Site icon DUNYA PAKISTAN

پاکستان کے سِیورمین: ’کہتے ہیں ہمارے پاس آپ والا گلاس نہیں ہے‘

Share

زمین سے آٹھ فٹ نیچے گھپ اندھیرا، منہ تک آتا انسانی فضلے سے بھرا گندا پانی، چوہے، لال بیگ اور سانپ اور بدبو ایسی جو سانس لینا بھی دوبھر کر دے۔

کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ٹوائلٹ کا فلش کھینچتے ہی پانی کا ریلا جو سب کچھ بہا لے جاتا ہے وہ آخر جاتا کہاں ہے؟

وہ آپ کے گھر کی نالی سے ہوتا ہوا اِس سیور میں آ گرتا ہے جو اگر کبھی بند ہو جائے تو آپ جیسا ہی ایک جیتا جاگتا انسان اندر اُتر کر اسے صاف کرتا ہے۔

آج جب انسان مریخ پر قدم رکھنے کی تیاری کر رہا ہے اور روبوٹکس اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس اُس کی عقل کو چیلنج کر رہے ہیں، اِن سیورمین کو انسانی جسم سے نکلی غلاظت اپنے ہاتھوں سے اٹھاتے دیکھنا کسی المیے سے کم نہیں۔

موت سے لڑائی

43 سالہ شفیق مسیح نے سڑک پر کھڑے کھڑے اپنی سلیقے سے استری کی گئی جینز اور ٹی شرٹ اُتاری اور ایک سفید شلوار پہن لی۔ جوتے، موبائل فون اور بٹوا ساتھ کھڑی اپنی موٹر سائیکل پر رکھا اور گٹر کے دہانے پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئے۔

دو ساتھیوں نے اُن کے ہاتھ پکڑے اور انھیں نیچے اُتار دیا۔ ایک سیورمین نے رسی سے بندھی خالی بالٹی نیچے پھینکی اور شفیق مسیح نے گٹر میں جمع غلاظت کو ہاتھوں سے اُٹھا کر بالٹی میں ڈالنا شروع کر دیا۔ بالٹی بھر گئی تو اوپر کھڑے ساتھیوں نے رسی کھینچی اور بالٹی خالی کر کے ایک بار پھر نیچے پھینک دی۔

سیور کی صفائی کا یہ فرسودہ طریقہ کار کبھی کبھی کئی کئی گھنٹے چلتا ہے۔ شفیق مسیح کا کام مکمل ہوا تو اُوپر کھڑے ساتھیوں نے اُن کے ہاتھ پکڑے اور باہر کھینچ لیا۔ سانس بحال ہوئی تو وہ ایک کپڑے سے جسم پر لگی غلاظت صاف کرنے لگے۔

ان کا کہنا ہے ‘کوئی اپنی خوشی سے یہ کام نہیں کرتا لیکن کیا کریں مجبوری ہے۔ کبھی کبھی انسان کو وہ سب کرنا پڑتا ہے جو وہ نہیں کرنا چاہتا۔ سیورمین خطرات کو گلے لگا کر گٹر میں اترتا ہے۔ ہم روز موت سے لڑ کر روزی کماتے ہیں۔’

زہریلی گیس

لیکن اِن گٹروں میں ایسا کیا ہے جو سیورمینوں کو ہر پل موت سر پر منڈلاتی محسوس ہوتی ہے۔ اِس کا جواب سماجی کارکن اور پنجاب اسمبلی کی سابق رکن میری جیمز گِل دیتی ہیں۔

سیورمین کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟

‘چونکہ سیور میں آرگینک اجزا موجود ہوتے ہیں لہٰذا اُن کے آپس میں ملنے سے ہائیڈروجن سلفائیڈ، امونیا اور کاربن مونوآکسائڈ جیسی خطرناک گیسیں خارج ہوتی ہیں۔ سیورمین گٹر کے اندر اِن گیسوں سے براہ راست تعلق میں آتے ہیں جو جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہ گیسیں جلد اور سانس کی بیماریوں کا باعث بھی بنتی ہیں۔ کچھ سینیٹری ورکرز کی بینائی کمزور ہو جاتی ہے، کچھ کے بال وقت سے پہلے سفید ہو جاتے ہیں اور کچھ ہیپاٹائٹس اے اور بی جیسی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔’

دنیا بھر میں سیوریج سسٹم بلاک ہونے کی سب سے بڑی وجہ اُس میں کچرے کا پھینکا جانا ہے۔ اپنی 19 سالہ ملازمت کے دوران شفیق مسیح نے سیور میں سے ہر طرح کا کچرا نکالا ہے۔

‘لوگ اکثر گھر کا کوڑا کرکٹ، تولیے، خالی بوتلیں اور لوہے کے ٹکڑے نالیوں میں پھینک دیتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہسپتالوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والا فضلہ بھی سیور میں پہنچ جاتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ میں گٹر میں اترا تو کوئی شیشے کا ٹکڑا، سوئی اور بلیڈ ہاتھ یا پاؤں میں لگ گیا اور میں زخمی ہو گیا۔’

سیور کی بھینٹ

صفائی کے کام کے دوران سینیٹری ورکرز کے حادثات اور اموات کے بارے میں درست اعدادوشمار موجود نہیں۔ اگر سماجی تنظیموں کے دعوؤں اور میڈیا میں رپورٹ ہونے والے واقعات کو دیکھا جائے تو ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

ایک جائزے کے مطابق 40 فیصد سینیٹری ورکرز کا کہنا ہے کہ دورانِ ملازمت کم از کم ایک بار وہ سیور میں گیس بھر جانے کے باعث حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔

شفیق مسیح کے بقول سیورمینوں کی اکثریت کے پاس نہ تو حفاظتی سازوسامان ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی گیس میٹر کہ وہ سیور میں اترنے سے پہلے گیس کی مقدار چیک کر سکیں۔

دنیا بھر میں سیوریج سسٹم بلاک ہونے کی سب سے بڑی وجہ اُس میں کچرے کا پھینکا جانا ہے

‘بلدیاتی ادارے کچھ سیورمینوں کو حفاظتی سامان فراہم کرتے ہیں لیکن وہ نامکمل ہوتا ہے جبکہ اکثر کارکنوں کو اُن کا درست استعمال بھی نہیں آتا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمیں حفاظتی سامان کی مکمل کٹ (پی پی ای) دی جائے جس میں ہیلمٹ، سیفٹی بیلٹ، آکسیجن سلنڈر، بوٹ، ماسک اور دستانے شامل ہوں۔ اِس کے علاوہ سیور میں کام کرنے کے لیے مناسب اوزار بھی فراہم کیے جانے چاہییں۔’

انگریز کا تحفہ

جنوبی ایشیا میں سیوریج کا نظام اُس وقت تشکیل پایا جب انگریزوں کے دور میں شہری علاقوں میں ٹوائلٹس کے اندر فلش سسٹم متعارف کرایا گیا۔ لندن میں قائم کیے گئے سیوریج سسٹم کی طرز پر نکاسیِ آب کے لیے پائپ لائنوں کے ساتھ ساتھ سیور یا گٹر اور اُن میں داخل ہونے کے لیے ‘مین ہولز’ بنائے گئے۔

‘مین ہول’ کا سائز اور ساخت اِس قسم کی رکھی گئی کہ سیورمین گٹر کے اندر اُتر کر اُسے ہاتھ سے صاف کر سکیں۔ تقریباً ایک سو سال گزر جانے کے باوجود سیور اور سیورمین کا یہ نظام آج بھی جوں کا توں موجود ہے۔

اب پاکستان کے شہری علاقوں میں نکاسیِ آب بلدیاتی اداروں اور میونسپلٹی کی ذمہ داری ہے جو اِس نظام کی دیکھ بھال کے لیے سیورمین یا کنڈی مین ملازم رکھتے ہیں۔

نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز اور کنٹونمنٹ بورڈز بھی سیوریج کا علیحدہ نظام چلاتے ہیں۔ دیہات میں یہ کام نجی سطح پر کیا جاتا ہے لیکن جہاں کہیں سیوریج کا باقاعدہ نظام موجود نہیں وہاں آج بھی انسانی فضلہ ہاتھ سے اُٹھا کر ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔

‘ہاں میں چوڑا ہوں’

شفیق مسیح کو زندگی میں جو لفظ سب سے زیادہ سننے کو ملا وہ ہے ‘چُوڑا’ لیکن اِس لفظ کا مطلب کیا ہے اور آخر یہ ہیں کون؟ اِس کی بھی ایک تاریخ ہے۔

برِصغیر میں صفائی کا کام ہمیشہ سے ذات پات سے منسلک رہا ہے لیکن اب یہ تفریق مذہبی رنگ اختیار کر چکی ہے۔

تاریخ دانوں کے بقول پاکستان میں رہنے والے اکثر مسیحیوں کے آباؤاجداد دلت ہندو ذات ‘چُوڑا’ سے تعلق رکھتے تھے جنھیں 19ویں صدی کے اواخر میں پادریوں نے مسیحی مذہب کی طرف راغب کیا۔ مذہب کی تبدیلی کے بعد یہ لوگ پنجاب کے سکھ زمینداروں کی زمینوں پر کام کرنے لگے۔

جب برِصغیر کی تقسیم ہوئی اور سکھ پاکستان سے چلے گئے تو انڈیا سے آنے والے مسلمان مہاجرین نے اِنھیں ملازمتوں سے فارغ کر کے خود زمینداری سنبھال لی۔

اِس طرح یہ مسیحی ایک بار پھر صفائی کا کام کرنے پر مجبور ہو گئے۔ آج پاکستان کی سینیٹیشن ورک فورس کا 90 فیصد حصہ اِنھی مسیحیوں کی نسلوں پر مشتمل ہے۔

‘آپ والا گلاس نہیں ہے’

شفیق مسیح کو اپنے کام سے زیادہ دوسروں کے حقارت آمیز رویے سے شکایت ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ لوگ اِس کام اور اسے کرنے والے دونوں سے نفرت کرتے ہیں۔

‘اگر میں کبھی کسی سے ایک گلاس پانی کا کہہ دوں تو جواب ملتا ہے کہ ہمارے گھر میں تو گلاس ہی نہیں ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس آپ والا گلاس نہیں ہے۔ مجھے بڑی ہنسی آتی ہے کہ یہ میرا والا گلاس کون سا ہوتا ہے۔’

شفیق کہتے ہیں کہ وہ تو اہلِ کتاب ہیں اور جہاں تک اُنھیں علم ہے مسلمانوں کو اہلِ کتاب افراد کے ساتھ ایک برتن میں کھانا کھانے کی اجازت ہے۔

‘اگر مجھ سے میرے کام کی وجہ سے نفرت کی جاتی ہے تو یہ بہت افسوس کی بات ہے۔ اگر میں ایک دن یہ کام نہ کروں تو پورا ملک گندگی کا ڈھیر بن جائے۔ میں تو خود غلاظت میں رہ کر آپ کو صاف ماحول فراہم کر رہا ہوں۔’

‘یہ کیا کام شروع کر دیا ہے؟’

صفائی کے کام سے منسلک منفی معاشرتی رویہ سینیٹری ورکرز کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ شفیق مسیح کو اِس کا پہلا تجربہ اپنے گھر سے ہی ہوا۔

‘شروع شروع میں میں نے اپنے گھر والوں کو نہیں بتایا تھا کہ میں کیا کام کرتا ہوں۔ ایک دن اتفاق سے میں اپنا فون گھر بھول آیا اور میرے ایک ساتھی سیورمین کی کال آگئی جو میری بیوی نے اُٹھا لی۔ جب میں گھر پہنچا تو گھر والے مجھ سے بہت ناراض ہوئے کہ آپ نے یہ کیا کام شروع کر دیا ہے۔’

شفیق بتاتے ہیں کہ وہ اُن کی زندگی کا سب سے مشکل وقت تھا۔

‘اُس وقت مجھے دکھ بھی بہت ہوا کہ جن لوگوں کے لیے انسان سب کچھ کرتا ہے وہ ہی ایسا سلوک کرتے ہیں کہ دل پھٹ جاتا ہے۔ لیکن پھر میں نے ہمت کی اور اپنے بیٹے کو بھی بتا دیا تاکہ کل اگر اُسے کہیں اور سے پتا چلے تو وہ شرمندہ نہ ہو۔

’میں نے اُسے کہا کہ آپ کو فخر کرنا چاہیے کہ آپ کا باپ محنت کر کے حق حلال کی روزی کماتا ہے اور کسی سے مانگتا نہیں ہے۔’

‘صرف غیر مسلم درخواست دیں’

سماجی کارکن اور غیر سرکاری تنظیم ‘سویپرز آر سپرہیروز’ کی بانی میری جیمز گِل کے خیال میں معاشرے نے لاشعوری طور پر طے کر لیا ہے کہ صفائی کا کام صرف ایک مخصوص مذہب اور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی کریں گے۔

‘نہ صرف معاشرہ بلکہ ریاست بھی اپنی پالیسیوں کے ذریعے اِس استحصالی نظام کو قائم رکھنا چاہتی ہے۔ آپ کبھی اخبارات میں سرکاری دفاتر کے لیے خاکروبوں اور سینیٹری ورکرز کی آسامیوں کے اشتہارات دیکھیں۔ اِن اشتہارات میں واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ مذکورہ آسامیوں کے لیے صرف غیر مسلم افراد درخواست دیں۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان میں سکھ اور پارسی تو صفائی کا کام نہیں کرتے۔’

شفیق مسیح کو بھی یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ آخر صفائی کا کام صرف مسیحی افراد ہی کیوں کرتے ہیں۔

‘میرے ساتھ کچھ مسلمان سیورمین بھی ہیں۔ وہ بھرتی تو ہو جاتے ہیں لیکن یہ کام نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کو نماز پڑھنی ہوتی ہے لہٰذا گٹر کے اندر نہیں اُتر سکتے کیونکہ اُن کے کپڑے ناپاک ہو جائیں گے۔ تو اِس طرح اُن کو دفتروں میں لگا دیا جاتا ہے۔ کوئی چائے پلانے کی ڈیوٹی کرتا ہے تو کوئی فوٹو کاپی کرنے پر مامور ہوتا ہے، کوئی آفس بوائے بن جاتا ہے۔’

باعزت روزگار کا موقع

شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیوریج نظام کی دیکھ بھال صرف اور صرف ہاتھ سے کام کرنے والے سیورمین کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پائپوں، سیورز اور مین ہولز کی مخصوص پیمائش اور ساخت کے باعث مشینوں کے ذریعے اِن کی صفائی فی الحال ناممکن ہے۔

اِس صورتحال میں میری جیمز گِل جیسے سماجی کارکن سیور میں کام کرنے والے عملے کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

‘یہ بات انتہائی اہم ہے کہ مذہب کی تفریق سے بالاتر صفائی کا کام کرنے والے تمام افراد کو باعزت روزگار کا موقع فراہم کیا جائے۔ سیورمین کی تنخواہیں بڑھائی جائیں اور اِس کام کو ہر ممکن حد تک محفوظ بنایا جائے تاکہ ورکرز کی صحت اور زندگی کی حفاظت کی جا سکے۔’

میری جیمز کے مطابق صفائی کے کام کو کانکنی اور تعمیراتی شعبے کی طرح ایک خطرناک پیشہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قومی اور صوبائی لیبر پالیسیوں میں اِس شعبے سے منسلک ورک فورس کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔

‘کاش بیٹا سیورمین نہ بنے’

شفیق مسیح کو اچھی طرح یاد ہے کہ اُن سے پہلے اُن کے والد اور اُن کے والد سے پہلے اُن کے والد بھی سیورمین ہی تھے۔ اب اُن کی ایک ہی خواہش ہے کہ نسل در نسل چلنے والا یہ سلسلہ یہیں رک جائے اور اُن کے بیٹے کو یہ کام نہ کرنا پڑے۔

‘جب میں اپنے بیٹے سے پوچھتا ہوں کہ وہ بڑا ہو کر کیا بننا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے کیمیکل انجینئر۔ میں نے اُس کو کہا ہے کہ آپ پڑھو۔ میرے بس میں جہاں تک ہوا میں آپ کو پڑھاؤں گا۔ میں اُسے کہتا ہوں کہ آپ کا باپ صرف آپ کی تعلیم کی خاطر گٹر میں اترا ہے۔’

Exit mobile version