Site icon DUNYA PAKISTAN

منڈی بہاؤ الدین سے لاہور تک

Share

(گزشتہ سے پیوستہ)

اپنی نوٹ بک سے اکثر مجھے ماسکو اور روس کے دوسرے شہروں میں اپنی نظمیں سنانا پڑتی ہیں ان شہروں میں لوگ میری مادری زبان ’’آوار‘‘ نہیں سمجھتے، چنانچہ میں شروع میں اپنے مخصوص لہجے میں اپنے بارے میں کچھ باتیں بتاتا ہوں اور پھر میرے دوست روسی شعرا، میری نظموں کے ترجمے سناتے ہیں لیکن ترجمہ سننے سے پہلے لوگ عام طور پر مجھ سے فرمائش کرتے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک نظم اپنی زبان میں سنائوں، ہم ’’آوار‘‘ زبان کی موسیقی اور آپ کی نظم کی شارحیت سے واقف ہونا چاہتے ہیں۔ میں فرمائش پوری کرتا ہوں اور یہ ایسا ہی ہے جیسا گانا شروع کرنے سے پہلے کوئی گلوکار ساز کے تاروں کو بےمقصد انداز میں چھیڑتا ہے۔

میری صورت ایسی تو نہیں، نہ میں نے رسول حمزہ توف کی طرح شاعری کی ہے اور نہ ان کی مانند حکمت و نظر کا معیار رکھتا ہوں لیکن میں زکریا بھٹہ سے وہ باتیں ضرور کروں گا جو رسول حمزہ توف نے آگے چل کر دوسرے موضوعات کو سونپ دیں اور کتاب اس بات پر ختم کر دی کہ میں نے ابھی کتاب تو لکھنی ہے۔ میں زکریا بھٹہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ میرے منڈی بہائو الدین کا سفر ایسا سفر نہیں کہ میں کسی جگہ اپنے مسودے بکھیر سکتا نہیں ایسا ضرور ہے کہ میں آپ کو منڈی کے مقامات بار بار یاد دلا کر یہ ثابت کرنے سے باز نہیں رہوں گا۔ میرا ’’وطن‘‘ منڈی، میرا پرائمری اسکول، میرا سینما، میرا کمیٹی چوک، میرا گڑھا باغ، میرا چھوٹا بازار، میرا صدر بازار، میرا اسٹیشن، میرا ہائی اسکول، میرا اسٹیشن، اسٹیشن پر رکھا ہوا بنچ، میرے شہر میں سے جاتی ہوئی ریلوے لائن، میری عید گاہ، میرے وطن منڈی سے گزرتی ہوئی نہر، میرا دوسرا ہائی اسکول اور اسی طرح میرے ’’وطن‘‘ منڈی کی سرد و گرم فضائوں کے مکالمے میں تو محمد زکریا بھٹہ کو طرح طرح سے سنا کر اس کو خوشگوار اور مدھر بھری فضائوں میں لے جائوں گا۔

بھلے مجھے اپنے وطن منڈی گئے ہوئے آدھی صدی سے اوپر ہو چکا مگر میں زکریا بھٹہ کو اس خوشبوئوں کی سحر انگیزی سے آشنا کر کے رہوں گا اور جب تک میری زندگی ہے میں زکریا بھٹہ کو اس پر ضد لگائے رہوں گا کہ بالکل صحیح ہے، دنیا میں بہت سے پرائمری اور ہائی اسکول ہوں گے، نہریں بھی ہوں گی، چھوٹے اور بڑے بازار بھی ہوں گے، ریلوے اسٹیشن بھی ہوں گے، وہاں سے ریل سیٹی بجاتی ہوئی گزرتی بھی ہوگی لیکن جو لطف و سرود میرے وطن منڈی بہائو الدین کے باغوں میں آپ کو محسوس ہوگا وہ کہاں سے آئے گا اور جس سرور انگیز گھڑیوں سے گزرو گے وہ میرے وطن منڈی بہائو الدین کے علاوہ آپ کو کہاں دستیاب ہوں گی۔

ابھی میں نے اپنے ’’وطن‘‘ منڈی بہائو الدین کی داستان کتابی شکل میں مرتب نہیں کی، ابھی تو میں اس کے اسلوب کا فیصلہ کر رہا ہوں، کیا اسے کنٹھا پہنائوں، کیا اسے چوڑیاں پہنائوں، کیا اس کو مہندی لگائوں، کیا اسے سرخ سوٹ پہنائوں، کیا اس کے بال کسی اور ہی انوکھے انداز میں سنواروں، کیا اس کی باتوں کی خوشبو کو کسی شیشی میں بند کر کے محفوظ کر لوں؟ کیا اس کتاب کے اسلوب تحریر کو اس بات پر ختم کر دوں کہ ابھی تو میں نے کتاب لکھی ہی نہیں، ابھی تو میں نے اپنے وطن ’’منڈی‘‘ پر لکھی جانے والی کتاب کے اسلوب تحریر کا فیصلہ کرنا ہے مگر زکریا بھٹہ، ایک بات طے ہے میں اپنے وطن ’’منڈی بہائو الدین‘‘ کو دلہن کی طرح پہلے سجائوں، بنائوں، نکھاروں، سنواروں اور حسن کے شراروں سے بھر دوں، میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا، اس لئے ابھی تو آپ انتظار کریں، یہ کتاب آپ سے کون اسلوب ’’ہم کلام‘‘ ہوگی، نہ آپ مولانا ابو الکلام کے ’’حبیب مکرم‘‘ ہیں نہ میں مولانا ابوالکلام، مگر ان کا ایک عاشق زار پیروکار اور پروانہ، چنانچہ میرے وطن منڈی کی یہ کتاب زکریا صاحب! آپ کو کبھی بھول نہیں پائے گی۔

Exit mobile version