1988 میں جب میرا نائر کی فلم ’سلام بمبئی‘ پوری دنیا میں دھوم مچا رہی تھی تو شاید ہی کسی نے اس میں کام کرنے والے 18-20 سال کے دبلے پتلے لڑکے پر غور کیا ہو جو سکرین پر چند سیکنڈ کے لیے دکھائی دیتا ہے۔
اداکار عرفان خان نے اس فلم میں سڑک کنارے بیٹھ کر لوگوں کے خط لکھنے والے لڑکے کا ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا تھا اور چند مکالمے بھی بولے تھے۔
‘بس بس دس لائن ہو گئیں۔ آگے لکھنے کے 50 پیسے لگیں گے۔ ماں کا نام پتا بول۔’
لوگوں نے پہلی بار عرفان خان کو فلمی سکرین پر دیکھا اور بھول گئے لیکن شاید ہی کسی کو معلوم تھا کہ یہ اداکار آگے چل کر نہ صرف انڈیا بلکہ دنیا بھر میں نام کمائے گا۔
1966 میں جے پور میں پیدا ہونے والے عرفان خان کا بچپن ایک چھوٹے سے شہر ٹونک میں گزرا۔ یہ شہر چھوٹا تھا لیکن عرفان کے خواب بڑے تھے۔
بچپن سے ہی قدرتی طور پر قصے کہانیوں میں دلچسپی رکھنے والے عرفان کا رحجان فلموں کی طرف ہو گیا اور وہ بھی خاص طور پر نصیر الدین شاہ کی فلمیں۔
انڈیا کے راجیہ سبھا ٹی وی کو دیے ایک انٹرویو میں اپنی نوعمری کا ایک قصہ سناتے ہوئے عرفان نے بتایا تھا ‘مِتھن چکرورتی کی فلم ’مرگیا‘ آئی ہوئی تھی۔ کسی نے کہا تیرا چہرہ متھن سے ملتا ہے۔ بس مجھے لگا کہ میں بھی فلموں میں کام کر سکتا ہوں۔ کئی دنوں تک میں متھن جیسے بال بنا کر گھومتا رہا۔’
آگے چل کر عرفان خود ایک رجحان ساز اداکار بننے والے تھے اور یہ بات وہ نوعمری میں نہیں جانتے تھے۔
ایک جانب جہاں انہوں نے خود کو ہندی سنیما کے سب سے قابل اداکاروں کی فہرست میں شامل کر لیا وہیں ہالی وڈ میں لائف آف پائی، دا نیم سیک، سلم ڈاگ ملینیئر، دا مائٹی ہارٹ، دا امیزنگ سپائڈر میین جیسی فلموں میں بھی کام کیا۔
اور اس سفر میں انھیں اینگ لی اور میرا نائر سے لے کر انیس بزمی اور شوجیت سرکار جیسے ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
عرفان اپنے آپ میں ہنر کی کان تھے۔ خاص طور پر ایک ایسی انڈسٹری میں جہاں عامر خان، سلمان خان اور شاہ رخ خان جیسے اداکاروں کا نام چلتا ہے۔
چاہے آنکھوں سے اداکاری کا فن ہو، مکالمے بولنے کا قدرتی ہنر، رومانی کردار سے لے کر ڈاکو بننے تک کی صلاحیت، عرفان خان جیسا دوسرا فنکار ڈھونڈنا آسان نہیں۔
مثال کے طور پر ان کی فلم پان سنگھ تومر میں ایک ڈاکو کا کردار، جس طرح وہ معصومیت، بھولاپن، درد، تذلیل اور بغاوت کا احساس ایک ساتھ لے کر آئے، یہ کام کوئی غیر معمولی اداکار ہی کر سکتا ہے۔
جب نظام سے مایوس ہوکر بندوق اٹھانے والا باغی بولتا ہے ‘بھیڑ میں باغی ہوتے ہیں، ڈکیت ملتے ہیں پارلیمان میں’، تو سارا تھیٹر تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ یہ تالیاں صرف مکالمے پر ہی نہیں بجتیں بلکہ اپنی اداکاری سے عرفان خان نے ناظرین کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ اس مکالمے میں جو بات کہی جا رہی تھی وہ صحیح تھی، بھلے وہ جانتے ہوں کہ وہ بات اصل میں صحیح نہیں تھی۔
2012 میں آنے والی اسی فلم کے لیے عرفان خان کو نیشنل ایوارڈ ملا تھا۔
اس کے علاوہ فلم ’حیدر‘ میں وہ کردار جس میں وہ کہتے ہیں ‘جہلم بھی میں، چِنار بھی میں، شیعہ بھی میں، سنی بھی میں اور پنڈت بھی۔’ یہ کردار جو کہنے کو ایک بھوت تھا آپ کو یقین دلاتا ہے کہ وہ اصل میں ہے اور آپ کے ہی ضمیر کی آواز ہے۔
یا پھر فلم مقبول میں ابا جی (پنکج کپور) کی وفاداری اور نمی (تبو) کی محبت کے درمیان پھنسا میاں مقبول جو ابا جی کا قتل کر کے ان سے پیچھا تو چھڑا لیتا ہے لیکن پچھتاوے سے نہیں بھاگ پاتا۔ وہ منظر جہاں عرفان اور تبو کو اپنے ہاتھوں پر خون کے دھبے نظر آتے ہیں، بغیر کچھ کہے اس میں عرفان احساس ندامت کے جذبات دیکھنے والوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
جب فلم جذبہ میں وہ ایشوریا رائے سے کہتے ہیں ‘محبت ہے اسی لیے تو جانے دیا، ضد ہوتی تو بانہوں میں ہوتی’ تو دیکھنے والوں کو یقین ہوتا ہے کہ اس سے دلکش عاشق ہو ہی نہیں سکتا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عرفان خان کی خاصیت یہی تھی کہ وہ جس کردار میں پردے پر نظر آئے، تھیٹر میں بیٹھے لوگوں کو لگتا تھا کہ ان سے بہتر تو یہ کردار کوئی اور کر ہی نہیں سکتا تھا۔
اس انڈسٹری میں جہاں ٹائپ کاسٹ ہو جانا بہت عام بات ہے، عرفان ان تمام روایات کو توڑتے چلے گئے۔
فلم ’حاصل‘ کے بعد انھیں تمام منفی کردار ملنے لگے لیکن اسی دوران انہوں نے ہندی میڈیم جیسی فلم میں کام کر کے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ کامک ٹائمنگ میں ان کا کوئی جواب نہیں۔ اس فلم میں ان کے ساتھ پاکستانی اداکارہ صبا قمر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
اگر آپ نے ’قریب قریب سنگل‘ یا ’پیکو‘ دیکھی ہے تو ضرور خیال آیا ہوگا کہ عرفان اصل زندگی میں کتنی رومانوی طبیعت کے شخص ہوں گے۔ وہ اصل میں ایسے تھے بھی اور کھلے عام اس کا اعتراف بھی کیا کرتے تھے۔
لیکن عرفان کی کامیابی کے پیچھے برسوں کی گمنامی، جدوجہد اور ٹیلی ویژن کا مشکل سفر بھی شامل تھا۔
کئی دیگر اداکاروں کی طرح انڈیا کے نیشنل سکول آف ڈرامہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد عرفان خان نے ممبئی کا رخ کیا لیکن وہاں فلموں میں چھوٹے موٹے کردار کے علاوہ انھیں کچھ نہیں ملا۔
‘ایک ڈاکٹر کی موت اور کملا کی موت’ میں وہ پنکج کپور کے ساتھ چھوٹے سے کردار میں تھے۔ کچھ لوگوں کو یاد ہوگا کہ وہ ٹیلی ویژن پر ‘کہکشاں، لال گھاس پر نیلے گھوڑے، بھارت ایک کھوج، بنے گی اپنی بات’ جیسے ڈراموں میں نظر آئے تھے۔
لوگوں نے انھیں ٹی وی پر نوٹس کیا تو ‘چندرکانتا’ میں بدری ناتھ کے کردار میں۔
شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان کے ہنر کو پہنچانے والے شخص تھے انگریزی فلمساز آصف کاپڑیا جن کی 2001 میں آنے والی فلم ‘واریئر’ بافٹا تک گئی۔
ایسا نہیں ہے کہ عرفان خان نے اپنے کریئر میں ایسی فلمیں نہیں کیں جنہیں خراب فلمیں کہا جا سکتا ہے۔
لندن میں ایک بار اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ جب تک انسان صحیح اور غلط کے تجربے سے گزرے گا نہیں، تو سمجھے گا کیسے؟
سلم ڈاگ ملینیئر میں ان کا کردار بہت بڑا نہیں تھا لیکن انھوں نے بتایا تھا کہ کبھی کبھی کوئی کردار آپ اس لیے کرتے ہیں کہ یہ آپ کو بہت کچھ سکھا کر جانے والا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر عرفان معمولی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ اسیم چھابڑا کی کتاب ’عرفان خان، دا مین، دا ڈریمر، دا سٹار’ میں ذکر ہے کہ جب 2010 میں عرفان خان نیویارک میں ایک ریستوران میں تھے تو سامنے والی میز پر انھوں نے ہالی وڈ اداکار مارک رفلو کو دیکھا۔
عرفان ایک مداح کی طرح ان سے ملنا چاہتے تھے لیکن تکلف کر رہے تھے کیوں کہ وہ بڑا نام تھے۔ اتنی دیر میں مارک خود اٹھ کر ان کے پاس آئے اور بولے ‘آپ کا کام دیکھا سلم ڈاگ میں۔ آپ نے بہت عمدہ کام کیا ہے۔’
یہ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ جب عرفان نیشنل سکول آف ڈرامہ میں اپنی تعلیم مکمل کر رہے تھے تبھی انھیں اپنی پہلی بین الاقوامی فلم مل گئی تھی۔
میرا نائر نے انھیں سلام بامبے میں ایک بڑے کردار کے لیے چنا تھا۔ وہ بمبئی آکر ورکشاپ میں شامل ہوئے اور دو روز بعد ان سے کہا گیا کہ وہ فلم کا حصہ نہیں ہیں۔
بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ اس روز وہ رات بھر روتے رہے۔
پھر انھیں فلم میں چھوٹا سا کردار دے دیا گیا لیکن یہ قرض میرا نائر نے 18 برس بعد عرفان خان کو دا نیم سیک میں اشوک گانگُولی کا کردار دے کر ادا کیا۔
اس فلم کو دیکھ کر بالی وڈ کی اداکارہ شرمیلا ٹیگور نے عرفان خان کو پیغام بھیجا تھا جس میں لکھا تھا ‘اپنے والدین کا شکریہ ادا کرنا تمہیں جنم دینے کے لیے۔’
اتفاق کی بات ہے کہ عرفان کی وفات سے تین روز قبل ہی ان کی والدہ سعیدہ بیگم کا بھی انتقال ہوا اور اب عرفان اس دنیا کو الوداع کہہ چلے۔
ہندی سنیما اور عالمی سنیما کو اپنی اداکاری سے سنوارنے والے، اپنی فلموں سے یہ بتانے والے کہ ہر احساس صحیح یا غلط، بلیک یا وائٹ نہیں ہوتا، اپنے چاہنے والوں کو ہنسانے اور رلانے والے عرفان خان کا تہہ دل سے شکریہ۔
کل رات ان کی فلم انگریزی میڈیم دیکھتے ہوئے گزری جو گذشتہ ماہ ہی ریلیز ہوئی تھی۔
راجستھان کے ایک چھوٹے سے قصبے کے رہنے والے اس کردار چمپک بنسل کے خوابوں کی داستان بالکل عرفان کی اصل زندگی کی طرح ہے اور چمپک بنسل کے قہقہے آج دیر تک کمرے میں گونجتے رہیں گے۔