اگرچہ دنیا جہاں کے سبھی کام میرے رب کی مرضی اور منشا سے بندھے ہوتے ہیں، تاہم حج عمرہ کی بات چلے تو یہ حقیقت عملی طور پر سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اسکا تجربہ ہوا۔ گزشتہ دو برس کے دوران کئی مرتبہ عمرے کی خواہش ہوئی۔ ارادہ بندھا۔ تیاری بھی کی۔ لیکن کوئی نہ کوئی رخنہ آڑے آتا رہا۔ ایک مرتبہ تو گھر والوں کے ہمراہ باقاعدہ بائیو میٹرکس کروایا۔ ویزہ اور دیگر انتظامات کے لئے پاسپورٹس فیصل آباد بھجوائے۔ لیکن کچھ ہی روز بعد تمام پاسپورٹ جوں کے توں واپس آگئے۔ اللہ نے خوب باور کروایا کہ ہمارے ارادے، خواہش اور وسائل سے نہیں، اللہ کے گھر کی حاضری اسکے حکم اور اجازت سے مشروط ہے۔ مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ سال 2020 کا آغاز اسقدر خوشگوار ہو گا کہ اللہ کے گھر اور نبی صلی االلہ وسلم کے در پر حاضری نصیب ہو گی۔ حاضری بھی ایسی جس میں محاوتا نہیں، واقعتا کئی کئی گھنٹے روضہ رسول صلی االلہ وسلم اور حطیم میں بیٹھے رہنا نصیب ہو گا۔
بیٹھے بٹھائے عمرہ کا ارادہ بندھا۔ حج و عمرہ سروسز خدام الحرمین انٹرنیشنل، فیصل آباد کے روح رواں شفیق کاشف صاحب کو آگاہ کیا۔ پاسپورٹ بھجوانے کی نوبت نہیں آئی۔ گھر بیٹھے تمام انتظامات ایک خود کار (automatic) طریقہ کار کے مانند ہوتے چلے گئے۔ تاہم مجھے آخری وقت تک بے یقینی کی کیفیت نے گھیر ے رکھا۔ خیال آتا تھا کہ معلوم نہیں اس مرتبہ بھی یہ سفر سعادت ممکن ہو سکے گا یا نہیں۔ اس سفر کیلئے قومی ائیر لائن کا انتخاب میری بے یقینی میں مزید اضافے کا باعث تھا۔زندگی میں پہلی بار مجھے بذریعہ پی۔آئی۔اے بیرون ملک سفر کیلئے روانہ ہونا تھا۔ اس انتخاب کی وجہ میری ماں تھیں۔ جنکی صحت پروازیں (flights) تبدیل کرنے اور طویل پڑاو (stopover) کی متحمل نہیں تھی۔ایسے میں پی۔آئی۔اے کی براہ راست پرواز (direct flight) کسی نعمت سے کم نہیں۔ جیسے ہی سیٹیں کنفرم ہوئیں۔ قومی ائیر لائن سے متعلق کئی باتیں اور خبریں ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ اس پر مستزاد آئے روز میڈیا پر کوئی نہ کوئی خبر چلی آتی۔ نئے سال کے پہلے دن ہی خبر چلی کہ دبئی سے پاکستان آنے والے پی۔آئی۔اے کے دو طیارے مسافروں کا سامان دبئی ائیر پورٹ پر بھول آئے ہیں۔ کچھ دن بعد یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ سعودی عرب سے واپس آنے والی پی۔آئی۔اے کی فلائیٹ مسافروں کا سامان مدینہ منورہ میں چھوڑ آئی ہے۔ کبھی پروازوں کی انتہائی تاخیر سے روانگی کی خبر آتی اور کبھی کسی حادثے سے بال بال بچنے کی۔ ایسے میں میرے ذہن میں چند ماہ پرانی یہ خبر گردش کرنے لگتی جب مانچسٹر سے واپسی پر ایک خاتون مسافر نے پی۔آئی۔اے کے جہاز کا ہنگامی دروازہ کھول دیا تھا۔ خوف و ہراس کے باعث طیارے میں بھگڈر مچ گئی۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ خاتون اسے ٹائیلٹ کا دروازہ سمجھ بیٹھی تھیں۔
فضائی سفر یوں بھی مجھے موت سے قریب تر معلوم ہوتا ہے۔ میری اب تک کی زندگی میں اندرون ملک اور بیرون ملک کوئی ایک سفر بھی ایسا نہیں گزرا، جب دوران پرواز مجھے موت کا خیال لاحق نہ ہوا ہو۔ ایسے میں قومی ائیرلائن کا انتخاب ” آبیل مجھے مار ” والا معاملہ تھا۔بہرحال روانگی کا دن آن پہنچا۔ حفظ ماتقدم کے طور پر سب گھر والوں نے بیشتر سامان اپنے اپنے دستی بیگ میں ٹھونس رکھا تھا۔تاکہ جہاز میں جمع کروائے گئے سوٹ کیس (جو تقریبا خالی تھے) اگرکھو جائیں، تو دیار غیر میں ہمیں ذیادہ دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ طیارے میں داخل ہوئے تو ہڑبونگ مچی تھی۔ ایک خوش شکل فضائی میزبان خاتون، کسی سخت گیر استانی کی مانند مسافروں سے مخاطب تھی۔۔۔۔ جلدی جلدی آگے چلیں۔ سب کو راستہ دیں۔۔۔ اس افراتفری اور بے ترتیبی کو دیکھتے ہوئے مجھے گمان گزرا گویا میں کسی بس یا ٹرین میں سوار ہوں۔
جہاز میں کسی قسم کی دوران پرواز تفریح (inflight entertainment) دستیاب نہیں تھی۔ فضائی عملے کے رویے جیسی سخت اور کھردری سیٹیں۔ نہایت واجبی سا کھانا۔ چائے کا کوئی تکلف نہ اہتمام۔ پانی بھی جنس نایاب۔ پیاس اور طلب کے باوجود، میں نے پانی کے بجائے صبر کے گھونٹ پینے پر اکتفا کیا۔ طیارے کا پائیلٹ البتہ کوئی ماہر آدمی تھا۔ نہایت عمدگی سے جہاز نے ٹیک آف کیا۔ دوران سفر بھی پرواز ہموار رہی۔
ساتھ بیٹھی میری امی پی۔آئی۔اے کی حالت زار کا تقابلی جائزہ (comparative analysis) پیش کرتی رہیں۔انہیں اپنے گزشتہ عمرے کا سفر اور ائیر لائن کی عمدہ سروس یاد آرہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ برسوں پہلے کئے گئے دیگر ممالک کے سفر، فضائی میزبانوں کی خوش مزاجی اور مختلف ائیرلائنوں میں دستیاب انواع و اقسام کے کھانے۔۔ میں خاموشی سے اپنی ماں کی باتیں سنتی اور سوچتی رہی کہ یہ قومی ائیر لائن کسی زمانے میں ہمارا فخر ہوا کرتی تھی۔ سنتے ہیں کہ سارے ایشیا میں اس کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔ برسوں پہلے دبئی کی ایمریٹس (Emirates) ائیر لائن نے پی۔آئی۔اے کے دو طیارے کرایے (lease) پر لے کر کام کا آغا ز کیا تھا۔ ہماری قومی ائیر لائن کے پائیلٹوں اور انجینئر وں نے ایمریٹس کے عملے کو تربیت فراہم کی تھی۔ آج یہ ایمریٹس کئی سو طیاروں پر مشتمل فلیٹ کی مالک ہے۔ دنیا کی بہترین ہوائی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ بہترین کارکردگی کے کئی ایوارڈ جیت چکی ہے۔ سالانہ اربوں ڈالر کا نفع کماتی ہے۔ جبکہ پی۔آئی۔اے بری سروس اور بدترین کارکردگی کی مثال بن چکی ہے۔ اسکا سالانہ خسارہ اربوں روپے ہے۔ دوران سفر یہ باتیں سوچتے ہوئے مجھے پی۔آئی۔اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ائیر مارشل ارشد ملک کی چند ماہ پرانی پریس کانفرنس یاد آگئی۔ جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ قومی ائیر لائن ہر ماہ تین ارب روپے کا خسارہ برداشت کر تی ہے۔ میں سوچتی رہی کہ کیسے ایک ایک کر کے ہم نے اپنے قابل فخر قومی اداروں کو سفید ہاتھیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ خدا معلوم کب یہ ادارے اپنے پاوں پر کھڑے ہونگے اور قومی خزانے کو ہاتھیوں کے اس غول سے نجات ملے گی۔
یہ باتیں سوچتے سوچتے مجھے نیند نے آ گھیرا۔ آنکھ اس وقت کھلی جب یہ اعلان ہو رہا تھا کہ کچھ ہی دیر میں ہم منزل مقصود پر پہنچنے والے ہیں۔ میں نے کھڑکی کا پردہ (shutter) سرکا کرنیچے جھانکا تو سرزمین حجاز دکھائی دی۔ چند ہی لمحوں میں جہاز مدینہ منورہ کی سرزمین کو چھونے والا تھا۔ یہ سوچ کر مجھ پرعجیب کیفیت طاری ہو گئی کہ میں نبی صلی اللہ وسلم کے شہر میں داخل ہونے کو ہوں۔ وہ شہر جس میں پیارے نبی صلی اللہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری دس برس گزارے تھے۔ وہ شہر جس کے لئے آپ صلی اللہ وسلم نے برکت کی دعا کر رکھی ہے۔ وہ شہرجس کے بارے میں حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے دعا کی تھی کہ یا اللہ مجھے رسول صلی اللہ وسلم کے شہر میں موت عطا فرما۔ اس خوش نصیب شہر میں نبی صلی اللہ وسلم کی قبر اطہر موجود ہے۔ اس شہر میں جنت البقیع واقع ہے۔ یعنی مدینہ منورہ کا وہ قبرستان جہاں ہزاروں صحابہ، صحابیات اور ازواج مطہرات دفن ہیں۔یہ وہ شہر مبارک ہے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے نزدیک ایمان سمٹ کر مدینہ منورہ کی طرف آجائے گا۔ یہ وہ شہر محفوظ ہے جس میں دجال داخل نہیں ہو سکے گا، کیونکہ میرے رب کے حکم پر فرشتے اس کے پہرے پر معمور ہونگے۔
یہی باتیں سوچتے ہوئے میں امیگریشن سیکشن تک آن پہنچی۔ شہزادہ محمد بن سلمان کا سعودی عرب سامنے تھا۔ کم و بیش تمام امیگریشن کاونٹروں پر سعودی خواتین براجمان تھیں۔ نہایت خود اعتمادی کیساتھ مسافروں کے پاسپورٹ کا جائزہ لیتیں اور ان سے سوالات کرتیں۔ شہادت کی انگلی کے اشارے سے قطار میں کھڑے مسافروں کو اپنی باری کا انتظار کرنے کی ہداہت دیتیں۔ چٹکیاں بجا کر ادھر ادھر دیکھتے مسافروں کو اپنی طرف متوجہ کرتیں۔ میرے لئے یہ مناظر نئے بھی تھے اور دلچسپ بھی۔
باری آنے پر میں کاونٹر کی جانب بڑھی اور پاسپورٹ پیش کیا۔ خاتون افسر سے میں نے کہا کہ ہوائی اڈے پر سعودی خواتین کو کام کرتے دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔ وہ جو سنجیدہ چہرہ لیے پاسپورٹ کا جائزہ لینے میں مصروف تھی، ایک لمحے کے لئے رک کر میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگی، جی ہاں۔ خود ہمیں بھی یہ سب بہت اچھا لگ رہا ہے۔ (جاری ہے)
(کرونا وبائی صورتحال سے قبل ادا کیے گئے عمرہ کے سفر سعادت کی روداد)