پہلے ایسا کم ہوتا تھا لیکن اب تو مسلسل ہو رہا ہے۔ اب تو جب بھی کوئی کتاب چھپتی ہے تو دو آوازیں دل کے صحرا میں گونجنے لگتی ہیں۔ سب سے پہلے تو میاں محمد بخش کا یہ شعر ان کی گہری اداسی کی یاد دلا دیتا ہے:
اول تے کسے شوق نہ ذرہ کون قصہ اج سندا
جے سنسی تے اتلا قصہ رمزاں کوئی نہ پندا
(اب پہلے تو کسی کو قصہ سننے کا شوق ہی نہیں ہے، اور اگر کوئی سن بھی لیتا ہے تو وہ اس کو سطحی اندازمیں لیتا ہے، وہ اس کے اسرار و رموز اور استعاروں میں لپٹی سوچ پر غور ہی نہیں کرتا)۔
ایک دوسری آواز بھی آتی ہے جو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے اور وہ یہ کہ کیا تم اس طرح لکھ لکھ کر زبان کو زندہ رکھ سکتے ہو؟ پہلے تو اس کے بارے میں یقینِ کامل تھا مگر اب تاریخ یاد آنے لگتی ہے کہ اگر صرف لکھنے سے ہی کوئی زبان زندہ رہ سکتی تو سنسکرت معدوم نہ ہوتی۔ پانچویں قبل مسیح میں پانینی یہی سوچ کر سنسکرت کی گرائمر لکھ رہا تھا کہ یہ زبان ہمیشہ قائم رہے گی۔ خیر چلئے سنسکرت کے مدفون ہونے کے بارے میں تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ کبھی زندہ ہی نہیں تھی (عوام میں بولی نہیں جاتی تھی) لیکن فارسی تو سات سو برسوں تک برصغیر کے حکومتی انتظام و انصرام کی زبان رہی، اس نے ہزاروں شاعر اور قصہ گو پیدا کئے اور تاریخ سے لے کر تصوف کے رموز اسی زبان میں لکھے جاتے رہے لیکن اب نئی نسلوں کے لئے یہ قصہ پارینہ بھی نہیں ہے۔
جب انگریزوں نے پنجاب میں اردو نافذ کی تو ملتان کے گورے کمشنر نے حکومت سے استدعا کی تھی کہ انہیں ایک سال کی مہلت دی جائے کیونکہ یہاں تو لوہار اور ترکھان بھی فارسی بولتے ہیں۔ مرزا غالب تک کو یقین تھا کہ ان کا اصل کلام تو فارسی زبان میں ہے اور اردو تو محض تفننِ طبع کے لئے لکھی جا رہی ہے۔ آج غالب کی فارسی غزلوں میں صرف ایک (میرے شوق دا نہیں اعتبار تینوں) لوگوں تک پہنچی ہے اور وہ بھی صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے پنجابی ترجمے کی وجہ سے جسے غلام علی خان نے گا دیا۔
اب تو سچ پوچھئے تو اردو اور پنجابی کی بقا اور ترویج کے لئے ترتیب دی گئیں مجلسیں اور کانفرنسیں سوگواروں کا ماتم کدہ لگتی ہیں جن میں نوحہ خوانی و مرثیہ خوانی کا مقابلہ منعقد ہو رہا ہو۔ زبانیں نہ تو دانشوروں کے لکھنے سے پیدا ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کی کوششوں سے قائم و دائم رہ سکتی ہیں۔ زبانوں کے الفاظ عام لوگوں کے معاملات کو چلانے کے لئے پیدا ہوتے ہیں اور جب ان کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو وہ متروک ہو جاتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے۔ ساٹھ کی دہائی تک کھیتی باڑی بیلوں اور لکڑی کے ہلوں سے ہو رہی تھی اور اس سارے عمل کے ہر چھوٹے سے چھوٹے حصے کے لئے مخصوص اصطلاحیں اور الفاظ تھے جو ٹریکڑ کے آنے کے بعد ہوا میں گم ہو چکے ہیں۔ اب نئی نسل میں کس کو کیا پتا کہ ’جولا‘، ’جوتر‘ اور ’جوترا‘ کیا ہوتا ہے۔ اور پتا ہو بھی کیوں کہ اب کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انگریزی زبان کے تسلط میں انگریزوں کی استعماریت نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے لیکن اب تو انگریزی ان علاقوں میں بھی گھس گئی ہے جہاں ان کا تسلط بھی نہیں تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں صنعتی انقلاب کے آغاز سے لے کر اب تک نئی ٹیکنالوجی انگریزی بولنے والے ممالک میں ہی پیدا ہوتی رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم تک برطانیہ نئی پیداواری تکنیک کی سربراہی کرتا تھا اور اس کے بعد یہی کام امریکہ کے حصے میں آگیا ہے۔ پچھلے چالیس برسوں میں متعارف ہونے والی کمپیوٹر سے سیل فون تک کی ساری ٹیکنالوجی امریکہ میں پیدا ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انگریزی پڑھنے کا موجودہ عالمی رجحان انگریز کے تسلط کے زمانے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اور اگر صرف سیاسی تسلط کے ذریعے ہی زبانوں کی ترویج ہو سکتی تو برصغیر میں فارسی کو سب سے زیادہ موقع میسر ہوا لیکن وہ چند سو برسوں میں طاقِ نسیاں ہو گئی ہے۔ اور اگر اگلی صدی میں چین ٹیکنالوجی کی سربراہی لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر لندن اور نیویارک میں چینی پڑھنے کے ادارے ہی قائم ہوں گے۔
پاکستان میں اردو سے لے کر دوسری قومی زبانوں تک اس لئے تنزل کا شکار ہیں کہ ان میں نئے علوم اور نئی ضرورتوں کے لئے زبانوں کی استعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔ چین، جاپان اور کوریا کی زبانیں اس لئے مضبوطی سے کھڑی ہیں کیونکہ ان میں جدید علوم کے اظہار کی سکت پیدا کی گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری زبانوں میں کوئی پیدائشی نقص ہے کیونکہ آپ سب جانتے ہیں ان پڑھ مستری مادری زبان میں ہی بڑی سے بڑی اور پیچیدہ مشینوں کی جانکاری حاصل کرتے تھے (ہیں) اور اپنے شاگردوں کو سکھاتے ہیں۔ اگر بالکل ان پڑھ انجن کے چلنے کے عمل کو اپنی زبان میں سمجھ اور سمجھا سکتے ہیں تو پڑھے لکھے لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلقہ علوم کو اپنی زبانوں میں کیوں نہیں لکھ کر پڑھا سکتے؟ جب جب یہ کوششیں ہوئیں بھی تو علماء نے فارسی اور عربی کی ڈکشنریوں سے ایسے ایسے تراجم کئے کہ ان کا جاننا انگریزی سے بھی زیادہ مشکل ہو گیا۔ اگر سائنس اور ٹیکنالوجی میں اپنے کاریگروں اور ہنرمندوں کی تخلیق کی ہوئی زبان استعمال کی جاتی تو معاملہ مختلف ہوتا لیکن وہاں تو طبقاتی مسئلہ ہے کہ ہمیں مختلف زبان بول کر اپنی برتری قائم رکھنا ہے۔ اور اب تو شاید وقت نکل گیا اور ہم غلط راستے پر بہت آگے جا چکے ہیں۔ اب تو کانفرنسیں کیجئے اور زبان کے نوحے پڑھیے۔ اب تو بس یہی سوچ کر لکھ لیتے ہیں کہ ’’ہواؤں پہ لکھ دو ہواؤں کے نام۔ ہم انجان پردیسیوں کے سلام‘‘