کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ مکافاتِ عمل کیا ہے؟ مکافاتِ عمل کا مطلب عمل کا بدلہ، وہ عمل جو ہم کرتے ہیں اور بدلہ جو ہمیں ملتا ہے۔اس دنیا میں انسان جو کچھ کرتا ہے اس کا بدلہ ضرور اسے ملتا ہے۔چاہے وہ اچھا ہو یا برا ہو۔ جس طرح اچھائی کی جزا ملتی ہے اسی طرح برائی کی سزا بھی ملتی ہے۔لیکن آج ہم اپنے نفس کے غلام ہو چکے ہیں اور صرف اپنے مفاد کے لیے ہی ہر کام کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں کچھ بھی کرنے سے پہلے ایک بار مکافاتِ عمل کے بارے میں ضرور سوچ لینا چاہئیے۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ اللہ ہمارے دلوں کے حال کو جانتا ہے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس نے جس طرح اپنا شکنجہ کسا ہے اُس سے ہم اور آپ مایوس ہی نہیں بیزار بھی ہیں۔ہر دن ہم اس وبا سے نجات کی دعا مانگ رہے ہیں تو وہیں اس بات سے بھی خوف زدہ ہیں کہ نہ جانے اب کس کی باری آجائے۔ کورونا وائرس سے برطانیہ میں مرنے والوں کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے۔پچھلے چھ ہفتوں سے ہم گھر میں قید ہیں اور آنے والے دن میں بہتری کی کوئی امید دِکھائی نہیں دے رہی ہے۔ امریکہ میں مرنے والوں کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ پہنچ چکی ہے اور بہت سارے ممالک میں دھیرے دھیرے کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ کیا ہماری زندگی بدل جائے گی اور ہم آنے والے دنوں میں یوں ہی زندگی بسر کریں گے یا اللہ جلد ہمیں اس وبا سے نجات دے گا تا کہ ہم پھر سے واپس اپنی زندگی گزار سکے گیں۔
فی الحال تو بڑے بڑے سائنسی اور طبی ماہرین کے دماغ کام نہیں کر رہے ہیں۔ جب سے کورونا وائرس دنیا میں پھیلا ہے تب سے دنیا کی تمام حکومتوں ایک ہی رٹ لگا ررکھی ہے کہ لوگ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ یعنی مکمل ’لاک ڈان‘۔کئی لوگوں نے تو یہ کہنا بھی شروع کر دیا کہ یہ قیامت کا ظہور ہے اور بہت سارے لوگوں نے اللہ سے اور زیادہ معافی مانگنا شروع کردئیں۔کیونکہ جس طرح سے پوری دنیا لاک ڈان ہوئی ہے اس سے تو یہی اندازہ ہورہا ہے کہ قیامت کے آثار ہیں۔ دھیرے دھیرے انسان روزگار گنواتا جا رہا ہے اور بہت سارے ملکوں میں قحط کا بھی امکان ہے۔ حکومت سوائے لاک ڈان کے اور کوئی انتظام نہیں کر رہی ہے جس سے تیسری دنیا کے ممالک میں حالات بد سے بد تر ہوتا جارہے ہیں۔
ماہِ رمضان کی آمد کے قبل سے ہی طرح طرح کی قیاس آرائیاں لگائی جا رہی تھیں۔ کوئی کہتا تھا کہ تراویح پڑھی جائے گی تو کوئی کہتا تھا ناممکن ہے۔ گویا جتنے لوگ اتنی باتیں تھیں۔ لیکن سچ پوچھے جوں جوں وقت قریب آتا گیا ہمارے صبر کا دامن ہمارے ہاتھ سے سرکتا گیا۔ آخر کار جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا یعنی دنیا بھر میں دو سو کروڑ مسلمان جو روزہ رکھ رہے ہیں انہیں اس بار زبردست صدمہ پہنچ رہا ہے کیونکہ انہیں پہلی بار زندگی میں اجتماعی عبادت اور افطار سے محروم ہیں۔ اس کے علاوہ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں مسلمان زکوۃ کے ذریعہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی امداد پہنچاتا ہے یا چیریٹی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتا ہے اس سے بھی دور ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان روزہ رکھ رہے ہیں اور عبادت بھی کر رہے ہیں لیکن رمضان کی حقیقی لطف سے محروم ہیں۔ مثلاً زیادہ تر ممالک میں رمضان کے خاص بازار نہیں لگے، مساجد میں اجتماعی افطاری کا انتظام نہیں ہوا، سحری کی گھما گھمی نا پید اور دیگر تقریبات جو رمضان کے موقعے پر ہی انعقاد ہوتی ہیں، ان کے نہ ہونے سے ایک عجیب و غریب کیفیت کا احساس ہورہا ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود الحمداللہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں تراویح کی نماز کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس نماز میں امام کے ساتھ کچھ شاہی لوگ اور اسٹاف ہی نماز ادا کر سکیں گیں۔ عام لوگوں کے لیے اب بھی پابندی جاری ہے۔اسلام مذہب کے چودہ سو سالہ تاریخ میں ایسا پہلی بار ہورہا جب رمضان میں عام لوگوں کے لیے نماز معطل کی گئی۔تاہم اس سے قبل کئی بار بیماری، جنگ اور مختلف وجوہات سے حج اور نماز معطل کیا جا چکا ہے۔
کچھ سال قبل لندن کی ایک مسجد میں ایک واقعہ ہوا تھا جسے میں آپ کے ساتھ شئیر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہوا یہ کہ ایک شخص مقامی مسجد روزانہ نماز پڑھنے جاتا تھا۔ وہ حسبِ معمول نماز پڑھتا اور گھر آجاتا۔ لیکن کبھی کبھار کسی کی مدد کے غرض سے وہ مسجد میں رک جاتا۔ مسجد کے لوگ اس کی خاموش خدمتِ خلق سے کافی خوش تھے اور اس کو مانتے بھی تھے۔ لیکن مسجد کی انتظامیہ کو اس شخص پر شک ہوااور وہ اس شخص پر نظر رکھنے لگے۔ ایک دن وہ شخص ایک ضعیف نمازی کی کہانی سننے کے لیے مسجد سے باہر کھڑا باتیں کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں مسجد کے انتظامیہ کا سر پھرا ممبر اس شخص کے قریب آیا اور اس سے وہاں سے چلے جانے کو کہا۔اس شخص نے مسجد کے انتظامیہ کے ممبر سے وجہ جاننی چاہی تو اس کے عوض میں اس سر پھرے ممبر نے بحث کرنا شروع کیا اور اس پر غلط الزام لگا کر اسے ذلیل کیا۔ مسجد انتظامیہ اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر دوسرے دن اُس شخص کے خلاف ایک خط جاری کرادیا جس میں اس شخص پراس کے رویے کے خلاف الزام لگا کر مسجد میں نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی گئی۔ ا س شخص نے کئی لوگوں سے گزارش کی کہ اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ لیکن کوئی بھی اس کی مدد کو آگے نہیں آیا۔ اب آپ اس واقعہ پر نظر ڈالیں اور اس مسجد کے ممبر کی جارحانہ رویے پر، جس سے اس شخص کو نماز پڑھنے پر پابندی عائد کروادی۔ آج اس مسجد میں امام سے لے کر مسجد کا سر پھرا ممبر اور وہ تمام لوگ جو حق اور باطل کو بھول کر اس شخص کے نماز کی پابندی پر اپنا منھ بند رکھا تھا خود اس مسجد میں عبادت کرنے سے محروم ہیں۔ اسے ہی مکافات عمل کہتے ہیں یعنی جیسی کرنی ویسی بھرنی۔اللہ اکبر۔سچ،اللہ عظیم ہے اور اسے ہماری تمام باتوں کا علم ہے۔وہ ہماری دلوں کا حال جانتا ہے۔
لیکن کورونا وائرس کے پھیلنے اور لاک ڈان سے ایک بات تو سچ ہے کہ اچھوں اچھوں کے ہوش ٹھکانے آگئے ہیں۔کیا حکمراں، سائنسی ماہرین، طبی ماہرین اور دنیا کے ایسے لیڈر جن کا کل طوطی بولتا تھا آج وہ کچھ سمجھ نہیں پارہے اور اوٹ پٹانگ باتیں کہہ رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسا بیان دیا جسے سن کر ہمارے ہوش اُڑ گئے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ کورونا وائرس سے متاثر مریضوں کو اگر جراثیم کش محلول اور سورج کی روشنی ملے تو ان کا علاج ہوسکتا ہے۔خدا جانے امریکی صدر کس اسکول سے پڑھے ہیں جو وہ اس طرح کی احمقانہ باتیں کرتے ہیں۔ جراثیم کش محلول کے چھڑکاؤ سے زمینی زطح پر جراثیم کو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن اگر اسے انسان پینے لگے تو مجھے لگتا ہے کہ کرونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد چار گنا ہو جائے گی۔ ایک طرف امریکی صدر جب منھ کھولتے، اللہ خیر کرے دوسری طرف ہندوستانی وزیراعظم سبحان اللہ۔تالی سے تھالی بجوا کر غائب۔ اللہ رحم کر۔انہیں ہندوستان کے مزدور اور غریبوں کی بھوک مری کی کوئی پرواہ نہیں۔ بس ٹیلی ویژن پر آنا پھر ہندوستانی فلم کی طرح ڈائلاگ بولنا پھر غائب ہوجانا۔
آپ کو تو یاد ہی ہوگا جب امریکی صدر نے اپنی زنگ آلود ذہن سے ہندوستان سے ملیریا کی دوا جلد از جلد بھیجنے کو کہا تھا۔اُس وقت سائنسی اور طبی ماہرین نے حیرت جتائی کہ ملیریا سے کورونا کا علاج کیسے ہوسکتا ہے۔خیر مجھے ایسے لوگوں کے لیڈر بننے پر کوئی حیرانی نہیں ہے۔جب پوری دنیا کورونا کی وبا سے دوچار ہیں وہاں ان دو لیڈران کے بیانات سے جہاں کان کھڑے ہوجاتے ہیں وہیں کچھ پل کے لیے ان کی مضحکہ باتوں سے دل بھی بہل جاتا ہے۔
رمضان کے اس مبارک مہینے میں جہاں ہم سب اجتماعی طور پر عبادت نہ کر کے مایوس ہیں تو وہیں اپنے روزے اور نماز کی ادائیگی سے اللہ سے امیدبھی رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم انسانوں نے جس قدر مظلوموں پر ظلم، غریبوں پر تنگی، لوگوں کو گمراہ کرنا، زمینوں کو ہڑپ کرنا، کاروبار میں بدنیتی، جھوٹی شہرت، حق اور باطل پر خاموش، ہر چیز درست، ناجائز کو جائز ماننا، حرام اور حلال میں کوئی فرق نہیں، مکاری اور ایسی کئی باتیں جو ہمارے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے روز ہورہی ہیں اور ہم ایک تماشائی کی طرح ان باتوں سے لاپرواہ بنے ہوئے ہیں تو جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ ہمیں اس عذاب میں ڈال کر ہمارا امتحان لے رہا ہے۔