پاکستان

وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر: سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے نیب ترمیمی مسودے کی کوئی حیثیت نہیں

Share

وفاقی حکومت کے مطابق نیب کے قانون میں ترمیم سے متعلق مجوزہ مسودے پر غور کیا جارہا ہے تاہم اس حوالے سے نہ تو ابھی کام شروع ہوا ہے اور نہ ہی حزب مخالف کی جماعتوں سے رابطے بحال ہوئے ہیں۔

احتساب سے متعلق وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی شہزاد اکبر نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے نیب آرڈیننس میں ترمیم کے مجوزہ مسودے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس مسودے کی کوئی حثیت نہیں ہے۔

ایک بیان میں شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا مسودہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کے مسودے سے ملتا جلتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف قانون کی عمل داری پر یقین رکھتی ہے اور وہ ایسا کوئی اقدام نہیں کریں گے جس کی وجہ سے ان کی جماعت کے منشور پر کوئی حرف آئے۔

اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ حزب مخالف کی جماعتیں چیئرمین نیب کے اختیارات میں کمی کروانا چاہتی ہیں۔

واضح رہے کہ شہزاد اکبر احتساب کے بارے میں وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی بننے سے پہلے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف مختلف عدالتوں میں دائر کی جانے والی درخواستوں کی پیروی کیا کرتے تھے۔

اس کے علاوہ انھوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نیب میں بطور معاون بھی کام کیا تھا۔

حکومتی ذرائع کے مطابق نیب کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں کے درمیان مزاکرات جاری تھے تاہم حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں میں کچھاؤ اور کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں کے درمیان اس ضمن میں کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

شہزاد اکبر
شہزاد اکبر احتساب کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر بننے سے پہلے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف مختلف عدالتوں میں دائر کی جانے والی درخواستوں کی پیروی کیا کرتے تھے

وفاقی وزیر برائے سائسں اینڈ ٹیکٹالوجی فواد چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ نیب قانون میں ترمیم سے متعلق حزب مخالف کی جماعتوں کے درمیان آخری رابطہ دو ماہ قبل ہوا تھا۔

وزارت قانون کے ایک اہلکار کے مطابق حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں کے درمیان نیب کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے جو معاملات زیر بحث آئے تھے ان میں نیب میں پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی میں حزب مخالف کی جماعتوں سے مشاورت کے علاوہ تفتتیش کے مرحلے پر نیب کو جائیداد سے متعلق کوئی قدغن لگانے اور عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرنے سے روکنا شامل ہے۔

اہلکار کے مطابق اس کے علاوہ ملاقاتوں میں یہ معاملہ بھی زیر بحث لایا جاتا رہا ہے کہ نیب کسی بھی شخص کے خلاف کسی گمنام درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔

اہلکار کے مطابق ملاقاتوں میں یہ معاملہ بھی زیر بحث آتا رہا ہے کہ نیب تفتیش مکمل کرنے کے تین ہفتوں کے اندر اندر متعقلہ عدالت میں ریفرنس دائر کرے گا اور اس حوالے سے کوئی ضمنی ریفرنس دائر نہیں کیا جائے گا۔

ان ملاقاتوں میں یہ معاملہ بھی زیر بحث آتا رہا کہ ٹیکس گوشوارے کے معملات نیب نہیں دیکھے گا اور صرف انہی معاملات کی تحقیقات کی جا سکیں گی جن میں 50 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم کی خردبرد کا الزام ہو گا۔

وزارت قانون کے اہلکار کے مطابق ان ملاقاتوں میں یہ معاملہ بھی زیر غور آیا کہ جس علاقے میں جرم ہو گا اسی عدالت میں ٹرائل ہو گا اور ایک ماہ میں مقدمے کا فیصلہ سنایا جائے گا۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال
حکومت نے چار ماہ قبل قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے باعث نیب کے قانون میں ترمیم کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کی معیاد بھی رواں ہفتے ختم ہو چکی ہے

سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف جعلی اکاؤنٹس مقدمے کی عدالتی کارروائی کراچی سے اسلام آباد منتقل کردی گئی تھی اور اس منتقلی کا حکم سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ایک بینچ نے دیا تھا۔

وزارت قانون کے اہلکار کے مطابق حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں کے درمیان ملاقاتوں میں اس معاملے کو بھی زیر بحث لایا گیا کہ نیب کی حراست کے دوران ملزم کو یہ حق ہوگا کہ وہ ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کرسکتا ہے جبکہ نیب کے موجودہ قانون کے مطابق زیرِ حراست کسی بھی ملزم کو ضمانت کا حق حاصل نہیں ہے۔

حکومت نے چار ماہ قبل قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے باعث نیب کے قانون میں ترمیم کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کی معیاد بھی رواں ہفتے ختم ہو چکی ہے۔

اس ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص اور سرکاری افسر کے خلاف اس وقت تک کوئی کارروائی عمل نہیں لائی جاسکتی جب تک کسی بدعنوانی کے معاملے میں اس شخص نے مالی فائدہ حاصل نہ کیا ہو۔

نیب کے سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل ذوالفقار بھٹہ کے مطابق ترمیمی آرڈیننس کی معیاد ختم ہونے سے پہلے جن لوگوں نے فائدہ اُٹھایا ہے اب اُن کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی۔

اُنھوں نے کہا کہ نیب کے چیئرمین کے اختیارات اسی طرح سے بحال ہو گئے ہیں جو اس صدارتی آرڈیننس کے جاری ہونے سے پہلے تھے۔