کورونا نے پوری دنیا تبدیل کردی ہے لیکن یہ اقتدار کے کھیل پر ذرہ برابر بھی اثر نہ ڈال سکا۔ آج بھی اقتدار کے اصول بدلے ہیں نہ اسکے حصول کے لیے کی جانے والی سازشیں تھمی ہیں۔
آج بھی اقتدار کے کھیل میں مگن متحارب گروپوں کی ملاقاتیں بااعتماد ساتھیوں کے ڈرائنگ رومز یا بند دروازوں کے پیچھے ایسے ہی منعقد ہوتی ہیں جیسے معمول کے دنوں میں ہوا کرتی تھیں۔ ماسکس، سینی ٹائزرز کا استعمال اور معانقوں، مصحافوں میں احتیاط البتہ اضافی چیزیں ہیں۔ جڑواں شہروں کے ڈرائنگ رومز دو طرح کے ہیں۔
اول ایسے جو حکومتی وزرا اور اہم سرکاری و کاروباری شخصیات سے بھرے رہتے ہیں۔ دوئم ایسے جہاں صرف اپوزیشن رہنما ہی جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ اسلام آباد کا ایک آدھ ایسا ڈرائنگ روم بھی ہے جہاں اپوزیشن ہی نہیں حکومتی دل جلے رہنما بھی آکر اپنے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔
کسی زمانے میں یہی ڈرائنگ رومز حکومتیں گرانے میں سازشوں کے مراکز ہوا کرتے تھے مگر اب صورتحال بدل گئی ہے۔ ہر طرح کے شرکا میں ایک بنیادی بات سمجھی جا چکی ہے اور وہ یہ کہ فی الحال یہ حکومت کہیں نہیں جا رہی اور عمران خان کے اقتدار کو ختم کرنا فی الحال ناممکن ہو چکا ہے۔
مغربی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو تین قوتیں اللہ، آرمی اور امریکہ چلاتی ہیں۔ اس موضوع پر بہت سی کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو فی الحال یہ تینوں قوتیں عمران خان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔
امریکہ بہادر کو ہی لے لیجیے۔ افغانستان میں جاری امن عمل کے لیے امریکہ خوشی خوشی ہماری اسٹیبلشمنٹ کے قریب آیا اور اپنی خوشی میں بہت سے معاملات پر آنکھیں بھی بند کر لیں۔
اسٹیبلشمنٹ نے بھی افغان امن عمل میں پوری ایمانداری سے اپنا کردار ادا کیا نتیجتاً آج اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن ہار بھی جائیں تو امریکی اسٹیبلشمنٹ اپنے دور رس مفادات کے لیے پاکستان کے ساتھ پالیسی فوری طور پر تبدیل کرتی نظر نہیں آرہی۔
امریکہ سے تعلقات کی اس گہرائی اور قربت کا سہرا ظاہر ہے جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں ہماری فوج کو جاتا ہے اور فوج کی قیادت اس وقت عمران خان کی سربراہی میں موجودہ حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔
دراصل جو تین شخصیات ملک کا نظم و نسق چلا رہی ہیں وہ خود کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم سمجھتی ہیں۔ تینوں نے مستقبل کے منظر نامے پر بھی اپنے نقوش مرتب کرنے کیلئے اپنے اپنے پروگرام بنا رکھے ہیں۔ تاحال کوئی پروگرام بھی ایک دوسرے سے متصادم نہیں اور حکومت اور فوج میں جتنی قربت آج ہے، اسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
اس معاملے میں قدرت بھی عمران خان کی مدد کرتی نظر آتی ہے۔ اسکی سب سے بڑی دلیل خود کورونا بحران ہے۔ یاد کیجیے اس بحران سے پہلے موجودہ حکومت ملکی معیشت کو کسی سمت ڈالنے میں ناکام ہو چکی تھی۔ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں سے کڑی شرائط پر مزید مقروض ہو چکا تھا۔ ناکامی حکومت کا منہ چڑا رہی تھی مگر اچانک کورونا آگیا۔
دنیا کے لیے کورونا ایک بحران ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے لیے یہ بحران موجودہ حکومت کے لیے قدرت کے انعام سے کم نہیں۔ اس بحران نے عالمی سطح پر معیشتوں کو ناکام کردیا اور اتنی بڑی ناکامی میں موجودہ حکومت کی ناکامی کو ایک فطری جواز مل گیا۔ اُلٹا توقع ہے کہ آئندہ سال ہماری معیشت کچھ مثبت حالات بھی پیدا کر سکتی ہے اور دنیا بھر سے آنے والی اربوں ڈالرز کی امداد اس کے علاوہ ہے۔
سیاسی حکومتوں میں معیشت کا سب سے بڑا پیمانہ عام آدمی ہوتا ہے مگر عام آدمی کورونا بحران کے باعث حکومت کی طرف سے کیے جانے والے کڑے سے کڑے فیصلوں کو خدائی عذاب سے تعبیر کررہا ہے نا کہ حکومتی نااہلی سے۔
عمران خان حکومت کے وقت سے پہلےجانے کی ایک دلیل تاریخی حوالے سے دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ آج تک کوئی وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں چل پایا۔ محمد خان جونیجو اور میر ظفر اللہ جمالی کے حوالے دے کر بتایا جاتا ہے کہ کمزور ترین وزراء اعظم کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکا تو قومی اسمبلی میں چند سیٹوں کی اکثریت سے حکومت بنانے والے عمران خان کو کیسے برداشت کیا جائیگا؟ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس بار ہم تاریخ کو بدلتا دیکھیں گے۔
نوے کی دہائی تک وزراء اعظم کے ساتھ ان کی سیاسی جماعتوں کی حکومتیں بھی تبدیل کردی جاتی تھیں مگر رواں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں ایک تبدیلی دیکھی گئی کہ صرف ناپسندیدہ قرار دیے گئے وزراء اعظم ہی بدلے گئے تاہم ان کی جماعتوں کی حکومتیں قائم رکھی گئیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اس بار ایک قدم اور آگے چلنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ عمران خان اپنے پانچ سال پورے کریں گے۔ عمران خان ہی رہیں گے۔ طاقت کے تمام مراکز ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر عمران خان کو آج کوئی خطرہ ہے تو وہ اپنے آپ سے ہے۔