عرفان خان کا آخری خط
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمہاری آنکھ اس جھٹکے سے کھلتی ہے جو زندگی تمہیں جگانے کے دیتی ہے، تم ہڑبڑا کے اٹھ جاتے ہو۔ پچھلے پندرہ دنوں سے میری زندگی ایک سسپنس والی کہانی بنی ہوئی ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ انوکھی کہانیوں کا پیچھا کرتے کرتے میں خود ایک انوکھی بیماری کے پنجوں میں پھنس جاؤں گا۔ ابھی تھوڑے دنوں پہلے ہی مجھے اپنے نیورو اینڈوکرائن (آنتوں سے متعلق) کینسر کے بارے میں پتا چلا۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے مریض پوری دنیا میں بہت ہی کم ہیں، نہ ہونے کے برابر۔ مریض نہیں ہیں تو اس پہ تحقیق بھی ویسے نہیں ہوئی جیسے ہونی چاہئے تھی۔ نتیجہ کیا ہو گا؟ ڈاکٹروں کے پاس دوسری بیماریوں کی نسبت اس کے بارے میں کم معلومات ہیں، علاج کامیاب ہو گا یا نہیں، یہ بھی سب ہوا میں ہے، اور میں… میں بس دواؤں اور تجربوں کے کھیل کا ایک حصہ ہوں۔
یہ میرا کھیل نہیں تھا بھائی، میں تو ایک فل سپیڈ والی بلٹ ٹرین میں سوار تھا، میرے تو خواب تھے، کچھ کام تھے جو کرنے تھے، کچھ خواہشیں تھیں، کچھ ٹارگٹ تھے، کچھ تمنائیں تھیں، آرزوئیں تھیں، اور میں بالکل ان کے درمیان لٹکا ہوا تھا۔ اب کیا ہوتا ہے کہ اچانک پیچھے سے کوئی آ کر میرے کندھا تھپتھپاتا ہے، میں جو مڑ کر دیکھتا ہوں تو یہ ٹکٹ چیکر ہے؛ ”تمہارا سٹاپ آنے والا ہے بابو، چلو اب نیچے اترو‘‘۔ میں ایک دم پریشان ہو جاتا ہوں؛ ”نہیں نہیں بھائی میاں، میری منزل ابھی دور ہے یار‘‘۔ اور پھر ٹکٹ چیکر مجھے سمجھانے والے انداز میں کہتا ہے؛ ”نہ، یہی ہے، سٹاپ تو بس یہی ہے، ہو جاتا ہے، کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے‘‘۔
اس اچانک پن میں پھنس کے مجھے سمجھ آ گئی کہ ہم سب کس طرح سمندر کی بے رحم لہروں کے اوپر تیرتے ایک چھوٹے سے لکڑی کے ٹکڑے کی طرح ہیں۔ بے یقینی کی ہر بڑی لہر کے آگے ہم تو بس اپنے چھوٹے سے وجود کو سنبھالنے میں لگے رہتے ہیں۔ نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔ ہرا سمندر گوپی چندر، بول میری مچھلی، کتنا پانی، اتنا پانی! تو بس پانی، بے رحم پانی، وقت کی موجوں کے تھپیڑوں میں تیرتی نامعلوم ہستی اور پانی!
اس مصیبت میں پھنسنے کے بعد ایک دن جب میں ڈرا سہما ہوا ہسپتال جا رہا تھا تو میں نے اپنے بیٹے سے ایویں بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے اس وقت اپنے آپ سے کچھ نہیں چاہئے، ہاں بس اتنا ضرور ہے کہ یار اس عذاب سے میں اس طرح نہ گزروں جیسے اب اس وقت گزر رہا ہوں۔ مجھے اپنا سکون اپنا اطمینان واپس چاہئے۔ یہ جو ڈر، جو خوف، جو پریشانیاں میرے کندھوں پہ چڑھی بیٹھی ہیں میں انہیں اٹھا کے پھینک دینا چاہتا ہوں، میں ایسی قابل رحم قسم کی ہونق حالت میں اب مزید نہیں رہنا چاہتا۔ اس بیماری کا شکار ہونے کے بعد میری واحد خواہش یہی تھی۔ اور پھر اپنی تکلیف کی طرف میرا دھیان چلا گیا۔ مطلب اتنے عرصے سے میں بس اپنی تکلیف جھیل رہا تھا، برداشت کر رہا تھا، درد کی شدت کا احساس کر رہا تھا، لیکن اس پوری مدت میں کوئی بھی چیز اسے ختم نہیں کر پا رہی تھی۔ کوئی ہمدردی، پیار بھرے بول، کوئی ہمت بندھانے والی بات، کچھ بھی نہیں! اس وقت پتا ہے کیسا لگتا تھا؟ جیسے پوری کائنات صرف ایک چیز کا روپ دھار چکی ہے ، درد، خوفناک درد۔ وہ درد جو ہر چیز سے بڑا ہے!
ہر چیز سے مایوس ہو کر تھکا ہارا، بے حال جب میں ہسپتال کے اندر داخل ہو رہا تھا تو سامنے کی طرف میری نظر پڑی۔ ادھر لارڈز کرکٹ گراؤنڈ تھا۔ وہ لارڈز جسے دیکھنا میرے بچپن کی سب سے بڑی حسرت تھا۔ اور اب اس تکلیف کے دوران وہاں لگا ویوین رچرڈز کا ایک بڑا سا ہنستا ہوا پوسٹر بھی مجھے اپنی طرف کھینچ نہیں سکا۔ دنیا تو جیسے اب میرے کام کی رہ ہی نہیں گئی تھی۔ خیر، اس ہسپتال میں ایک کوما وارڈ بھی تھا، وہ سارے مریض جو لمبے عرصے کے لیے ہوش اور بے ہوشی بلکہ زندگی اور موت کے درمیان لٹکے ہوتے تھے، وہ ادھر رکھے جاتے تھے، اوپر، بالکل میرے وارڈ کے اوپر والے کمرے میں۔ ایک دن میں اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑا تھا تو جیسے ایک جھماکا ہوا۔ گیم آف لائف اور گیم آف ڈیتھ کے بیچ میں ہے کیا؟ ایک سڑک؟ (کرکٹ کو گیم آف لائف بھی کہتے ہیں) ایک طرف ایک ہسپتال ہے اور اس کے بالکل سامنے دوسری طرف ایک سٹیڈیم، اور دونوں میں کھیلے جانے والے کھیل کی ایک چیز کامن ہے ، بے یقینی۔ نہ لارڈز سٹیڈیم میں پتہ ہے کہ اگلی گیند پہ کیا ہو گا، نہ ہسپتال میں اگلی سانس کا پتہ ہے۔ کامل بے یقینی۔ یہ فیلنگ جیسے میرے اندر اتر گئی۔
اب مجھے کائنات کی وسعت، اس کی طاقت اور اس کا نظام، سب کچھ کہیں نہ کہیں سمجھ آنا شروع ہو گئے تھے۔ آخر میرا ہسپتال ایک کھیل کے میدان کے سامنے کیوں تھا؟ اور صرف میں نے ہی اس بات کو اتنی شدت سے محسوس کیوں کیا؟ یہ سب مجھے آپس میں جڑا ہوا لگنے لگا۔ تو سمجھو کہ بس جو چیز یقینی ہے وہ بے یقینی ہے۔ یعنی بے یقینی کے علاوہ اس پوری کائنات میں کچھ بھی ایسا نہیں جسے یقینی کہا جا سکے۔ اب جب سبھی بے یقینی کے بہاؤ میں ہیں تو میں کیا اور میری بے یقینی کیا؟ مجھے تو بس اپنی باقی رہ جانے والی طاقت کو سنبھالنا ہے اور اپنے حصے کا کھیل اچھے سے کھیلنا ہے، دیٹس اٹ! تو بس اس ایک لمحے کے بعد مجھے سمجھ آ گئی۔ میں جان گیا کہ نتیجہ جو بھی نکلے مجھے اس حقیقت کو ماننا ہو گا۔ ادھر سب کچھ ایسا ہی ہے۔ چاہے میرے پاس آٹھ مہینے بچے ہیں، چاہے دو ماہ یا بے شک دو مزید سال، سب کچھ ایک طوفانی لہر میں ہے۔ اس کے بعد تمام خدشے، تمام ڈر، تمام خوف، تمام پریشانیاں سب کچھ دھندلے ہوتے گئے اور میرا دماغ ان سب سے خالی ہو گیا۔
ساری عمر میں پہلی بار تب مجھے اندازہ ہوا کہ آزادی کا مطلب واقعی میں ہے کیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے مجھے کوئی بڑی کامیابی ملی ہے۔ جیسے زندگی کا جادو بھرا ذائقہ مجھے پہلی بار چکھنے کو ملا ہے اور یہ سب میرے جسم کی ایک ایک پور میں اتر چکا تھا۔ اس پوری بیماری کے دوران لوگ میرے لیے دعائیں کرتے رہے ہیں، لوگ جنہیں میں جانتا ہوں، لوگ جنہیں میں نہیں بھی جانتا، وہ سب مختلف جگہوں پہ، مختلف ٹائم زونز میں رہتے ہوئے میرے لیے دعائیں کرتے رہے اور مجھے لگا کہ ان کی سب دعائیں مل کے ایک ہو گئیں۔ ایک بڑی سی طاقت، جیسے ایک لہر کی، بڑی سی موج کی طاقت ہوتی ہے ، وہ بس ریڑھ کی ہڈی سے میرے اندر تک اتر گئی اور میری کھوپڑی کے اندر اس نے اپنی جڑیں بنا لیں۔ اب وہ ادھر اگتی رہتی ہے، کبھی ایک چھوٹا سا امید کا پودا، کبھی ایک پتا، کبھی ایک نرم سا تنا۔ میں اسے دیکھتا ہوں اور خوش ہوتا رہتا ہوں۔ اتنی ساری دعاؤں کے نتیجے میں اس پہ جو بھی پھول اگتا ہے، جو بھی نئی ٹہنی نکلتی ہے، جو بھی پتا آتا ہے، وہ مجھے صرف خوشگوار سی حیرت اور خوشیاں دیتا ہے۔ تو وہ جو لکڑی کا ننھا سا ٹکڑا ہے نا، اسے کیا ضرورت کہ وہ پانی کے بہاؤ کا رخ بدلنے کی کوشش کرے؟ اس سے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہم سب قدرت کی گود میں بیٹھے ہیں جو ہمیں ہلکے پھلکے جھولے دے رہی ہے، نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کچھ بھی کم، دیٹس اٹ