امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا لوگوں کو جراثیم کش محلول کے انجیکشن لگانے اور کورونا وائرس کے متاثرین کے علاج میں الٹرا وائلٹ شعاعیں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔
بی بی سی کی ریئلٹی چیک ٹیم نے ان دنوں باتوں پر تفصیل سے حقائق کو پرکھا ہے۔
پہلا دعویٰ
’میں نے اس جراثیم کش دوا کو ایک منٹ میں کام کرتے دیکھا ہے۔ اور یہ چیز ہم جسم میں انجیکشن لگا کر کر سکتے ہیں، یا اس سے اندر کی صفائی بھی کر سکتے ہیں۔ یہ چیز پھیپھڑوں کے اندر پہنچ کر زبردست کام کر سکتی ہے۔‘
صدر ٹرمپ نے تجویز دی ہے کہ اس وائرس کے مریضوں کو جراثیم کش محلول کے انجیکشن لگانے سے شاید اس وائرس کے علاج میں مدد مل سکے۔
سطح زمین پر تو جراثیم کش محلول کے سپرے سے وائرس کو مارا جا سکتا ہے مگر یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب یہ وائرس کسی چیز یا سطح پر ہو۔ اس بارے میں معلوم نہیں ہے کہ جب یہ انسانی جسم کے اندر چلا جاتا ہے تو پھر کیا ہوتا ہے۔
جراثیم کش ادویات پینے سے یا اس کا انجیکشن لگانے سے موت کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔
ان خدشات کی بنیاد پر کہ لوگ اسے اچھا سمجھ کر استعمال کریں گے اور اموات ہو سکتی ہیں، ڈاکٹرز نے لوگوں سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ جراثیم کش ادویات پینے یا ان کا انجیکشن لگانے سے گریز کریں۔
ہارٹ فورڈ شائر یونیورسٹی میں زہریلے مادوں سے متعلق مہارت رکھنے والے پروفیسر راب چِلکوٹ کا کہنا ہے کہ ’وائرس کو غیر مؤثر کرنے کی غرض سے گردش کرنے والے خون میں بلیچ یا جراثیم کش محلول کے انجیکشن سے ممکنہ طور پر انتہائی زیادہ اور ناقابل تلافی نقصان ہونے کا اندیشہ موجود ہے، جس میں شاید بہت بھیانک موت کا امکان بھی موجود رہتا ہے‘۔
ان کے مطابق ’اس سے خلیوں کے اندر موجود وائرل زرات پر بھی اثر نہیں پڑے گا‘۔
لائیسول اور ڈیٹول جیسے جراثیم کش محلول بنانے والی کمپنی ریکٹ بینکیسر نے صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد ایک وضاحت جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’کسی بھی حالت میں اور کسی بھی طریقے سے ہماری جراثیم کش مصنوعات کو انسانی جسم کے اندر نہ جانے دیا جائے‘۔
دوسرا دعویٰ
’میں نے کہا کہ آپ روشنی جسم کے اندر ڈال سکتے ہیں، ایسا آپ جلد کے راستے کر سکتے ہیں یا کسی اور طریقے سے بھی۔ اور میرا خیال ہے آپ نے کہا کہ آپ بھی یہ ٹیسٹ کرنے جا رہے ہیں۔ تو پھر ہم دیکھ لیں گے، لیکن روشنی کے بارے میں یہ نظریہ، کہ یہ کیسے ایک منٹ میں کسی چیز کو مار دیتی ہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔‘
صدر ٹرمپ نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ کورونا وائرس کے مریضوں کو ’الٹرا وائلٹ شعاعوں یا بہت تیز روشنی‘ میں رکھنے سے اس وائرس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
اس بات کے کچھ شواہد موجود ہیں کہ عام طور پر زمین کی سطح پر وائرسز سورج کی روشنی سے جلدی مر جاتے ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی تک اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ کتنے عرصے تک اور کتنی حد تک انھیں الٹرا وائلٹ شعاعوں کے سامنے رہنا ہوگا تاکہ کچھ اثر سامنے آئے۔
ایک بار پھر یہ واضح رہے کہ یہ صرف متاثرہ اشیا اور سطحوں کے لیے ہے نہ کہ اس بارے میں جب وائرس آپ کے جسم کے اندر داخل ہو تو کیا ہوتا ہے۔
جس وقت یہ وائرس آپ کے جسم کے اندر سرائیت کر جاتا ہے تو پھر الٹرا وائلٹ شعاعوں سے آپ کی جلد پر کسی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
کِنگز کالج لندن میں فارماسوٹیکل میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر پینی وارڈ کا کہنا ہے کہ ’الٹرا وائلٹ شعاعیں اور زیادہ حرارت سطح پر وائرس کو مارنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ تاہم نہ تو سورج میں بیٹھنے اور اور نہ ہی زیادہ حرارت اس وائرس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے جو مریض کے جسم کے اندر اعضا تک سرائیت کر گیا ہو۔‘