کرونا کے خوف نے جو تنہائی مسلط کررکھی ہے اس سے نبردآزما ہونے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا رہتا ہوں۔معاملہ اگرچہ ’’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘ والا ہوچکا ہے۔ابھی تک ایک حربہ مگر وقت گزارنے میں کافی مددگار ثابت ہورہا ہے۔اپنے ذہن میں اچانک اُمڈے کسی سوال کے بارے میں تھوڑی تحقیق کا ارادہ بناتا ہوں۔ تحقیق کے ہنر کو تعلیم کے دوران سیکھا نہیں۔ رٹے لگائے تھے۔ عطائیوں کی طرح اپنائی جستجو کماحقہ جوابات فراہم نہیں کرتی۔ محاورے والے ’’ٹیم(Time)‘‘ البتہ پاس ہوجاتا ہے۔
گزشتہ تین دنوں سے چند عالمی اخبارات کے Contentپر توجہ دینے کا فیصلہ کیا تو دریافت ہوا کہ ان اخبارات کا کم از کم 60فی صد مواد فقط کرونا سے متعلق ہوتا ہے۔وباء کا باعث ہوئے وائرس کے بارے میں ماہرین کی جانب سے جاری تحقیق کے علاوہ زندگی کے ان بے تحاشہ پہلوئوں پر توجہ بھی مرکوز کی جارہی ہے جو کرونا کی وجہ سے معدوم ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔وباء گزرجانے کے بعد عالمی معیشت اور سیاست کے بارے میں جو نئے سوالات اُٹھ سکتے ہیں ان کا تذکرہ بھی شروع ہوگیا ہے۔
ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا میں البتہ کرونا اور اس سے جڑے معاملات کو ویسی توجہ میسر نہیں۔گزشتہ دو دنوں سے مثال کے طورپر یہ جاننے کی کوشش ہورہی ہے کہ محترمہ فردوس عاشق اعوان کی چھٹی کیوں ہوئی۔عاصم سلیم باجوہ صاحب کی معاونت سے عمران حکومت اب کیا Narrative(بیانیہ) تشکیل دے گی۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کتنے حصوں میں تقسیم ہوگی۔اس کی صفوں میں ابھی تک خاموشی سے بیٹھے اراکینِ قومی اور صوبائی اسمبلی نواز شریف کو ’’بس بھئی بس‘‘ کہنے کے بعد عمران خان صاحب کی قیادت تلے آنے میں مزید کتنی دیر لگائیں گے۔
طارق جمیل صاحب کی توہین کا ارتکاب کرنے والے ’’بکائو‘‘ صحافیوں کی مذمت بھی جاری ہے۔ مولانا کی حمایت کو اب سینہ تان کر وہ مصنف بھی سکرینوں پر نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں جن کا نام ابھی ذہن میں نہیں آرہا۔ انہوں نے ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کے عنوان سے ایک ٹی وی سیریل لکھا تھا۔ اس ڈرامے نے کھڑکی توڑرش لیا۔ ہماری خواتین کا وہ گروہ جنہیں مشرقی اقدار کی منکر ہوئی مغرب زدہ لبرل کہا جاتا ہے اس ڈرامے کے ذریعے دئیے پیغام سے اگرچہ بہت ناراض ہوئیں۔’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کی بازگشت گونجی تو معاشرے کو ’’بے حیائی‘‘ سے محفوظ رکھنے کا معرکہ شروع ہوگیا۔ ’’بے حیائی‘‘ اگرچہ اپنی جگہ موجود نظرآرہی ہے۔اسی باعث گزشتہ جمعرات کے روز مولانا طارق جمیل صاحب کو وزیر اعظم کی موجودگی میں ہوئی ٹیلی تھان کے اختتام پر اس کے خاتمے کی التجائی دُعا مانگنا پڑی۔
نجانے کیوں مجھے پڑھے لکھے ’’دانشوروں‘‘ کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ خود کو ہمیشہ ذات کا رپورٹر ہی تصور کیا اور زندگی کو پھکڑپن کی ڈھٹائی کے ذریعے گزارنے کی کوشش کی ہے۔یہ بات اگرچہ برحق ہے کہ بسااوقات اپنے ریگولر اور سوشل میڈیا پر حاوی ہوئی فروعی بحث سے میں اکثر جھنجھلاجاتا ہوں۔ مشتعل ہوا اس میں اپنا حصہ ڈالنے کو بے چین ہوجاتا ہوں۔پندار کا صنم کدہ ویران کئے ہوئے دل کوئے ملامت کا رُخ کرنے کو مچل جاتا ہے۔سوشل میڈیا دورِ حاضر کا ’’کوئے ملامت‘‘ہے۔اپنے تئیں دین اور وطن کے محافظ بنے ’’ٹرول‘‘ گالی بھری اُنگلیوں سے Keyboardکے محاذ پر ہمہ وقت ڈٹے رہتے ہیں۔شرفاء کی اکثریت ان کے خوف سے اپنے من میں آئی بات کے اظہار کی جرأت سے محروم ہوچکی ہے۔ جس کو ’’دین ودل‘‘ عزیز ہے وہ ’’اس گلی‘‘ میں جاتے ہوئے گھبراتا ہے۔مجھے ’’کوئے ملامت‘‘ میں گھسنے کی علت مگر عمر بھر لاحق رہی ہے۔اب مگر تھک گیا ہوں۔بلھے شاہ کا ’’علموں بس کریں اور یار‘‘ سمجھ میں آنا شروع ہوگیا ہے۔منیر نیازی نے بھی ’’باب علم‘‘ کی دہلیز پر کھڑے محبوب کو سمجھایا تھا کہ ’’اس خوف میں داخل نہ ہو‘‘۔
کرونا کے حوالے سے عالمی میڈیا لیکن ’’اس خوف‘‘ میں داخل ہوچکا ہے۔بدھ کے روز میرے گھر آئے نیویارک ٹائمز میں ایک تفصیلی مضمون چھپاہے۔مستند ٹھہرائے ماہرین طب نے اس کے ذریعے متنبہ کیا ہے کہ کسی شخص میں کرونا وائرس کی تصدیق کے لئے دُنیا بھر میں ٹیسٹ کا جو طریقہ کاراپنایا گیا ہے وہ کئی اعتبار سے ناقص ہے۔
اوسطاََ 15سے 20فیصد افراد کو مروجہ طریقہ کار نے ’’سب اچھا‘‘کی رپورٹ دی۔بعدازاں ’’سب اچھا‘‘ False Negativeثابت ہوا۔ پریشان کن اطلاع یہ بھی تھی کہ اگر ایک بار آپ کا ٹیسٹ ’’سب اچھا‘‘ بتائے تو یہ ہرگز اس امر کی ضمانت نہیں کہ آپ کرونا سے ہر صورت محفوظ رہیں گے۔ چند روز قبل تک یہ تصور بھی عام تھا کہ اگر آپ ایک بار کروناسے جانبر ہوجائیں تو اس کے بعد ’’ستے خیراں‘‘ ہیں۔ عالمی ادارئہ صحت اب تواتر سے خود کو تسلی دینے والے اس تصور کی بھی نفی کررہا ہے۔یہ مضمون پڑھا تو ایک بار پھر ’’علموں بس کریں اویار‘‘ کی اہمیت یاد آگئی۔ غالبؔ کے ’’ہورہے گا کچھ نہ کچھ …‘‘ والے شعر نے بھی حوصلہ دیا۔
خلقِ خدا کی صحت کے بارے میں فکر مند ہوئے چند نیک طینت محقق مگر کرونا کا توڑ تلاش کرنے کی مشقت میں ہمہ تن مصروف ہیں۔چین میں یہ وباء نمودار ہوئی تھی۔ شنید ہے کہ اب وہاں کے ماہرین اس کی مدافعت کو یقینی بنانے والی ویکسین تیار کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔کرونا کا توڑ ڈھونڈنے کی دوڑ میں شعوری یا لاشعوری طورپر لیکن مغربی ممالک کے تحقیقاتی اداروں میں کام کرنے والے چین سے اس ضمن میں بازی لے جانے کو بے چین نظر آرہے ہیں۔
یوں گماں ہورہا ہے کہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ Jenner Instituteکرونا سے مدافعت کو یقینی بنانے والی ویکسین تیار کرنے کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔چین نے جو ویکسین تیارکی اسے ابھی تک فقط بندروں پر آزمایا گیا۔ برطانوی ادارے کی تیار کردہ ویکسین مگر ابھی تک 1100انسانوں پر آزمائی جاچکی ہے۔ برطانیہ میں جو نسخہ تیار ہوا تھا اسے امریکہ کے ایک تحقیقی ادارے نے بندروں کی اس نسل پر آزمایا جسے Rhesusکہا جاتا ہے۔اس نسل کے جینز یا خون میں رواں خلیے انسانوں کے بہت قریب شمار ہوتے ہیں۔6بندروں کو یہ ویکسین لگاکر ان بندروں کے درمیان چھوڑا گیا جن کے جسموں میں Covid-19کے جراثیم داخل کئے گئے تھے۔ کئی دن گزرنے کے باوجود یہ بندر محفوظ رہے تو مذکورہ ویکسین کو انسانوں پر آزمانے کی اجازت مل گئی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے جس ادارے نے یہ ویکسین تیار کی ہے اس کا سربراہ Dr Adrian Hillہے۔ یہ صاحب برسوں سے ملیریا کے تدارک کی ویکسین بنانا چاہ رہے تھے۔ ابھی تک کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ویکسین تیار کرنے کے لئے کسی جراثیم کے جنیاتی کوڈ کو وہ جس انداز سے کمزور تر بناتے ہیں اسے مگر کرونا وائرس کے خلاف آزمایا گیا تو کامیابی کے امکانات نمودار ہوئے۔فیصلہ اب یہ ہوا ہے کہ مئی کے وسط تک ڈاکٹرہل نے اپنی ایک ساتھی Sarah Gilbertکی مدد سے جو ویکسین تیار کی ہے اسے مزید پانچ ہزار انسانوں پر آزمایا جائے گا۔بنیادی طورپر اس ویکسین نے اس مرض پر توجہ دی جسے MERSکہا جاتا ہے۔اس کا جراثیم اونٹوں کے ذ ریعے انسانوں میں داخل ہوتا ہے۔نظام تنفس کو اپنی جکڑ میں لے کر اسے مفلوج بنادیتا ہے۔اس مرض کو مشرق وسطیٰ تک محدود وباء شمار کیا گیا تھا۔
وبائی امراض کے عالمی سطح پر مستند اداروں اور ماہرین نے ابھی تک ڈاکٹر ہل کی تیار کردہ ویکسین کے بارے میں حتمی رائے نہیں دی ہے۔اسے وسیع پیمانے پر تیار کرکے بازار میں لانے کی اجازت بھی ابھی تک نہیں ملی۔ اس ویکسین کے مؤثر ہونے کے امکانات مگر اس وجہ سے روشن نظر آرہے ہیں کیونکہ امریکہ کے ایک دھانسو دواساز ادارے نے ڈاکٹر ہل سے یہ دوا تیار کرنے کی اجازت طلب کی۔ نیک طینت ہل نے مگر انکار کردیا۔ وہ نہیں چاہتا کہ محض منافع کی خاطر ویکسین تیار کرنے والا کوئی سیٹھ اس کی ایجاد کا اجارہ دار بن جائے۔امریکی ادارے کو اس نے انکار کردیا کہ مگر ایشیاء اور یورپ کے چند دوا ساز اداروں کو اس نے اپناتیارکردہ نسخہ ویکسین بنانے کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
بطور پاکستانی میرے لئے اہم ترین خبر یہ بھی ہے کہ بھارت کے ایک بہت بڑے دواساز ادارے Serumکو بھی ڈاکٹر ہل نے مذکورہ ویکسین تیار کرنے کی اجازت دے دی ہے۔بھارتی ادارے کو اس کی تیار کردہ ویکسین کے مؤثر ہونے کا اتنا یقین ہے کہ بھاری بھر کم سرمایے سے اس نے مذکورہ ویکسین کی Dosesبھی تیار کرنا شروع کردی ہیں۔ مئی کے اختتام تک ڈاکٹر ہل کی تیارکردہ ویکسین کو عالمی اداروں نے مؤثر ٹھہرادیا تو ستمبر کے مہینے میں یہ ویکسین بھارت کے بازاروں میں آسانی میسر ہونا شروع ہوجائے گی۔
ڈاکٹر ہل کی نیک نیتی پر سوال اٹھانے کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں۔عالمی سیاست کا ادنیٰ طاب علم ہوتے ہوئے اس حقیقت کو لیکن میں نظرانداز نہیں کرسکتا کہ اگر اس کی تیارکردہ ویکسین بھارتی دواساز اداروں میں تیار ہوکر دُنیا بھر کے بازاروں میں پھیلی تو برطانیہ کے Jenner Instituteاور بھارتی دوا ساز ادارے Serumکا اشتراک چین کے مقابلے میں کرونا کی مدافعت کو یقینی بنانے والی ویکسین تیارکرنے کی دوڑ میں بازی لیتا نظر آئے گا۔ اس کی وجہ سے کہانی یہ بھی چلائی جائے گی کہ برطانیہ اور بھارت کا ’’جمہوری نظام‘‘ چین میں مبینہ طورپر مروج ’’آمرانہ نظام‘‘ کے مقابلے میں ’’انسان دوست‘‘ ہے۔چین کے خلاف پراپیگنڈہ کے محاذ پر چھڑی جنگ کا ایک نیا رُخ ہمارے سامنے آئے گا۔