عرفان خان کمرشل ہندی سنیما میں کسی اجوبے کی طرح تھے۔ بالی وڈ کی دنیا میں وہ ‘مسفٹ’ تھے۔ ایک شاندار مسفٹ۔ وہ اس لیے کہ عرفان بالی وڈ میں کسی اور ہنر کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف ٹیلنٹ کے زمرے میں ‘ٹک مارک’ کی طرح تھے۔ وہ صرف ٹیلنٹ کے دم پر اتنی بلندیوں پر پہنچے تھے۔
ٹیلنٹ کے علاوہ عرفان خان کے پاس جو کچھ بھی تھا بالی وڈ جیسی جگہ میں ان کے حق میں نہیں جاتا تھا۔ پھر چاہے ان کا چہرہ ہو یا ان کے تاثرات یا پھر ان کا ایک عام انسان کی طرح رہن سہن۔ ان میں کسی بھی طرح کا دکھاوا نہیں تھا اور ان کی یہی بات ان کو سب سے جدا بناتی تھی۔ وہ بے حد ٹیلنینڈ تھے بس یہی ان کی سب سے بڑی وجہ بنی بالی وڈ اور اس سے باہر مقبولیت حاصل کرنے کی۔
سچ کہیں تو عرفان خان عالمی سنیما کے لیےبنے تھے اور یہی ہوا بھی۔
اپنے کیرئیر کے آخر میں ان کی فلموں کو دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی۔ ان کی فلمیں آسکر تک پہنچیں۔ وہاں تک گئیں جہاں پر ہالی وڈ کے ویس اینڈرسن، ڈینی بوئل، اور جون فورو کو بھی فخر ہوتا ہے۔
کیا عرفان خان کی انڈین فلمیں ان کی ہالی وڈ کی فلموں سے کم تھیں؟ نہیں، وہ زیادہ بہتر تھیں اس لیے ہمیں وہ فلمیں بے حد عزیز ہیں۔ عرفان خان نے اس طرح کی بلندیاں کیسی حاصل کیں؟ بالی وڈ سے ہالی وڈ میں نام کمانے کے چیلنج پر فتح کیسے پائی؟ اس کا جواب بہت سادہ اور بہت پرانا ہے۔ اپنے جیسا بن کر رہ کر؟ یعنی جو تھے بس وہی بن کر رہے اور کامیابی کی راہ پر چلتے رہے۔
یہ کام ہر ایک کے بس کا نہیں ہوتا ہے اس لیے کہ بات سادہ ہے لیکن بے حد مشکل بھی۔ عرفان خان ایک ایسے ادارکا تھے جس کو بالی وڈ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
بہت سے اداکار جہاں ایک ‘سٹار’ کی طرح دکھائی دینے کے لیے نخرے کرتے ہیں، وہیں عرفان خان بالکل مست تھے۔ جیسے انہیں کسی چيز کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرنے کے لیے کبھی بھی کوئی کوشش نہیں کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اگر وہ کسی فلم کے ایک چھوٹے سے منظر میں آجائیں تو آپ اپنی نظر نہیں ہٹا پاتے تھے۔ میرا نائیر کی فلم ‘ سلام بامبے’ کو وہ خط لکھنے والا شخص یاد ہے؟
سدا چمکتے عرفان
مجھے یاد ہے کہ 1998 کے دنوں میں، میں سوچا کرتی تھی کہ عرفان خان بھی نصیرالدین شاہ کی راہ پر چلیں گے۔ بہترین کردار ادا کریں گے، لیڈ رول بھی ادا کریں گے، ایوارڈ حاصل کرنے والے سنجیدہ فلموں کا حصہ بنیں گے، وہ ایسی فلمیں کریں گے جن سے پیسہ اور جوش کم ملتا ہے لیکن غصہ اور کرواہٹ زیادہ۔ لیکن میں پوری طرح صحیح نہیں تھی۔
عرفان خان 80 کی دہائی کے آخر سے لے کر 90 کی دہائی تک گوند نلہانی اور تپن سنہا کی فلموں سے ہوتے ہوئے یش راج کی ‘مجھ سے دوستی کروگے’ اور مکیش بھٹ کی ‘قصور’ تک آگئے۔ سنہ 2000 تک وہ عالمی سنیما کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے۔ انہوں نے آصف کپاڈیا کی فلم ‘دا وارئیر’ میں کام کیا جسے بیسٹ برٹش فلم کے لیے بافٹا سے نوازہ گیا۔
اور پھر خوش قسمتی سے ‘حاصل’ آگئی۔ میں نے اس فلم کو ایک چھوٹے سے سینما حال میں بعض فلم ناقدین کے ساتھ دیکھا تھا۔ عرفان اس پوری فلم میں چھائے ہوئے تھے۔ اس سال انہیں بیسٹ ولن کے کردار کے لیے فلم فیئر کا کریٹکس ایوارڈ ملا تھا۔ یہ وہ پل تھا جب عرفان خان کمرشل لائم لائٹ میں قدم رکھ چکے تھے۔
عالمی سینما کے بہترین ہدایت کاروں کی عرفان خان پر نظر
اگلے برس 2003 میں وشال بھاردواج کی فلم ‘مقبول’ ریلیز ہوئی اور اس کے بعد سے عرفان خان کا جلوہ قائم ہی رہا۔ اس فلم کی کاسٹنگ بے حد خوبصورت تھی۔ لیڈ رول میں عرفان خان، پنکج کپور، تبو، نصیرالدین شاہ، اوم پوری اور پیوش مشرا تھا۔ اس فلم کو دیکھنا، سننا اور محسوس کرنا ایک جادوئی تجربہ تھا۔
22 فلمیں کرنے کے بعد عرفان خان کو ‘مقبول’ حاصل ہوئی تھی اور یہ ایک شاندار فلم تھی۔ اس سے پہلے وہ ہندی فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردار ادا کر رہے تھے لیکن عالمی سینما کے سرکردہ پرڈیوسر اور اور ہدایت کاروں کی نظر ان پر پڑچکی تھی۔
‘دی مائٹی ہارٹ’ سال 2006 میں آئی اور سال 2007 میں میارا نائیر کی ‘دا نیم سیک’ اور پھر ویسٹ اینڈرس کی ‘دا دارجیلنگ لمیٹڈ’ اور اس کے بعد 2008 میں ریلیز ہوئی ‘سلم ڈاگ ملینیر’ جسے آسکر ایوارڈز ملے۔
کیا ایک شرمناک بات تھی کہ اس وقت تک بہت کم ہندی فلموں کے ہدایت کاروں نے باصلاحیت عرفان خان کو کام دیا تھا۔ ہاں، یہ ایک شرمناک بات تھی اور اس کے لیے معاف بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن وشال بھاردواج اور تگمنشو دھولیا نے سب کسر پوری کردی تھی۔
تگمنشو دھولیا نے عرفان خان کو وہ فلم دی جس کو میں عرفان خان کی دوسری سب سے بہترین فلم مانتی ہوں۔ سنہ 2012 میں ریلیز ہونے والی ‘پان سنگھ تومر’۔ اس فلم کے لیے اسی برس عرفان خان اور تگمنشو دھولیا دونوں کو قومی اعزاز سے نوازہ گیا۔ اسی برس ہدایت کار آنگ لی اور عرفان خان کی فلم ‘لائف آف پائی’ کو آسکر کے لیے نامزد کردیا۔
ہم عرفان کو ان کا حق نہیں دے پائیں گے
سنہ 2013 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘ لنچ باکس’ میں عرفان خان نے سب سے کرشماتی اداکاری کی ہے۔ اس کا جادو ایسا ہے جو آپ پر کئی دنوں تک چھایا رہتا ہے۔ عرفان خان کی وہ ایک ایسی فلم ہے جو شاید ہمیشہ آپ کو یاد رہتی ہے۔ ایک بورنگ آفس میں روز کھانے کا ڈبہ کھولنے جیسا بورنگ سین اتنا ڈرامائی، جذباتی، خوبصورت اور یادگار بھلا کون بنا سکتا ہے؟ وہ باتھ روم والا منظر کون کرسکتا تھا جس میں ساگر فرننانڈز کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ بوڑھا ہو چلا ہے۔
لیکن ہندی فلموں کی دنیا میں جہاں ‘ہیرو پرستی’ ہوتی ہے وہاں عرفان خان کو جو بھی عزت، شہرت اور فلمیں حاصل ہوئیں وہ دیر سے حاصل ہوئیں۔ قومی اعزازات اور فلم فیئر ایوارڈ کے باوجود ہم نے عرفان خان کو وہ نہیں دیا جس کے وہ اصل حق دار تھے۔ اور اب ہم کبھی دے بھی نہیں پائیں گے۔