Site icon DUNYA PAKISTAN

مذہب بمقابلہ سائنس

Share

کورونا کیا آیا، لبرل اور مذہبی لکھاریوں کی چاندی ہو گئی۔
صفحۂ قرطاس پر ایک معرکہ برپا رہا۔ ایک ڈیڑھ ماہ پہلے میدان سجا دیا گیا تھا اور دو مفروضہ افواج آمنے سامنے تھیں۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے تھے۔ میدان کارزار میں گھمسان کا رن پڑا تھا۔ کئی دن وہ گرد اڑی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دیا۔ اب غبار تھما ہے تو فاتح افواج اپنی جیت کا اعلان کرتی نمودارہوئی ہیں۔ ایک سمت گلی بازار میں اعلان ہو رہا ہے کہ سائنس نے معرکہ مار لیا۔ دوسرے کونے سے خبر آئی ہے کہ سائنس کو منہ کی کھانی پڑی‘ میدان بالآخر مذہب کے ہاتھ رہا۔
سائنس اُنگشت بدنداں ہے کہ اسے اس میدان میں کس نے اتارا؟ مذہب پریشان ہے کہ میں نے کب اعلانِ جنگ کیا؟ یہ شاید علم کی تاریخ میں برپا ہونے والا پہلا معرکہ تھا کہ فاتح کو اُس کی خبر ہوئی نہ مفتوح کو۔ ایک ایسی شادی پہ جشنِ طرب برپا ہے جس میں کوئی دولہا ہے نہ دلہن۔ چشمِ فلک نے دیوانگی کے بہت سے مظاہر دیکھے ہوں گے مگر ایسا مظہر شاید ہی دیکھا ہو۔
کاش کوئی لبرل دوستوں سے پوچھے: اہلِ مذہب نے یہ کب کہا ہے کہ سائنس دانوں کو کام سے روک دیا جائے اور تجربہ گاہوں کو تالا لگا دیا جائے‘ اب صرف دعا ہو گی اور سب اپنے ہاتھ دعا کے لیے رہن رکھوا دو۔ ایسا کوئی اعلان میری نظر سے تو نہیں گزرا۔ اہلِ مذہب اس کوشش میں تو رہے کہ عبادت گاہیں کھلی رہیں لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ اہلِ سائنس کو روک دیا جائے کہ خبردار کوئی ویکسین نہ تیار کرنے پائے؟ ہماری اسلامی نظریاتی کونسل تو قراردار منظور کرتی ہے کہ وہ سائنس دان اور اہلِ تحقیق انسانیت کے محسن ہیں جو ابنِ آدم کو اس وبا سے نجات دلانے کے لیے اپنا سکھ چین قربان کر رہے ہیں۔
کاش میں لبرل دوستوں کی خدمت میں عرض کر سکتا کہ ہم سولہویں صدی کے مسیحی معاشرے میں نہیں کھڑے جب اہلِ کلیسا کا فرمایا، فرمانِ خدا ہوتا تھا اور کسی گلیلیو کی مجال نہ تھی کہ زمین کو حرکت دے سکے۔ یہ اکیسویں صدی کا مسلمان معاشرہ ہے جہاں کسی کویہ حیثیت حاصل نہیں کہ وہ زمین پرخدا کا نمائندہ بن کر کھڑا ہو جائے اورلوگ اس کی بات کو دلیل کے بغیر قبول کرنے کے پابندہوں۔ دین چودہ سو سال پہلے مکمل ہو چکا۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس میں ایک شوشے کا اضافہ کرے یا کمی۔
آج اگر زمین گھومتی ہے تو روئے زمین پر نہ کوئی ادارہ ایسا ہے اور نہ بشر، جس کا فرمان اس کی گردش کو روک سکے۔ یہاں وہ تجربہ گاہیں کھلی ہیں جو شب و روز رحمِ مادر کی خبر دیتی ہیں۔ یہاں بتایا جاتا کہ بارش کب ہو گی؟ اہلِ مذہب نے ان کے لیے تو عرصہ حیات کو تنگ کیا جو ان کی تعبیرِ مذہب کو چیلنج کرتے ہیں لیکن کسی سائنس دان کو ان کی وجہ سے ملک نہیں چھوڑنا پڑا۔ ستر سال میں بہت سے معرکے برپا رہے لیکن اہلِ مذہب اور اہلِ سائنس میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ شاید عالمِ اسلام میں کہیں نہیں ہوئی۔ یہ بیچارے تو ہر نئی تحقیق کو نہ صرف شرفِ قبولیت بخشتے ہیں بلکہ آگے بڑھ کر یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں تو یہ پہلے سے لکھا ہوا تھا۔
یہ بات یہاں کے سائنس دان کو بھی معلوم ہے۔ اس لیے میں نے کسی سائنس دان کو اہلِ مذہب سے الجھتے نہیں دیکھا۔ فواد چوہدری کا البتہ استثنا ہے۔ وہ ہماری تاریخ کے پہلے سائنس دان ہیں جو آئے دن مفتی صاحب کو للکارتے ہیں۔ اب وہ اپنے ہم پیشہ پوپلزئی صاحب سے لڑیں یا فواد چوہدری سے؟ لیکن ان کی ہمت کی داد دینی چاہیے کہ کانٹوں کی اس سیج کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں،ہر زخم سہنے کے لیے تیار ہیں۔ گویا چاندکی رویت پر اگر کوئی معرکہ مان بھی لیا جائے تو مظلوم اہلِ مذہب ہی ہیں۔
دوسری طرف اہلِ مذہب سے بھی پوچھنا چاہیے کہ سائنس نے آپ کے کس مقدمے کو للکارا ہے؟ کیا سائنس نے آپ کو دعا کرنے سے منع کیا ہے؟ کسی ایک سائنس دان کا نام بتائیں جس نے کہا ہو کہ خبردار کوئی دعا نہ کرے۔ جو سائنس کو جانتا ہے، یہ اس کا مسئلہ ہی نہیں کہ کوئی غیب سے مدد کرتا ہے یا نہیں۔ اس کاکام کائنات کے مظاہر کو دیکھنا اور اس میں کارفرما رازوں کو جاننا ہے۔
وہ تو یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ جب کورونا جیسے وائرس پھیلتے ہیں تویہ عالمِ اسباب میں کس تبدیلی کا نتیجہ ہوتے ہیں اوروہ کون سے مادی اسباب ہیں جوہمیں اس سے بچا سکتے ہیں؟ اس نے اپنے لیے ایک میدانِ عمل کا انتخاب کر رکھا ہے اور وہ یہ کائنات ہے۔ وہ اس سے ادھر ادھر نہیں ہوتا۔ وہ خدا کو مانتا ہو، تو بھی اس کا وظیفہ یہی ہے، نہ مانے تو بھی یہی۔ ابن سینا مسلمان ہو کر بھی سائنس دان رہتا ہے اور نیوٹن مسیحیت پر ایمان لا کر بھی۔ یہ تو ہمارے محترم پرویز ہود بھائی ہیں جو دونوں کو لڑانے پر تلے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ طبیعات سے زیادہ، فلسفۂ طبیعات پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو ان کا مداح ہونے کے باوجود میں یہ نہیں جان سکا کہ اُن کا اصل میدان کیا ہے؟ پھر میں ان کا مداح کیوں ہوں، اس کی وجہ اخلاقی ہے،سائنسی نہیں۔ تفصیل پھر کبھی۔
اگر مذہب اور سائنس ایک دوسرے سے نبرد آزما نہیں تو پھر یہ معرکہ کیوں برپا ہے؟ پھر فتح اور شکست کے یہ اعلان کیوں؟ میرا خیال ہے یہ لوگوں کے دلوں کا چور ہے جو سامنے آ گیا ہے۔ بعض لبرل اس موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کسی طور مذہب کو انسانی زندگی سے دیس نکالا دے دیں۔ کورونا آیا تو انہیں یہ موقع مل گیا اور انہوں نے سائنس کا خود ساختہ وکیل بن کر ایک فرضی میدانِ کارزار آباد کر دیا۔
اہلِ مذہب کے ایک طبقے کویہ خوف ہے کہ انہوں نے مذہب کے نام پر خود ساختہ تعبیرات کی جو خوش نما عمارت کھڑی کر رکھی ہے،اگر دلیل اور عقل کو حاکم مان لیا گیاتو وہ زمین بوس ہوجائے گی۔ لوگ کشف و کرامت اور پیش گوئیوں کے دائرے سے نکل جائیں گے جسے خوش عقیدگی کی زمین پر کھینچاگیا ہے۔ وہ بھی اپنے توہمات کو مذہب قرار دے کر اس کا مقدمہ لڑنے میدان میں اتر آئے۔ اب مذہب ایک طرف کھڑا سوچ رہاہے کہ میں کب انہیں اپنا وکیل مقرر کیا تھا؟
واقعہ یہ ہے کہ مذہب اور سائنس میں کوئی لڑائی نہیں۔ دونوں کی دنیا الگ ہے۔ مذہب ایک تعبیرِ حیات ہے۔ اگر کوئی اس کا مدِ مقابل ہو سکتا ہے تو وہ کوئی تعبیر حیات ہی ہو سکتی ہے جو زندگی کو متبادل اساسات فراہم کرنے کا دعویٰ کرے۔ مذہب کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ انسان اور اس کائنات کا کوئی خالق ہے جس نے یہ زندگی عبث نہیں بنائی۔ موت زندگی کا خاتمہ نہیں، ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ اس کے بعد زندگی ایک نیا روپ دھارنے والی ہے۔ انسان کو اس کی تیاری کرنی ہے۔
مذہب کے اس مقدمے میں کوئی بات ایسی نہیں جو سائنس کا موضوع ہو۔ اس کا ہدف یہ کائنات ہے۔ وہ اس میں جاری قوانین کو دریافت کر رہی ہے اور اس کا اطلاق کرتے ہوئے، کہیں زندگی کے مسائل کو حل کررہی ہے اورکہیں اس میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ مسائل میں کمی یا اضافہ،سائنس کا مسئلہ نہیں۔ یہ انسان کا مسئلہ ہے جو کسی نظامِ اخلاق کا پابنداور اس کے زیرِ اثر سائنسی دریافتوں کے اطلا ق کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ بتانا سائنس کا کام ہے کہ ایٹم کے اندر کتنی توانائی پوشیدہ ہے۔ اب اس سے ایٹم بم بنانا ہے یا بجلی پیدا کرنی ہے، اس کا فیصلہ انسان اپنے اخلاقی تصورات کے تحت کرے گا۔
گویاسائنس نہ تو کوئی نظامِ اخلاق ہے اور نہ کوئی تعبیرِحیات۔ اس کے برخلاف مذہب ایک نظامِ اخلاق بھی ہے اورتعبیرِ حیات بھی۔ اس لیے دونوں کی آپس میں کوئی لڑائی نہیں۔ صفحۂ قرطاس پر برپا معرکہ ایک فرضی جنگ کے سوا کچھ نہیں۔ اس میدان میں ،میں بھی اپنے گھوڑے دوڑارہا ہوں اور دوسرے بھی۔ آخر جینے کے لیے کوئی مصروفیت تو چاہیے!

Exit mobile version