کیا کورونا وائرس کی بے چینی آپ کے خوابوں میں بھی خلل ڈال رہی ہے؟
ابھی لاک ڈاؤن کو دو ہفتے ہوئے تھے کہ فلپائن میں ایک 19 سالہ نوجوان لڑکی کو عجیب و غریب خواب آنا شروع ہو گئے۔
ایلیشا انجیلیز کہتی ہیں کہ ‘میں آدھی رات کو ایک ہسپتال میں تھی اور ایک ڈاکٹر میرے ہاتھ کا آپریشن کر رہا تھا۔
‘کچھ لمحوں بعد میں اس عمارت سے ایک ہاتھ کے ساتھ ہی نکل گئی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر میرا کٹا ہاتھ پکڑے اس سے کھیلتا ہوا جا رہا تھا۔ اس نے اس کو کاٹنا بھی شروع کر دیا اور میں اتنی زیادہ کھوئی ہوئی محسوس کرنے لگی۔‘
اگلی چند راتوں میں وہ مزید چیزیں کھونے کے خواب دیکھتی رہیں۔ ‘وہ یا پیسے یا میرا لیپ ٹاپ ہوتا تھا۔‘
لیکن ایلیشا اکیلی نہیں ہیں۔
دنیا کورونا وائرس کے بحران سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور اسی طرح خواب بھی ہوئے ہیں۔
جب سے وائرس دنیا کے 175 سے زیادہ ممالک میں پھیلا ہے اور لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے کئی لوگوں کو بہت زیادہ شدید اور واضح خواب آنا شروع ہو گئے ہیں۔
پریشانی اور ذہنی دباؤ
دیئردرے بیریٹ مارچ سے اس طرح کے خواب اکٹھے کر رہی ہیں تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ اس عالمی وبا کی وجہ سے وہ کیسے بدلے ہیں۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں سائیکولوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر اور ‘دی کومیٹی آف سلیپ’ کی مصنف ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘کسی بھی قسم کے اہم ذہنی دباؤ سے واضح اور پریشان کرنے والے خوابوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے اور میرے سروے میں یقیناً ان کی شرح زیادہ ہے۔’
سروے میں کچھ لوگوں نے اس ٹراؤما سے وابستہ خوابوں کے متعلق بھی بتایا جیسا کہ ‘کونٹیجیئن فلم دیکھنے کے بعد مجھے لگا کہ مجھے کووڈ 19 ہے۔‘
وہ شخص مزید بتاتا ہے کہ ’میں جسمانی طور پر دم گھٹنا اور درد محسوس کر سکتا تھا، اور میرے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ میں مر رہا ہوں۔ اس کے بعد مجھے علامات دور کرنے اور بیماری کو ممکنہ طور پر ٹھیک کرنے کے لیے کوئی چیز دی گئی، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اس سے کوئی افاقہ بھی ہوا تھا۔‘
دیئردرے نے ماضی میں بھی کئی پریشانی یا تشدد کے واقعات کا مطالعہ کیا ہے: 11/9 کے بعد امریکیوں کا، عراقی قبضے کے فوراً بعد کویتیوں کا، اور نازی جنگی قیدیوں کے کیمپوں میں برطانوی فوجیوں کا۔
ان کے تجربے کے مطابق جنگوں کے ساتھ ایک بڑی واضح تصویر جڑی ہوتی ہے جو ہمارے خوابوں میں نظر آتی ہے، لیکن حالیہ عالمی وبا مختلف ہے۔
مخفی دشمن
دیئردرے کہتی ہیں کہ ‘یہ ایک نہ نظر آنے والا دشمن ہے اور اس وائرس کے استعارے زیادہ عام ہیں۔
‘ہمیں بہت سے لوگوں نے بتایا کہ انھیں کیڑوں کے گروہ، سونامیاں، سمندری طوفان، بگولے اور زلزلے نظر آتے ہیں۔‘
چارلی سمجھتے ہیں کہ ان کے سب سے برے خوف خوابوں کی شکل میں ان کے سامنے اس وقت آ جاتے ہیں جب وہ سوتے ہیں۔ جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا تب سے 24 سالہ چارلی کو پراسرار خواب آنا شروع ہو گئے ہیں جن میں بڑے بڑے مکڑے ہوتے ہیں۔
‘ایک خواب میں ایک بڑا مکڑا میرے بستر کے نیچے سے نکل کر اوپر آ گیا۔ وہ بلی جتنا بڑا تھا، رنگ میں پیلا اور ٹہنیوں جیسی ٹانگیں۔ میں اپنے کمرے سے نکل کر بھاگا اور مدد کے لیے چلایا۔
’میری ماں اسے ایک کچرے والے بیگ میں پکڑنے میں کامیاب ہو گئیں اور باہر لے آئیں، میرے جاگنے سے پہلے تک وہ بیگ کے اندر بل کھاتا رہا۔‘
مکڑوں کا سائز اور وضع بدلتی رہتی ہے لیکن چارلی کو خواب ہمیشہ گھر کے اندر کے ہی آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ ہمیشہ میری محفوظ جگہ خصوصاً بستر میں آتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مزید حقیقی لگتے ہیں۔‘
دیئردرے کہتی ہیں کہ ’گھر پر تحفظ والی صورتِ حال کی وجہ سے شاید زیادہ افراد نے اتنی تفصیل سے خواب یاد رکھنے شروع کر دیے ہیں۔ ایک یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ لوگوں نے اب زیادہ گھنٹے سونا شروع کر دیا ہے، کبھی کبھار اٹھانے کے لیے کسی الارم کے بغیر۔
‘کئی افراد جو کام کرنے کے لمبے اوقات کی وجہ سے یا مصروف ترین سماجی زندگی کی وجہ سے کم سو پاتے تھے اب اپنی نیند پوری کر رہے ہیں۔‘
دیئردرے کے سروے میں حصہ لینے والے ایک اور شخص نے اپنے خواب میں ایک پارک کے اندر ایک اجالے دن کو ڈراؤنے خواب میں بدلتے دیکھا۔
‘میں اپنے دوستوں کے ساتھ ایک بینچ پر بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔ اچانک ہم نے ایک آواز سنی اور آسمانوں میں ایک بڑا ریوالور دیکھا، وہ بہت تیزی سے ہمارے اوپر سے گزر رہا تھا۔ وہ جلدی سے اپنی سمت بدل رہا تھا اور لوگوں کو نشانہ بنا کر آگ کے دھماکے پیدا کر رہا تھا اور لوگوں کو مار رہا تھا۔’
خواب ہمارے انتہائی پراسرار دماغ کی پیداوار ہیں اور وہ اب بھی ہمارے متعلق سب سے زیادہ عجیب اور ایسا مظاہرِ قدرت ہے جس کا ہمیں سب سے کم پتہ ہے۔ اس کے باوجود اربوں افراد ہر رات انھیں دیکھتے ہیں۔
لوگی ڈی گینارو نے، جو لاک ڈاؤن کے دوران گھروں کے اندر رہنے والے اطالوی باشندوں کے خوابوں پر تحقیق کر رہی ہیں، خواب کو دوبارہ دیکھنے کی صلاحیت (ڈریم ریکال ریٹ) میں ڈرامائی طور پر اضافے کی شرح دیکھی ہے۔
آر ای ایم سٹیٹ
ان کے مطابق اچھی نیند میں کمی کی وجہ عام پریشانی بھی ہو سکتی ہے۔
اس کی وجہ سے لوگ رات کو زیادہ مرتبہ جاگ سکتے ہیں یا جب وہ اس حالت میں ہوں جسے ‘ریپڈ آئی موومنٹ’ (آر آئی ایم) کہا جاتا ہے۔
آر آئی ایم کی نیند میں آنکھیں متواتر پھڑکتی رہتی ہیں، سانس لینے اور خون کی گردش میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں، اور جسم ایک فالج زدہ حالت میں چلا جاتا ہے جسے ایٹونیا کہتے ہیں۔ یہ جسم میں ایک 90 منٹ کی لہر کے دوران ہوتا ہے اور اس سٹیج پر ہمارے دماغ خواب دیکھنے کی کیفیت میں آ جاتے ہیں۔
اس لیے اگر کوئی آر ای ایم کی حالت میں اٹھ جائے تو اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ وہ اپنے خواب کی تفصیلات یاد رکھیں۔
دیئردرے کہتی ہیں کہ ‘خواب عالمی وبا کا ایک جذباتی ردِ عمل ہیں۔ ہم بھی دیکھ رہے ہیں کہ اس دوران زیادہ تعداد میں لوگ ڈراؤنے خوابوں کے متعلق رپورٹ کر رہے ہیں۔‘
ڈبلن سے تعلق رکھنے والی نیام ڈیورو نے باغیچے میں ایک ہاؤس پارٹی کے دوران ایک برہنہ بھوت کو دیکھا۔
28 سالہ ڈیورو کہتی ہیں کہ ‘ایک خوفناک، برہنہ بھوت ہمارے گرد چکر لگا رہا تھا اور بھیڑیں بھی گھوم رہی تھیں۔’
‘میں بالکل ڈر گئی تھی‘
‘دوسرے لوگ کوئی بھی ردِ عمل نہیں دے رہے تھے لیکن میں دونوں سے ڈر گئی تھی، خصوصاً بھوت سے۔ وہ ایک بوڑھا مرد تھا۔’
ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہمارے روزانہ کے جاگنے کے تجربات کا براہ راست اثر ہمارے خوابوں پر ہو سکتا ہے۔ اور یہ جذباتی طور پر جتنا زیادہ شدید ہو گا اس کے زیادہ امکانات ہیں کہ وہ آپ کے خوابوں میں بھی شامل ہو جائے۔’
اس لیے جو لوگ فرنٹ لائن پر کام کرتے ہیں انھیں ڈراؤنے خواب زیادہ آتے ہیں۔
اٹلی نے حال ہی میں ‘امیونی’ کے نام سے ایک کونٹیکٹ ٹریسنگ ایپ کی منظوری دی ہے تاکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملے۔
کارلوتا نے خبروں میں اس ایپ کی تیاری کے متعلق سنا اور بعد میں یہی چیز ان کے خواب میں بھی آ گئی۔
‘میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جاگتی ہوں اور مجھے اپنے ماتھے پر کچہ عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ میں ٹوائلٹ گئی اور شیشے کے سامنے کھڑی رہی۔ جب میں نے اپنے ماتھے سے بال اٹھائے تو کیا دیکھتی ہو کہ وہاں تین چھوٹے بٹن لگے ہوئے ہیں۔‘
وہ بتاتی ہیں ’ان میں سے دو میں سرخ روشنی تھی اور ایک میں سبز۔ کسی نے مجھے بتایا کہ سبز روشنی ایک جی پی ایس نیویگیشن سسٹم ہے جس سے لوگوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ سرخ بٹن کا کیا فنکشن تھا، لیکن میں نے سبز بٹن دبا دیا اور میں جاگ گئی۔‘
خواب جمع کرنے والا
انھوں نے اپنا خواب آئی ڈریم آف کووڈ نامی ویب سائٹ کو بھیجا۔ اس ویب سائٹ کو کیلیفورنیا میں مقیم ایک خاتون نے لاک ڈاؤن کے دوران بنایا ہے۔
ایرن گریولی کوئی سائنسدان یا تحقیق کار نہیں ہیں۔ ان کو یہ خیال ایک ‘عام خواب’ کے بعد آیا جس میں سارے خواب کے دوران لوگ سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل کر رہے تھے۔
انھوں نے ہمیں ایک ای میل انٹرویو میں بتایا کہ ‘لوگ ایک دوسرے سے چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑے تھے، ہاتھ نہیں ملا رہے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ بحران دوسروں کے خوابوں میں بھی گھسا ہے کہ نہیں۔’
ان کی بہن نے اسے آن لائن کرنے سے پہلے ہر خواب کو ایک شکل دی۔ ایرن امید کرتی ہیں کہ یہ پراجیکٹ عالمی وبا کے بدلنے کے ساتھ خوابوں کے پیٹرن یا نمونوں کو ٹریک کر سکے۔ ‘یہ دیکھنے میں مدد کرے گا کہ اصل میں کس طرح خوابوں کی دنیا کے ساتھ شکل بدلتی ہے۔’
پچاس کے پیٹے کی ایک رہائشی نے حال ہی میں آنے والے خواب کی تفصیل یوں بتائی ‘میں ایک کشتی میں بیٹھی تھی جب ایک سونامی جیسی بڑی لہر میری طرف آ گئی۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور لہر سے نکل گئی۔ اس کے بعد ایک اور آ گئی، اس سے بھی بڑی۔ اس نے مجھے پکڑ لیا اور ساحل کی طرف لے گئی۔ میں نے کم گہرے پانی میں اپنے آگے بہت سے پتھر دیکھے، پھر میں جاگ گئی۔ لیکن یہ حقیقت سے بہت دور نہیں لگتا۔
‘مجھے یہ لگ رہا تھا جیسے پہلی لہر کووڈ 19 کا استعارہ تھی اور دوسری آب و ہوا میں تبدیلی کا، اور مجھے یہ کبھی بھی پتہ نہیں چلے گا کہ اس کا اختتام میرے لیا ٹھیک ہوا کہ نہیں۔’
مثبت خواب
شاید ایسا لگے کہ اس دوران سب کو منفی خواب ہی آ رہے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔
دیئردرے بیریٹ کہتی ہیں کہ ‘یہ شاید حیران کن لگے کہ ایسے لوگوں کا بھی ایک اہم ذیلی سیٹ ہے جنھیں مثبت خواب آتے ہیں۔
‘کچھ لوگ حالیہ آلودگی سے پاک مستقبل دیکھ رہے ہیں یا وائرس کا علاج دریافت کر رہے ہیں۔’
انڈیا کے دارالحکومت نئی دلی کی نیرو ملہوترا ان میں سے ایک ہیں۔
‘جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے میں مہنگے ترین ہوٹل کے کمروں کے متعلق خواب دیکھ رہی ہوں۔ میں نے پرتعیش جگہں صرف ٹیلی ویژن پر ہی دیکھی ہیں۔
’ان کمروں میں بڑی بڑی کھڑکیاں ہیں جن سے سمندر کا منظر نظر آتا ہے اور کبھی کبھار بڑے سبز میدان بھی۔ میرا موڈ خوش اور پرجوش ہے۔ وہاں بہت زیادہ لوگ نہیں ہیں اور عموماً پورے منظر میں کوئی انسان نہیں ہوتا۔’
اگر آپ اسے پڑھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ آپ اپنے خوابوں کو مزید پرسکون کیسے بنا سکتے ہیں تو خوابوں پر تحقیق کرنے والوں کے پاس آپ کے لیے کچھ ہدایات ہیں:
دیئردرے بیریٹ کے مطابق ‘ہم جسے ‘ڈریم انکیوبیشن’ کہتے ہیں، آپ اپنے آپ کو تجویز کر سکتے ہیں کہ آپ کو سونے کے بعد کیا خواب دیکھنا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ‘اپنی پسندیدہ شخصیت، جگہ یا جہاز کے ذریعے جانے کے متعلق سوچیں۔ یا کسی اچھے خواب کو تفصیل سے ری پلے کریں۔ سونے سے پہلے آپ دہرائیں کہ آپ کیا خواب دیکھنا چاہتے ہیں۔
‘جب نیند آپ پر غالب آ رہی ہو گی تو یہ تکنیک آپ کو ایک خوش کن احساس دلائے گی اور کافی زیادہ امکان ہے کہ آپ کا خواب دیکھتا ہوا دماغ آپ کی بات مان جائے۔’