برطانوی انفلوئنسرز (بااثر شخصیات) نے، جن میں نیلا روس، عالیہ ماریہ بی اور اؤنلی بیلز شامل ہیں، اس ہفتے اپنے اُن کلرِسٹ یا رنگت پرستانہ کامنٹس پر معافی مانگی ہے جو انھوں نے ماضی میں کیے تھے اور حال ہی میں پھر سے ٹوئٹر پر گردش کرنے لگے۔
یہ ٹویٹس 2012 سے 2016 کے درمیان کی گئی تھیں جن میں خاص طور پر سیاہ فام، گہری رنگت والی خواتین کے بارے میں ہتک آمیز زبان استعمال کی گئی تھی۔
اؤنلی بیلز نے کہا ہے کہ جب انھوں نے یہ جملے کہے تھے تو وہ ‘نوجوان، نادان اور خائف’ تھیں مگر ‘یہ کوئی جواز نہیں ہے۔۔۔ میں ان تمام سیاہ فام خواتین سے، جن کے جذبات میری وجہ سے مجروح ہوئے ہیں، صدق دل سے معافی مانگتی ہوں۔’
نیلا روز نے اپنی یوٹیوب ویڈیو میں کہا کہ وہ ان تمام لوگوں سے ‘دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ’ ہیں جنھیں ان کی وجہ سے صدمہ پہنچا۔
کلرازم یا رنگت پرستی سے مراد بالعموم ایک ہی نسلی گروہ کے درمیان جلد کی گہری رنگت رکھنے والوں کے خلاف متعصبانہ اور امتیاز بھرا رویہ ہے۔
برطانیہ میں ریڈیو ون کے پروگرام نیوز بیٹ نے ایسے دو افراد سے بات کی ہے جو اس طرح کی بدسلوکی کا شکار رہے ہیں۔
جُلیانہ، عمر 21 برس
جب میں نے سوشل میڈیا استعمال کرنا شروع کیا تو بالکل چھوٹی تھی۔ پتا نہیں کیوں اس وقت گہری رنگت والی خواتین کا مذاق اڑانا عام تھا۔
سکول تک میں لوگ مجھ پر ہنستے تھے اور مجھے اہمیت نہیں دیتے تھے۔ وہ مجھے بُھجنگ، کوئلہ اور تاریکی جیسے ناموں سے پکارتے تھے۔ میں جب بھی کسی سے بحث میں الجھتی تو سب سے پہلے وہ کہتے ’تم تو کالی ہو۔‘ مجھ پر اس کا بہت منفی اثر ہوتا تھا۔
اپنی ہی برادری کی طرف سے اس عدم پذیرائی یا ناپسندیدگی کا میری خود اعتمادی اور اپنی ذات سے متعلق میرے تصور پر گہرا اثر ہوا۔
میں نے اپنے لڑکپن کی ٹویٹس کے سکرین شاٹ شیئر کیے جس کا زبردست ردِعمل آیا۔ لوگوں نے میرے تجربات کو تسلیم کیا اور اہم جانا۔
دوسری خواتین نے بھی رنگت پرستی سے متعلق اپنے تجربات شیئر کیے جو کہ ایک اچھی مگر اداس کر دینے والی بات ہے۔
’گہری رنگت میں خرابی کیا ہے؟‘
میں نے جب انفلوئنسرز کی یہ ٹویٹس دیکھیں تو مجھے مایوسی تو بہت ہوئی مگر حیرت بالکل نہیں۔
مجھے لوگوں کی نوکریاں جانے یا فالوورز گوانے کی بالکل خوشی نہیں مگر میں مطمئن ہوں کہ اس مسئلے کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔
ان کی معذرت سے میں سمجھتی ہوں کہ لوگ اپنے ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں اور کبھی کبھار ناداستگی میں ایسی بات کہہ جاتے جس کا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں ہوتا۔ مگر کسی کے خلوص کا اندازہ کرنا مشکل کام ہے۔
آخر کار اس مسئلے پر بات ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے جب سیاہ فام عورتیں اس بارے میں بات کرتی تھیں تو ان پر تلخ اور حجتّی ہونے کی چھاپ لگ جاتی تھی، مگر رنگت پرستی ایک حقیقی مسئلہ ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ سیاہ فام لڑکیوں کی آئندہ نسل کو ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہمیں اپنی برادری سے باہر بہت سے مسائل کا سامنا ہے اس لیے اپنے اندر مزید مشکلات پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔
ایلینور، عمر 24 سال
اپنے جلد کی رنگت کی وجہ سے تضحیک کا نشانہ بنے کا سب سے پہلا تجربہ جو مجھے یاد پڑتا ہے پانچ برس کی عمر میں ہوا تھا۔ میری کلاس میں ایک لڑکی نے مجھے ’کالی بھُجنگ کوڑے کی ٹوکری‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔
مجھے اچھا نہیں لگا اور میں نے اس کی پٹائی کر دی۔ مگر بجائے اس کے کہ اسے ایسا کہنے پر سزا دی جاتی، مجھے جوابی کارروائی کی سزا دی گی۔
اور پھر سیکنڈری سکول میں لڑکے کھل کر اپنی پسند اور ناپسند کے بارے میں بات کیا کرتے تھے۔
لڑکے کہتے تھے کہ وہ اجلی رنگت والی لڑکیوں کو پسند کرتے ہیں اور وہ ان ہی کے ساتھ گھومتے پھرتے تھے۔ ایسی باتیں سن کر ہم سوچتی تھیں کہ ’ارے واہ، اگر سیاہ فام لڑکے ہمیں پسند نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔‘
اس سے مجھے احساس ہوا کہ شاید میری جلد اتنی اچھی نہیں ہے، میں کالی رہنا نہیں چاہتی کیونکہ ہمیں کوئی پسند نہیں کرتا۔
میں ایسی کئی لڑکیوں کو جانتی ہوں جنھیں اپنی رنگت پسند نہیں تھی، وہ اسے اجلا بنانے کے لیے رنگ کاٹ استعمال کرتیں اور دن میں کئی بار اپنی جلد کو دھوتی تھیں۔
ناپسندیدگی کا یہ عالم تھا۔ میں نے ایسا کبھی نہیں کیا مگر اپنی دوستوں کو ایسا کرتے دیکھ کر میرا دل دکھتا تھا کیونکہ محض دوسروں کو اچھا لگنے کی خاطر اپنی رنگت ہلکا کرنے کی کوشش میں وہ خود کو نقصان پہنچاتی تھیں۔
یہ تھا وہ وقت جب میں نے خود کو ’بی ڈی ایس‘ کی عُرفیت (نِکنیم) دی جس کا مطلب ہے ’ڈارک سکِنڈ بیوٹی‘ یعنی مشکی (کالا) حسن۔
لوگ مجھے اسی عرفیت سے پکارنے لگے۔ اور جب میں 14 یا 15 سال کی ہوئی تو اپنا یو ٹیوب چینل شروع کر دیا، جس کا نام تھا، دا بی ڈی ایس۔ اس کا مقصد سیاہ رنگت والوں کے لیے ایسی جگہ فراہم کرنا تھا جہاں وہ رنگت پرستی اور ان پر اس کے اثرات کے بارے میں کھل کر بات کر سکیں۔
انفلوئنسرز کی یہ ٹویٹس دیکھ کر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ میں بہت عرصے سے ٹوئٹر استعمال کر رہی ہوں اور سیاہ فام عورتوں کے بارے میں کامنٹس کے سلسلے دیکھ چکی ہوں، جن سے مجھے دکھ بھی ہوتا تھا اور غصہ بھی آتا تھا مگر میں خاموش رہتی تھی۔
ایسے کئی لوگوں کو ان کی اس وقت کی ٹویٹس کی وجہ سے میں آج بھی فالو نہیں کرتی۔ اب جبکہ لوگ اُن ٹویٹس کو پھر سے گردش میں لے آئے ہیں تو اچھا لگا، یہ ہی وقت تھا ایسا کرنے کا۔
یہ سب فراموش کرنے کے لیے میں چاہتی ہوں گی کہ یہ انفلوئنسرز معافی مانگیں اور وضاحت کریں۔ انھیں اپنی کمزوریوں اور دیانت کا اظہار کرنا ہو گا، نہ کہ ذاتی پلیٹ فارم پر معذرت کر کے اپنی بڑائی جتاتے پھریں۔
تمام نوجوان کالی رنگت والی لڑکیوں سے، جو اپنے اندر اعتماد محسوس نہیں کرتیں، میں کہوں گی کہ تم جیسی ہو خود کو چاہو۔ کبھی مت سوچو کہ تمھاری جلد کی رنگت کوئی رکاوٹ یا مسئلہ ہے۔ یہ ہی تو تمہاری خوبی ہے۔