آپ کے پاس 20 روپے کا نوٹ ہو گا؟
گبھرائیں نہیں۔ ہم آپ سے اُدھار نہیں مانگ رہے۔ صرف اِس نوٹ کی اصل قدر و قیمت کا احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شاید آپ کے نزدیک 20 روپے کے اِس نوٹ کی کوئی خاص وقعت نہ ہو لیکن پاکستان میں ایک جگہ ایسی ضرور ہے جہاں بیس روپے کا یہ معمولی نوٹ 20 ہزار کی مالیت کا لگنے لگتا ہے۔
اُس جگہ کا نام موئن جو دڑو ہے۔
لیکن وہاں جاتے وقت یہ نوٹ ساتھ رکھنا کیوں ضروری ہے، جاننے کے لیے آپ کو یہ مضمون آخر تک پڑھنا پڑے گا۔
اُس زمانے کا امریکا
ہم میں سے کون ہے جو امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک جانے کے خواب نہیں دیکھتا۔ بس یوں سمجھ لیں موئن جو دڑو ڈھائی ہزار قبل مسیح کا امریکا تھا۔
اِن کھنڈرات کی گلیوں اور بازاروں میں چلتے ہوئے تصور کریں آپ ساڑھے چار ہزار برس پیچھے چلے گئے ہیں۔ یہ آپ کے سامنے موئن جو دڑو کا عالی شان شہر ہے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں۔ ہر طرف کئی منزلہ پختہ اور مضبوط مکانات ہیں۔ اُدھر دیکھیں۔ آپ کو کشادہ سڑکیں اور بازار بھی نظرآئیں گے۔
شہر کی حفاظت کے لیے اُونچی فصیل بھی تعمیر کی گئی ہے جہاں سے اشنان گھاٹ اور اناج ذخیرہ کرنے کا گودام بھی نظر آئے گا۔ ایک بڑی درسگاہ اور عام سرائے کے نشانات تو آج بھی موجود ہے۔
غرض یہاں کے کھنڈرات میں آپ کو اُن تمام سہولیات کے نشان ملیں گے جو اُس زمانے کا انسان تصّور کر سکتا تھا۔
کارنر پلاٹ کی تمنا
موئن جو دڑو آ کر کچھ کچھ وہی احساس ہوتا ہے جو آپ کو کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی کسی پوش سوسائٹی جا کر ہوتا ہے۔ پہلے تو انسان یہاں کے طرزِ تعمیر کے معیار کا متعرف ہو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ خوشی احساسِ محرومی میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ کاش یہاں ایک کارنر پلاٹ ہمارا بھی ہوتا۔
مذاق ایک طرف لیکن موئن جو دڑو واقعی جدید ٹاؤن پلاننگ کا نمونہ ہے۔ سارا شہر ایک بڑی گلی سے نکلتا ہے اور دیگر تمام گلیاں ایک دوسرے کو نوے درجے کے زاویے پر کاٹتی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ بندی کے تحت بسائے گئے شہر کی پہچان ہے۔ دوسری طرف ٹیرھی میڑھی گولائی میں بنی گلیاں خودرو گاؤں کی نشانی ہیں۔
آج بھی اِن گلیوں میں چلیں تو ایک ترتیب اور پلاننگ کا احساس ہوتا ہے۔ قطار اندر قطار پکی اینٹوں سے بنے گھروں میں بیت الخلا اور کنویں کے ذریعے صاف پانی کی سہولت موجود تھی۔ مکانوں سے گندے پانی کی نکاسی کے لیے بنی زیرِ زمین نالیاں آج سینکڑوں سال بعد بھی جوں کی توں موجود ہیں۔
امیر الگ، غریب الگ
اتنی ترقی یافتہ تہذیب میں بھی امیر اور غریب کا فرق موجود تھا۔ مالدار اور حکومتی و مذہبی اثرورسوخ والے افراد مرکزِ شہر جبکہ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ شہر سے باہر رہتے تھے۔
یہاں کے پوش علاقے کے ہر گھر میں کم از کم ایک غسل خانہ ضرور ملے گا۔ امیروں کے گھروں میں صحن بھی لازمی تھا جبکہ صحن کے اطراف میں چھوٹے بڑے کمرے بنے ہوتے تھے۔ اِن گھروں کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا نظام بھی تھا۔ گھروں کی بیرونی دیوار میں موجود سوراخ کے ذریعے کوڑا کرکٹ باہر پھینکا جاتا تھا جو صفائی کا عملہ لے جاتا تھا۔
ٹوائلٹ جو فلش ہوتا تھا
کیا آپ یقین کریں گے کہ موئن جو دڑو میں دریافت ہونے والے بیت الخلا میں فلش سسٹم بھی موجود تھا؟ بعض گھروں میں کمروں کے اندر اینٹوں سے کھڈی بنی ہوئی ہے جس میں موجود سوراخ دار برتن خمدار راستے سے زمین دوز نالی سے ملحق ہے۔ یہ اُس زمانے کا فلش سسٹم تھا۔
موئن جو دڑو کی جدید تہذیب کا ایک نمونہ یہاں کے میوزیم میں بھی ملتا ہے۔ نمائش پر رکھے نوادرات دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں کے لوگ ڈھائی ہزار قبل مسیح میں بھی کانسی جیسی دھات کا استعمال جانتے تھے اور اُس سے اوزار اور دیگر اشیا تیار کر کے برآمد کیا کرتے تھے۔
موئن جو دڑو کے کسان کپاس کاشت کیا کرتے تھے اور یہاں کے کاریگر کپڑا بُننے کا فن بھی جانتے تھے۔ کھنڈرات کی کھدائی سے کپڑے کا کوئی ٹکڑا تو نہیں ملا لیکن مٹی کے اوپر بنے کپڑے کی بُنائی والے نقوش سے اِس بات کا ثبوت ملتا ہے۔
شہر کیسے ملا؟
یہ سنہ 1922 کی بات ہے کہ ہندوستانی ماہرِ آثارِ قدیمہ راکھال داس بینر جی کو لاڑکانہ شہر کے قریب سے قدیم تہذیب کے کچھ آثار ملے جس کی اطلاع آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو دی گئی۔ ڈائریکٹر جنرل جان مارشل نے اِس جگہ کھدائی شروع کرائی جو اگلی کئی دہائیوں تک چلتی رہی۔ آخری مرتبہ سنہ 2010 میں یہاں کھدائی کا کام کیا گیا۔
تاریخ نے وادیِ سندھ کی تہذیب کی دریافت کا سہرا سر جان مارشل کے سر رکھا۔ صوبہ سندھ کے محکمہ آثارِ قدیمہ نے اُن کے اِس کارنامے کا احسان اِس طرح اُتارا کہ سر جان مارشل کے زیرِ استعمال موٹر کار موئن جو دڑو کے مقام پر محفوظ کر دی۔ آپ وہاں جائیں تو شیشے کے بکس میں بند یہ گاڑی دیکھنا نہ بھولیں۔
’مُردوں کا ٹیلہ‘
ہم سب بچپن سے درسی کُتب میں پڑھتے آئے ہیں کہ موئن جو دڑو سندھی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’مُردوں کا ٹیلہ‘ ہے۔ لیکن یہ نام کب اور کیسے پڑا اور اِس جگہ کا اصل نام کیا تھا یہ کسی کو نہیں پتا۔ دریافت سے قبل مقامی لوگ اِس جگہ کو عرصہ دراز تک اِسی نام سے پکارتے آئے تھے لہذا جب ماہرینِ آثارِ قدیمہ یہاں آئے تو وہ بھی یہی نام استعمال کرنے لگے۔
موئن جو دڑو مصر اور میسوپوٹیمیا کی تہذیب کا ہم عصر تھا۔ میسوپوٹیمیا سے ملی تحریروں میں مشرق میں ’ملوہا‘ نامی ایک جگہ کا ذکر ملتا ہے جس کے ساتھ تجارتی روابط قائم تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ موئن جو دڑو ہی دراصل وہ جگہ ہے لیکن وثوق سے کچھ کہنا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک موئن جو دڑو کے رسم الخط کو نہ سمجھ لیا جائے۔
لفظ جو باتیں نہیں کرتے
وادیِ مہران کے بہت سے سربستہ رازوں میں سے سب سے دلچسپ راز یہاں کا رسم الخط ہے۔ اِسے پڑھنے کی کوششیں دنیا بھر کے ماہرین نے کی ہیں لیکن اب تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا خیال ہے کہ جب بھی اِس رسم الخط کا بھید کھلا، وادیِ سندھ کی تہذیب کے بارے میں نئی معلومات کا ایک وسیع خزانہ ہاتھ لگے گا۔
موئن جو دڑو سے ملنے والی 1200 سے زائد مہریں بھی ایک سربستہ راز ہیں۔ اِن پر لکھی تحریر کے بارے میں تو کوئی کچھ نہیں جانتا لیکن اکثر مہروں پر جانوروں کی اور دیو مالائی شکلیں بنی ہیں۔ جاننے والے بتاتے ہیں کہ یہ تمام دستخطی مہروں کی حیثیت رکھتی ہیں یعنی اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ اُنھیں سرکاری کاموں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ کچھ مہریں تجارتی سامان کی حفاظت کے لیے گٹھریوں یا بوریوں پر ثبت کی جاتی تھیں۔
راہب اور رقاصہ
موئن جو دڑو کے کھنڈرات سے نکلے نوادرات یہاں کے میوزیم کی زینت ہیں۔ اِن میں صابن پتھر سے تراشا گیا پُجاری اور کانسی سے بنا رقاصہ کا مجسمہ دنیا بھر میں وادیِ سندھ کی تہذیب کی پہچان ہے۔
داڑھی والے پُجاری کے مجسمے نے چادر اوڑھ رکھی ہے جس پر تین پتیوں والا پھول بنا ہے جو اجرک کے ڈیزائن سے مشابہ ہے۔ موئن جو دڑو کی رقاصہ نے پورے بازو میں چوڑیاں پہن رکھی ہیں جو آج بھی چولستان اور تھر کی خواتین کا رواج ہے۔ یہ ایک کم سن فنکارہ ہے جو برہنہ ہے، لیکن یہ وثوق سے کہنا مشکل ہے کہ وہ رقص ہی کر رہی ہے۔
راہب کا مجسمہ تو آپ نے پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے عجائب گھر میں دیکھا ہوگا یا کم از کم زمانہِ طالب علمی میں نصابی کُتب میں اُس کی تصویر دیکھی ہو گی۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اِس مجسمے کی اصل کراچی کے نیشنل میوزیم کی خفیہ تجوری میں محفوظ ہے۔ یہاں تک کہ موئن جو دڑو کے عجائب گھر میں بھی اِس مجسمے کی پلاسٹر آف پیرس میں بنی نقل دیکھنے کو ملے گی۔
راہب اور رقاصہ کے مجسموں کا بھی دلچسپ قصہ ہے۔ وادیِ سندھ کی تہذیب کے نمائندہ یہ نوادرات سنہ 1946 میں ایک نمائش کے لیے غیر منقسم ہندوستان کے نیشنل میوزم آف انڈیا دہلی بھیجے گئے۔ برصغیر کا بٹوارا ہوا تو یہ مجسمے اُدھر ہی رہ گئے۔
پھر 50 کی دہائی میں پاکستانی حکومت نے اِن کی واپسی کا تقاضہ کیا تو انڈین حکومت نے دونوں میں سے ایک منتخب کرنے کو کہا۔ پاکستان نے رقاصہ پر راہب کو ترجیح دی اور یوں یہ مشہور مجسمہ پاکستانی حکومت کی تحویل میں آیا۔ رہی بات رقاصہ کی تو وہ اب بھی دلّی کے قومی عجائب گھر میں موجود ہے جس پر پاکستان ملکیت کا دعوی کرتا ہے۔
عروج کا زوال
کوئی نہیں جانتا کہ اِتنی ترقی یافتہ اور پھلتی پھولتی تہذیب کو زوال کیسے آیا۔ موئن جو دڑو کا شہر سات مرتبہ اُجڑ کر دوبارہ بسا۔ کچھ لوگ اِس کی وجہ دریائے سندھ کا سیلاب بتاتے ہیں جبکہ کچھ بیرونی حملہ آوروں کو موردِ الزام ٹھراتے ہیں۔ لیکن یہ سب مانتے ہیں کہ ڈھائی ہزار قبل مسیح میں بسنے والا یہ شہر پندرہ سو قبل مسیح میں صفحہ ہستی سے مٹ چکا تھا۔
کوئی ایک ہزار سال یوں گذرے اور پھر بدھ مت کے پیروکار یہاں آ گئے۔ تباہ شدہ شہر کے ملبے کی اینٹیں جمع کیں اور اپنے لیے رہائشی علاقے اور عبادت کے لیے سٹوپا تعمیر کر لیا۔ آج یہی سٹوپا موئن جو دڑو کی تصویری علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔
موئن جو دڑو کا اکثر حصہ اب بھی زیرِ زمین ہے۔ جو آثار آپ آج دیکھ رہے ہیں وہ اصل شہر کا صرف دس فیصد ہیں۔ آس پاس کے علاقے میں سیم اور تھور کی وجہ سی نئی کھدائی ممکن نہیں اور مدفون آثار کی حفاظت اِسی طرح ممکن ہے کہ وہ زیرِ زمین رہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں جا بجا دیواروں پر مٹی کا لیپ لگا نظر آتا ہے۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ اِس طرح قدیم اینٹیں زمین میں موجود نمک سے محفوظ رہتی ہیں۔ لیکن جب یہ مٹی جھڑتی تو اپنے ساتھ اینٹ کا ایک حصہ بھی لے جاتی ہے جو مزید نقصان کا باعث بنتا ہے۔ گذشتہ ایک صدی کے دوران کچھ پرانی اینٹوں کو نئی اینٹوں سے بھی تبدیل کر دیا گیا ہے جو دیکھنے میں بدنما لگتا ہے۔
وقت جو تھم سا گیا ہے
اگر آپ موئن جو دڑو کے آس پاس دیہات میں نکل جائیں تو شاید آپ کو زندگی کچھ زیادہ مختلف نہ لگے۔ یہاں آ کر لگتا ہے جیسے وقت تھم سا گیا ہے اور شاید ہم اب بھی موئن جو دڑو کے زمانے میں جی رہے ہیں۔
یہاں آج بھی ٹھوس پہیوں والی بیل گاڑیوں کا رواج ہے جیسا 4500 سال پہلے تھا۔ کچی مٹی سے بنے گھروں میں جھانکیں تو آج بھی مرد اور عورتیں ہاتھ سے مٹی کے برتن اور کھلونے تیار کر رہے ہیں۔ منافع خور دکان دار یہ اشیا اونے پونے داموں خرید کر یہاں آئے سیاحوں کو مہنگی قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں۔ مٹی کی بیل گاڑیاں، مورتیاں اور مُہریں سیاح یادگار کے طور پر ساتھ لے جاتے ہیں۔
موئن جو دڑو اور بالی وڈ
موئن جو دڑو پر دستاویزی فلمیں تو بے شمار بنی ہیں لیکن اِس تاریخی ورثے نے بالی وڈ کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔ فلم ’لگان‘ بنانے والے نامور انڈین ہدایت کار آشوتوش گواریکر نے سنہ 2016 میں موئن جو دڑو کے زمانے کو اکیسویں صدی کے فلم بینوں کے لیے فلمایا۔ لیکن جہاں یہ فلم باکس آفس پر کچھ زیادہ کامیاب ثابت نہ ہو سکی وہیں عوام اور صوبہ سندھ کے محکمہِ ثقافت نے بھی اِسے حقیقت سے دور قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا۔
’مُردوں‘ سے ملنے کیسے جائیں؟
موئن جو دڑو جانے کے کئی راستے ہیں۔ اگر آپ کراچی سے بذریعہ ٹرین لاڑکانہ جانا چاہتے ہیں تو سفر کوئی نو گھنٹے کا ہو گا اور لاڑکانہ سے بائی روڈ مزید 20 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔
موئن جو دڑو گاڑی میں بھی جایا جا سکتا ہے جس کا سفر کم و بیش چھ گھنٹے کا ہے۔ اِس کے علاوہ پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر سے بذریعہ ہوائی جہاز سکھر پہنچا جا سکتا ہے اور سکھر سے موئن جو دڑو تقریباً 100 کلومیٹر کا فاصلہ گاڑی یا بس میں طے کیا جا سکتا ہے۔
ایک زمانے میں موئن جو دڑو ایئرپورٹ فعال تھا جہاں سے پی آئی اے کی مستقل فلائٹس چلا کرتی تھیں لیکن اب یہ سلسلہ منقطع کر دیا گیا ہے اور سر جان مارشل کی کوششوں سے قائم ہونے والا ایئرپورٹ ویران پڑا ہے۔
’بیس‘ روپے کا نوٹ جو ’دو سو‘ کا پڑا
اگر آپ نے موئن جو دڑو جانے کا ارادہ کر ہی لیا ہے تو یاد رکھیں کہ جہاز یا بس کے ٹکٹ کے ساتھ ساتھ بیس روپے کا نوٹ بھی ساتھ رکھیں۔
ذرا جیب سے بٹوا نکال کر نوٹ کی پشت پر تو نظر ڈالیں۔ یہاں آپ کو موئن جو دڑو کے کھنڈرات کا نقش نظر آئے گا۔
جب سیر کرتے کرتے آپ حمام کے قریب پہنچیں تو بائیں ہاتھ مُڑ کر سٹوپا کی طرف رخ کر لیں۔ بیس روپے کے نوٹ پر بنا منظر حقیقت میں آپ کے سامنے آ جائے گا۔
بس تو انتظار کس بات کا۔ جھٹ موبائل فون نکالیں اور اِس نوٹ اور موئن جو دڑو کے کھنڈرات کے ساتھ ایک سیلفی لے لیں۔
ہاں اگر بدقسمتی سے ہماری طرح آپ کے بٹوے میں بھی بیس کا نوٹ موجود نہ ہو تو تیار ہو جائیں۔ اِس جنسِ نایاب کی اصل قدروقیمت کا اندازہ اُس وقت ہو گا جب نوٹ کے بدلے مقامی گارڈز آپ سے کئی گنا ’ٹِپ‘ وصول کریں گے۔
لیکن اگر چند سو روپے کے عوض زندگی بھر کے لیے ایک یادگار تصویر ہاتھ آ جائے تو سودا کچھ زیادہ مہنگا نہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں؟