ناروے میں چند روز (قسط 2 )
اوسلو ائیرپورٹ سے باہر قدم رکھتے ہی سرد ہوا کا ایک برفیلا جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ پارہ منفی دس ڈگری کو چھو رہا تھا۔ چند قدم چلنے کے بعد میرے ہاتھ سردی کی شدت سے برفانے لگے تو میں نے دستانے پہن لئے۔ ناروے روانگی سے قبل میں نے انگریڈ سے ہوٹل تک کے راستے سے متعلق رہنمائی حاصل کی تھی۔ اسکے پیغامات میرے موبائل میں محفوظ تھے۔ مجھے ایئرپورٹ بس سروس کے ذریعے ہوٹل تک پہنچنا تھا۔ میں مطلوبہ بس تک پہنچی۔ ایک سردار صاحب ہاتھ میں ٹکٹنگ مشین (ticketing machine) تھامے کھڑے تھے۔ میری باری آئی تو میں نے کاغذ پر درج پتہ انکے سامنے کیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ یہی مطلوبہ بس ہے۔ پھر پوچھنے لگے کیا آپ بھارتی ہیں؟ میں نے یک لفظی جواب دیا اور کہا پاکستانی۔ انہوں نے سوال کیا۔ لاہور؟ میں نے اقرار میں گردن ہلا دی۔ یہ گفتگو انگریزی میں ہو رہی تھی۔ سردار صاحب فورا پنجابی پر اتر آئے۔ کہنے لگے ” فیر تسی پنجابی اچ گل کیوں نئیں کر دے؟ ” (پھر آپ پنجابی میں بات کیوں نہیں کرتیں؟)۔ میں نے بھی ٹوٹی پھوٹی پنجابی میں کہا کہ مجھے پنجابی آتی تو ہے مگر اسقدر روانی میں نہیں۔ انہوں نے ٹکٹ کاٹ کر مجھے تھمایا۔ کہنے لگے آپ کا اسٹاپ آخری ہے۔ کم و بیش ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ آپ بے فکر ہو کر بیٹھ جائیں۔ میں ہی ڈرائیور ہوں۔آپ کو مطلوبہ مقام تک پہنچا دوں گا۔ بے فکر توخیر میں کیا ہوتی۔ ڈرائیونگ سیٹ کے عین پیچھے، پہلی نشست پر جا بیٹھی۔سامنے نصب سکرین پر آنے والے بس ا سٹاپ کا نام لکھا دکھائی دیتا تھا۔ ایک سٹاپ پر پہنچ کر سردار صاحب نے کہا کہ یہاں میری ڈیوٹی تمام ہوئی۔ میری جگہ نیا ڈرائیور آرہا ہے۔ وہ پولینڈ کا شہری ہے اور بھلا آدمی ہے۔ پھر انہوں نے اس پولش ڈرائیور کو تاکید کی کہ یہ ہماری مہمان ہیں۔ انہیں فلاں جگہ اتارنا ہے۔ میں نے اس پر خلوص رویے پر انہیں شکریہ کہا۔ وہ پنجابی میں کہنے لگے کہ آپ میری بیوی کا نمبر لے لیجیے۔ دیار غیر میں سو طرح کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ میں نے گھڑا گھڑایا افسانہ انہیں سنایا کہ اس جگہ میرے کئی جاننے والے برسوں سے آباد ہیں۔ لہذا فکرمندی کی کوئی بات نہیں۔ سردار صاحب نے اطمینان سے سر ہلایا اور بس سے اتر گئے۔
مزید پڑھئیے: ناروے میں چند دن (قسط 1)
پولش ڈرائیور باتونی شخص تھا۔بس میں چڑھتے اترتے ہر مسافر سے مخاطب ہوتا۔ کچھ دیر بعد پوچھنے لگا کہ آپ کس ملک سے ہیں؟ پاکستان کا نام سن کر کہنے لگا اسلام علیکم۔ پھر ٹوٹے پھوٹے لہجے میں کہنے لگا۔ پیاری بہن، آپ کا کیا حال ہے؟۔ میں نے پوچھا کہ یہ اردو کہاں سے سیکھی؟ کہنے لگا سردار صاحب سے۔ پھر مجھے اپنے سیکھے کچھ اردو الفاظ سنانے لگا۔ پیاری بہن۔ پیارے بھائی۔ کیا حال ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ سب مسافر اتر چکے تھے۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ بس بالکل خالی تھی۔ خدا خدا کر کے میرا اسٹاپ آیا۔ انگریڈ سے جو رہنمائی مجھے ملی تھی اسکے مطابق میرا ہوٹل اس ا سٹاپ سے محض چند قدم کی دوری پر تھا۔ میں نے ڈرائیور سے ہوٹل کے راستے سے متعلق مزید رہنمائی لی اور بس سے اتر کر اس سمت چلنے لگی۔آٹھ دس قدم چلنے کے بعد مجھے عقب سے کچھ آوازیں سنائی دیں۔ پیاری بہن۔۔ پیاری بہن۔۔ پلٹ کر دیکھا تو پولش ڈرائیور گلا پھاڑے مجھے پکار رہا تھا۔ اگرچہ یہ پاکستان نہیں، ناروے تھا۔ اس کے باوجود سڑک پر سر عام آوازے کسے جانامجھے انتہائی ناگوار گزرا۔ خون منجمد کر دینے والی سردی میں بھی میرا خون کھولنے لگا۔ اتنے میں ڈرائیوربھاگتا ہوا قریب آیا۔ سانس ہموار کرتے ہوئے کہنے لگا۔ پیاری بہن، آپکے والا تھون ہوٹل مخالف سمت میں ہے۔ (اگلے دن مجھے معلوم ہوا کہ اس جگہ درجن بھر تھون ہوٹل واقع ہیں)۔مجھے توخیر پاکستان میں سیدھے سادھے راستے سمجھانا انتہائی مشکل (بلکہ تقریبا ناممکن) کام ہے۔ یہ تو پھر اوسلو کا راستہ تھا۔ اس عنایت پر میں اس بھلے آدمی کی احسان مند تھی۔ میں نے اردو میں کہا پیارے بھائی۔ آپ کا بہت شکریہ۔
شا م ڈھلنے کو تھی۔ ہوٹل پہنچ کر میں نے پاکستان اپنی خیریت سے متعلق آگاہ کیا۔ اگلی شام کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہو نا تھا۔ انگریڈ کو میں نے اپنی آمد کی اطلاع دی۔ اس نے مجھے اگلے دن بارہ بجے کھانے کی دعوت دے ڈالی۔ اس کا دفتر یہاں سے چند منٹ کی دوری پر تھا۔ اگلی صبح میں وہاں پہنچی تو ترکی، امریکہ، بلغاریہ،مصر اورافریقہ سے آئے چند مہمان پہلے سے موجود تھے۔ ابتدائی تعارف کے بعد انگریڈ ہم سب کو لے کر کیفے ٹیریا میں جا پہنچی۔ وہاں پہنچ کر اس نے اعلان کیا کہ ہم جو بھی کھانا چاہیں اپنی پلیٹ میں بھر لیں۔ وہ ادائیگی کرئے گی۔ اوسلو پہنچتے ہی پاکستان سے پہلی ہدایت مجھے یہ موصول ہوئی تھی کہ کھانے میں حرام حلال کا خیال رکھنا ہے۔ گوشت کے قریب بھی نہیں جانا۔ مشروبات کے استعمال سے قبل اسکے اجزاء لازمی پڑھنے ہیں۔ ان ہدایات کے عین مطابق میں نے گوشت سے بنے تمام کھانوں کو انتہائی دلگرفتگی کیساتھ نظر انداز کیا۔ دیکھ بھال کے پھلوں کے ٹکڑے اور کچھ گھاس پھوس اپنی پلیٹ میں ڈالا۔ اسکے بعد بے دلی سے ایک خالی میز پر جا بیٹھی۔ بل کی ادائیگی کے بعد انگریڈ بھی میری میز پر آن بیٹھی۔ اسکی تقلید میں دو ترک پروفیسر بھی۔
چند کتابوں اور کانفرنسوں پر بات شروع ہوئی۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے عالم فاضل افراد کی علمی اور تعلیمی گفتگو مجھے کم و بیش یکساں معلوم ہوتی ہے۔ گھوم پھر پر وہی تھیوریز، وہی میتھاڈولوجیز۔وہی شہرہ آفاق کتابوں اور مصنفین کے قصے۔ کوئی شے مختلف ہے تو وہ انسان ہیں۔ انکا طرز زندگی۔ انکا انداز فکر۔ انہیں درپیش قومی اور سماجی حالات۔ کتابی گفتگو سے کہیں ذیادہ مجھے مختلف ملکوں اور ان میں بسنے والے انسانوں کے حالات زندگی جاننے میں دلچسپی رہتی ہے۔ دوران گفتگو ایک ترک پروفیسر پاکستان اور ترکی کی دوستی کا تاریخی پس منظر بیان کرنے لگا۔ میں نے کہا کہ پاکستان میں اس دوستی کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پھرمیں نے بتایا کہ پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم (نواز شریف)، نے ترک صدر طیب اردگان کی بیٹی کے نکاح نامے پر بطور گواہ دستخط کر رکھے ہیں۔ جو اس بات کا مظہر ہے کہ دونوں ممالک اور انکے سیاسی رہنماوں کا آپس میں گہرا تعلق قائم ہے۔ انگریڈ دلچسپی سے یہ باتیں سنتی رہی۔
میں نے ترک مصنفہ ایلف شفق کا ذکر کیا۔ جو پاکستان میں بے حد مقبول ہے۔ خاص طور پر اسکا لکھا ناول Forty Rules of Love ۔ جسکا اردو ترجمہ “محبت کے چالیس چراغ ” کے عنوان سے چھپ چکا ہے۔میں نے مزید بتایا کہ ترکی کے ڈرامے پاکستان میں بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔ ترکش ڈرامہ “عسک ممنوع” پاکستان میں “عشق ممنوع ” کے ٹائٹل سے بارہا نشر ہوچکا ہے۔ یہ سن کر ترک پروفیسر کہنے لگا کہ اس ڈرامے نے ترکی میں بھی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر رکھے ہیں۔ یہ دراصل ترکی کی اشرافیہ کے اخلاقی زوال کی داستان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ” عسک ممنوع” کے بعد بہلول اور بیتہر کی جوڑی ایک بار پھر ایک ڈرامے میں اکھٹی ہونے جا رہی ہے۔ ترکی میں ہم اس ڈرامے کے بے چینی سے منتظر ہیں۔
دوران گفتگوجمال خشوگی کے قتل کا قصہ بھی زیر بحث آیا۔ترکی کے میڈیا کی بات چلی۔ وہاں بھی میڈیا اور آزادی اظہار رائے کو اس افتاد کا سامنا ہے جو ہمیں پاکستان میں ہے۔ یہ باتیں سنتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ پچھلے دنوں خبر اڑی تھی کہ پاکستان، ترکی اور ملائشیا ایک مشترکہ ٹیلی ویژن چینل شروع کرنے کا قصد کر بیٹھے ہیں۔ مقصد اس منصوبے کا یہ ہے کہ اسلامو فوبیا کا مقابلہ کیا جائے اور مغرب کو اسلام کا اصل چہرہ دکھایا جائے۔ برسوں بلکہ عشروں قبل، تنظیم تعاون اسلامی (OIC) کے پلیٹ فارم پر ایک تجویز زیر بحث آئی تھی (اور غالبا منظور بھی ہوئی تھی)۔ تجویز ہوا تھا کہ اسلامی ممالک کا مشترکہ میڈیا، مشترکہ بنک اور مشترکہ فوج ہونی چاہیے۔ اس عمدہ تجویز پر لیکن عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ دیگر مسائل کیساتھ ساتھ غالبا مسلمان ممالک کے باہمی اختلافات آڑے آئے ہونگے۔ ترکی، ملائشیا اور پاکستان کے مشترکہ ٹیلی ویژن چینل کا خیال بھی غالبا اسی تجویز سے کشید کیا گیا ہے۔اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کے حوالے سے بھی سنجیدہ سوالات موجود ہیں۔ ترک میڈیا کا احوال سنتے ہوئے میں سوچنے لگی کہ یہ تینوں ممالک (ترکی، ملائشیا، پاکستان) اپنے اپنے قومی میڈیا کو آزاد کرنے پر آمادہ نہیں۔ ان تینوں ممالک میں سچ بولنے والوں کا ناطقہ بند ہے۔ ان تینوں ممالک کی حکومتیں اختلافی آوازیں سننے کا حوصلہ نہیں رکھتیں۔ میرے ذہن میں سوال ابھرا کہ اپنے ملک میں پائے جانے والے اختلافی بیانیے کا گلا گھونٹنے اور قومی میڈیا کی آزادی سلب کرنے کے بعد، ایک بین الاقوامی چینل کے ذریعے دنیا کو اپنے بیانیے پر قائل اور مائل کرنے کا منصوبہ کیونکر کارگر اور موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ (جاری ہے)