کتوں سے میرا تعلق پہلے بھی تھا، اب بھی ہے، مگر بچپن میں پطرس بخاری کا مضمون کتے پڑھنے کے بعد سے یہ مخلوق میرا محبوب موضوع بن کر رہ گئی ہے بلکہ اب تو میں سوچتا ہوں کہ اللہ جانے وہ کون سے لوگ ہیں جنہیں کتے اچھے نہیں لگتے، مجھے تو یہ مخلوق ایک عرصے سے ’’ہانٹ‘‘ کرنے لگی ہے۔
کسی زمانے میں رات گئے گھر لوٹتے ہوئے جب گلیاں اور کوچے ویران ہوتے، سب لوگ اپنے گھروں میں سو رہے ہوتے اور ہر طرف سناٹوں کا راج ہوتا اور یوں ماحول کے زیر اثر موٹر سائیکل پر سوار ہونے کے باوجود آنکھوں میں نیند تیرنے لگتی ہے تو اچانک کسی دکان کے پھٹے کے نیچے سے کوئی مریل سا کتا برآمد ہوتا اور عف عف کرتا ہوا موٹر سائیکل کے ساتھ ساتھ بھاگنے لگتا۔
وہ دراصل اظہارِ عقیدت کے لئے میری قدم بوسی کی سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا چنانچہ وہ اپنا منہ بار بار ٹخنے کی طرف لاتا لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے خود میرے اپنے دل میں کتوں کے لئے محبت کے اتھاہ جذبات موجود رہے ہیں لہٰذا ان لمحوں میں موٹر سائیکل کی رفتار ذرا تیز کر دیتا تھا تاکہ میری قدم بوسی کے شوق میں کہیں اس کا منہ موٹر سائیکل کے گرم گرم سائلنسر سے نہ چھو جائے لیکن کئی کتے وفورِ عقیدت میں گرم سائلنسر کی بھی پروا نہ کرتے اور ٹخنوں کے بالکل قریب پہنچ جاتے۔
میں ان لمحوں میں خوفِ خدا کے باعث اپنی ٹانگ اوپر اٹھا لیا کرتا تھا۔ میں ایک گنہگار شخص ہوں کتوں کے اس اظہارِ عقیدت سے مجھے خاصی ندامت ہوتی جو پسینے کی صورت باقاعدہ میری پیشانی پر دیکھی جا سکتی تھی، اللہ جانے میری پیرزادگی کی بابت کس بدبخت نے انہیں بتایا تھا کیونکہ میں نے تو اسی بنا پر ایک عرصے سے اپنے نام کے ساتھ ’’پیرزادہ‘‘ لکھنا چھوڑ رکھا ہے۔
بہرحال کتے مجھے اس لئے اچھے لگتے ہیں کہ یہ ہم سوئے ہوئوں کو بیدار کرتے ہیں۔ سونے میں کوئی قباحت نہیں مگر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے سونے میں کچھ قباحتیں ہیں جن میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ انسان کو دوبارہ بیدار ہونے کا موقع بہت کم ملتا ہے۔
ویسے کتوں سے محبت کا دعویدار اب میں اکیلا نہیں بلکہ پورا مغرب ان کا عاشق ہے۔ مغرب میں تو بسا اوقات انسانوں پر کتوں کو ترجیح دی جاتی ہے تاہم مشرق میں ایسا نہیں کیونکہ یہاں تو ہم جیسے انسانوں کو بھی کتوں پر فوقیت حاصل ہے۔ مغرب میں کتے وی آئی پیز کی طرح ٹریٹ ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اقتدار کے بعد وی آئی پیز کو کتوں کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے۔
اہلِ مغرب کو تو کتوں کے ساتھ اس درجہ رغبت ہے کہ اگر شوہر اور کتے میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کا موقع آجائے تو بیوی کتے کو ترجیح دیتی ہے جبکہ ہمارے ہاں اس قسم کی صورتحال میں شوہر کو غنیمت سمجھا جاتا ہے۔
خیر ان سطور میں مغرب اور مشرق میں موازنہ مقصود نہیں کیونکہ وہ جو کہا جاتا ہے کہ مغرب مغرب ہے اور مشرق مشرق، یہ نہ کبھی ملے ہیں اور نہ کبھی ملیں گے تو اس کی بنیادی وجہ کتوں کے سلسلے میں ان علاقوں کے باسیوں کی متضاد پالیسی ہے۔ چنانچہ مجھے اگر کتے پسند ہیں تو یہ میرا انفرادی مسئلہ ہے اس پسند کی ایک وجہ تو میں شروع میں بتا چکا ہوں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ کتے سوشل بہت ہوتے ہیں، ان میں وسیع القلبی بھی بہت ہوتی ہے، ان میں نہ تو کوئی محبوب ہوتا ہے اور نہ کوئی رقیب، بس سارے کتے ہوتے ہیں۔ کتوں کی ایک چیز مجھے بہت پسند ہے، وہ ان میں خوشامد اور چاپلوسی کا جوہر ہے۔ جس کتے کو ہڈی ڈال دیں وہ دُم ہلانے لگتا ہے، پائوں چاٹنے لگتا ہے اور جتنا چاہے ذلیل کریں وہ ذلیل نہیں ہوتا۔
کتے مجھے اس لئے بھی پسند ہیں کہ ان میں علاقائی تعصب بہت ہوتا ہے، وہ کسی اجنبی کو برداشت نہیں کرتے، اسے اپنے علاقے میں دیکھ کر بھونکنا شروع کر دیتے ہیں اور مجھے ان کا یہ علاقائی تعصب ہی پسند ہے کیونکہ ہم انسان ہوتے ہوئے بھی پٹھان، بلوچی، سندھی اور پنجابی ضرور ہیں مگر سب سے پہلے پاکستانی ہیں۔
کتے ان چکروں میں نہیں پڑتے وہ کسی بھی علاقے کے اجنبی کتے کو دیکھ کر سیدھا اس کی ٹانگوں کو پڑتے ہیں۔ کتوں میں کچھ ایسی چیزیں اور بھی ہیں مگر انہیں بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ کالم ان کی نظروں سے نہیں گزرے گا۔
یوں بھی کتوں کے اس قصیدے سے لوگوں کے وہ مخاصمانہ جذبات ختم نہیں ہو سکتے جو وہ کتوں کے لئے اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔
ایک دوست جن کے گھر میں رحمت کا فرشتہ ایک عرصے سے داخل نہیں ہوا، ان دنوں اپنے کتے کو گھر سے نکالنے کی سوچ رہے ہیں کیونکہ انہوں نے سنا ہے کہ جس گھر میں کتا ہو وہاں رحمت کا فرشتہ داخل نہیں ہوتا۔
میں نے اپنے دوست کے فیصلے پر صاد کیا اور کہا ’’تم نے ٹھیک فیصلہ کیا ہے، کتے کو واقعی گھر سے نکال دینا چاہئے کہ گھر میں ایک نجس چیز کا وجود مناسب نہیں لیکن اگر اس کے باوجود تمہارے گھر میں برکتوں کا نزول نہ ہو تو تجرباتی طور پر تین چار ماہ کے لئے تم خود مری وغیرہ چلے جانا۔
اس سے تمہاری صحت بھی بہتر ہو جائے گی اور شاید اللہ تعالیٰ تمہارے گھر پر رحمتوں کا نزول بھی کرے‘‘۔ اور ہاں کتے اگرچہ مجھے بہت پسند ہیں مگر کتیا بالکل اچھی نہیں لگتی، کیونکہ وہ ’’سوشل‘‘ بہت ہوتی ہے، اس کے ساتھ اس کے مہمانوں کی دیکھ بھال کون کرتا پھرے۔