حال ہی میں سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں پولیس کا عوام کی جانب تضحیک آمیز رویہ دیکھنے کو ملا۔ ایک ویڈیو میں پولیس اہلکار لوگوں کو مرغا بنا کر سزا دے رہے ہیں، تو دوسری ویڈیو میں بایئک پر سوار فیملی کو روک کر ان سے سخت لہجے میں پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
پولیس کی طرف سے لوگوں کے ساتھ اس قسم کے نامناسب رویے کا یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں اور حال ہی میں ایک اور ایسی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں لاہور رنگ روڈ پولیس نے ایک نوجوان لڑکی اور ان کے ساتھ موجود ایک نوجوان لڑکے کو کار سے اتار کر ان سے وہیں سوال جواب شروع کر دیے اور ویڈیو بھی بنائی گئی۔ اس نوجوان لڑکے نے موٹروے پولیس کی وردی پہنی ہوئی تھی۔
ویڈیو میں اس لڑکی سے ان کے گھر کے بارے میں اور ساتھ موجود نوجوان کے ساتھ ان کے رشتے کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے، ساتھ یہ بھی پولیس کی جانب سے واضح سنا جا سکتا ہے کہ لڑکی کی والدہ کو انھیں گھر لے جانے کے لیے بلایا گیا ہے۔
موٹروے پولیس کی ’جعلی وردی‘ پہنے نوجوان کے خلاف کارروائی کرنے کی بات بھی سڑک پر ہی ویڈیو بناتے ہوئے کی جا رہی ہے۔
اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔ وکیل اور سماجی کارکن خدیجہ صدیقی نے لکھا ’ہاں وہ دونوں ساتھ تھے، وہ دوست ہیں، اس میں کون سی اتنی بڑی بات ہے؟ اس کی ویڈیو بنا کر پوری دنیا کو دکھانے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ دونوں رنگ روڈ لاہور پر ایک ساتھ تھے؟‘
خدیجہ صدیقی نے مزید لکھا کہ ’پولیس والا مسلسل اس لڑکی کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کر رہا ہے، اسے ہراساں کیا جا رہا ہے اور اس کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ اس معاملے میں صرف لڑکے کے خلاف جعل سازی کی کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ ویڈیو بنانے والے کی نشاندہی کی جائے اور کارروائی کی جائے۔ یہ ناقابلِ قبول ہے۔‘
اس ٹویٹ کے جواب میں ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کی جانب سے ٹویٹ سامنے آئی جس میں انھوں نے کہا کہ اس معاملے کو لاہور رنگ روڈ پولیس کے ساتھ اٹھایا گیا ہے اور یہ بھی کہ رنگ روڈ پولیس حکام کی شناخت ہو گئی ہے اور اس کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
کیا پولیس کے پاس اختیار موجود ہے کہ وہ یوں کسی فرد کی ذاتی زندگی میں دخل دے سکے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہرِ قانون یاسر لطیف ہمدانی کا کہنا تھا کہ ’پولیس کا ایسا فعل پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے، ان کے پاس ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے کہ وہ اس طرح سوال کرے۔
’پولیس چونکہ ریاستی ادارہ ہے اس لیے ان پر اِن بنیادی اصولوں کا خیال رکھنا لازمی ہے۔ مجموعی طور پر یہ سارا واقعہ ویڈیو میں موجود لڑکی کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘
کیا نوجوان خاتون اس ویڈیو شیئرنگ پر خود کسی کارروائی کا حق رکھتی ہیں؟
اس پر بات کرتے ہوئے ماہر قانون یاسر لطیف ہمدانی نے بتایا کہ گو کہ ڈیٹا پروٹیکشن سے متعلق ایک بل پبلک کے استعمال کے لیے سامنے لایا گیا ہے لیکن ابھی تک کوئی قانون نافذ العمل نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے خاتون کا پولیس افسران کے رویے کے خلاف ایکشن لینا مشکل ہے۔
’ان پولیس افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی اس بنیاد پر ہوگی کہ انھوں نے آئین کی خلاف ورزی کیوں کی ہے۔‘
اس پر مزید بات کرتے ہوئے ماہرِ قانون شمائلہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ پنجاب پولیس آرڈر 2002 میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ ’پولیس افسران عوام کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کر سکتے اور کسی بھی صورت میں پولیس کی حاصل کردہ معلومات منظر عام پر نہیں لا سکتے، خاص کر کہ اگر اس سے کسی کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہو۔‘
ماہر قانون کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں اس ویڈیو کا کوئی جواز نہیں تھا سوائے تذلیل کرنے کے۔
سوشل میڈیا صارفین کا ردِعمل
ویڈیو پر ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’اس حرکت سے لڑکی کی جان کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔‘
صارف جمیل نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ’پولیس والے کی جانب سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا، اسے سزا ہونی چاہیے۔‘
جہاں اس واقعے کے خلاف بولنے والے لوگ نظر آئے وہیں اس معاملے کے حق میں بھی آوازیں سننے کو ملیں۔