیا جائے گا وہ انھیں قابل قبول ہوگا۔
جسٹس (ریٹائرڈ) فضل میراں چوہان کی سربراہی میں قائم پینل نے پیر کو مختصر سماعت کے بعد فیصلہ سنا دیا۔ اس موقع پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے اس کے قانونی مشیر تفضل حیدر رضوی پیش ہوئے۔
عمر اکمل کسی وکیل کے بغیر حاضر ہوئے تھے۔
پی سی بی: تمام کرکٹرز بدعنوانی سے دور رہیں
پی سی بی کے ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اینڈ سیکورٹی لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) آصف محمود کا کہنا ہے کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے باعث ایک بین الاقوامی کرکٹر پر تین سال کی پابندی پر بورڈ کو کوئی خوشی نہیں ہو رہی۔ مگر یہ ’ان سب افراد کے لیے ایک بر وقت یاد دہانی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ انسداد کرپشن ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرکے بچ سکتے ہیں۔‘لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ آصف محمود نے کہا کہ ’اینٹی کرپشن یونٹ باقاعدگی سے ہر سطح پر ایجوکیشن سیمنار اور ریفریشر کورسز کا اہتمام کرتا ہے تاکہ تمام کرکٹرز کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جائے۔ تاہم پھر بھی اگر کچھ کرکٹر قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے تو پھر اس کا نتیجہ یہی نکلےگا۔‘
ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اینڈ سیکورٹی کا کہنا ہے کہ ’وہ تمام کرکٹرز سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بدعنوانی کی لعنت سے دور رہیں اور کسی بھی جانب سے رابطے کی صورت میں متعلقہ حکام کو فوری طور پر آگاہ کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ ان کے ٹیم اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔
بورڈ کے قانونی مشیر تفضل حیدر رضوی نے عمراکمل کو دی گئی تین سالہ پابندی کے فیصلے کے بارے میں بتایا ہے کہ ڈسپلنری پینل نے عمراکمل کو بہت موقع دیا کہ وہ واضح انداز میں اپنی بات کرسکیں لیکن عمراکمل نے یہ ضرور تسلیم کیا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے لیکن وہ مبہم انداز میں اس کی وضاحت پیش کرتے رہے۔
تفضل حیدر رضوی نے پیر کی شام وڈیو لنک کے ذریعے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمراکمل سے دو مختلف مواقعوں پر مشکوک افراد کے رابطے ہوئے جن کی انہوں نے انٹی کرپشن یونٹ کو رپورٹ نہیں کی تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ کے قانونی مشیر نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ یہ رابطے ٹیلی فون پر تھے یا عمراکمل نے بالمشافہ مشکوک افراد یا فرد سے ملاقات کی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ابھی مختصر فیصلہ آیا ہے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ہی اس بارے میں کچھ بتایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عمراکمل کو پابندی کے فیصلے کے خلاف 14 روز میں اپیل کا حق حاصل ہوگا۔
پاکستان کرکٹ کے ’بیڈ بوائے‘
پاکستانی کرکٹر عمر اکمل اپنی میدان میں کارکردگی کے علاوہ تنازعات کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں۔ سنہ 2009 میں انھوں نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں سنچری سکور کی تھی۔
عمراکمل پی ایس ایل فائیو کے آغاز پر دوبارہ خبروں کی زینت بن گئے ہیں اور اس بار بھی وجہ ایک تنازع ہی ہے۔
عمر اکمل نے اپنا ڈیبو نیوزی لینڈ کے خلاف کیا تھا جہاں انھوں نے سنچری سکور کی۔ اپنا پانچواں میچ کھیلنے والے عمر اکمل نے مبینہ طور پر بھائی کے ڈراپ ہونے پر بطور احتجاج انجری کا بہانہ کیا اور کہا کہ وہ تیسرا میچ نہیں کھیلیں گے۔
بعد میں انھوں نے میچ تو کھیلا لیکن کرکٹ بورڈ نے ان پر جرمانہ عائد کر دیا۔ یہ عمر اکمل کے کریئر میں پہلا موقع تھا جب انھیں ڈسپلن کے حوالے سے سزا دی گئی تھی۔
انڈیا میں منعقدہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران جب سابق کرکٹر اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پاکستانی ٹیم کے ہوٹل جاکر تمام کھلاڑیوں سے ملاقات کی تھی تو عمراکمل نے حیران کن طور پر سب کے سامنے عمران خان سے یہ شکایت کردی کہ ٹیم منیجمنٹ انھیں بیٹنگ آرڈر میں اوپر کے نمبر پر نہیں کھلارہی ہے۔
ورلڈ کپ کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اس وقت کے بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور نے عمراکمل پر تنقید کی اور کہا تھا کہ نیوزی لینڈ کےخلاف میچ میں انھوں نے باؤنڈری لگانے کی کوشش ہی نہیں کی جس کی ٹیم کو اشد ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ ٹیم کے سابق کوچز وقار یونس اور مکی آرتھر کے ساتھ بھی ان کے جھگڑے سرخیوں میں رہ چکے ہیں۔
بورڈ نے 2016 کی قائد اعظم ٹرافی کے موقع پر عمراکمل کو ایک میچ کے لیے معطل کیا کیونکہ انھوں نے پی سی بی کے کھیلوں کا سامان اور کپڑوں کے استعمال کے بارے میں قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی تھی۔