سکول بھیجنے سے قبل ہر صبح میرے والد مجھ سے گھر میں آیا اخبار سنا کرتے تھے۔ سکول سے گھر لوٹتے ہوئے اپنے محلے میں داخل ہوتا تو وہاں چند تھڑوں پر رکھے اخباروں کو بآواز بلند پڑھتے ہوئے خبریں ’’نشر‘‘ کرنا پڑتیں۔ قصہ مختصر اخبار کی پڑھنے کی عادت بچپن ہی میں لاحق ہوگئی تھی۔اس کی بدولت میرا جنرل نالج اپنے ہم عصروں سے کافی بہتر ہوگیا۔ ریڈیو پاکستان لاہور سے سکول براڈ کاسٹ کے لئے تیار ہوئے کوئز پروگراموں میں یہ برتری میرے بہت کام آئی۔ میٹرک پاس کرنے تک ہر جمعہ کی دوپہر ہوئے مقابلے میں اوّل آتا رہا اور یوں دوسرے ہفتے بھی اس میں شمولیت کا حقدار ہوجاتا۔ ریڈیو سٹیشن باقاعدگی سے جانے کی وجہ سے ڈرامے اور موسیقی کے فن سے بھی تھوڑی آگاہی نصیب ہوگئی۔کل وقتی صحافی ہوجانے کے کئی برس بعد بھی میں اس گماں میں مبتلا رہا کہ اخبارات کے ذریعے صرف ’’خبریں‘‘ دی جاتی ہیں۔ ’’خبر‘‘ اگرچہ حکمرانوں کو ناگوار محسوس ہوتی ہے۔ان کی اشاعت روکنے کا اہتمام کرنا ہوتا ہے۔جنرل ضیاء نے 1979سے کم از کم تین برس تک ہر اخبار کے لئے یہ لازمی ٹھہرایا کہ وہ تیار شدہ اخبار کو چھپنے سے قبل پریس انفامیشن ڈیپارٹمنٹ بھجوائے۔ وہاں بیٹھے سرکاری افسر پیشہ ور مدیروں کے مقابلے میں ’’ایہہ منظور تے ایہہ نہ منظور‘‘ کا رویہ اختیار کرتے ہوئے لوگوں تک پہنچنے کے قابل ’’خبر‘‘ کا تعین کرتے۔بعدازاں پری سنسر شپ کی جگہ ’’پریس ایڈوائس‘‘ آگئی۔ اخبارات کے مدیروں کو براہِ راست فون کے ذریعے بتا دیا جاتا کہ کونسی ’’خبر‘‘ اشاعت کے قابل نہیں۔’’قابل اشاعت‘‘ خبروں کو کونسے حصے پر کتنی جگہ دینی ہے۔ اس کا فیصلہ بھی فون کے ذریعے ہی ہوتا۔صحافت پر سرکاری کنٹرول سے عملی آگاہی کے باوجود میں حقیقی معنوں میں ’’پراپیگنڈہ‘‘ کے بارے میں تقریباََ لاعلم رہا۔ یہ دریافت کرنے میں بہت برس لگے کہ حکمران اشرافیہ فقط ’’خبر‘‘ ہی نہیں روکتی۔ میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے وہ آپ کو حقائق کے برعکس ایک ’’متبادل دُنیا‘‘ فراہم کرنے کو بے چین بھی رہتی ہے۔میڈیا پر سرکاری کنٹرول کا حتمی ہدف ’’اچھی خبروں‘‘ کا فروغ ہی نہیں ہے۔آپ کے دل ودماغ کوحقائق کو اس نگاہ سے دیکھنے کا عادی بھی بنایا جاتا ہے جو حکمران اشرافیہ نے اپنی تسلی کے لئے اختیار کی ہوتی ہے۔میری خوش بختی کہ 1986میں امریکہ کے عالمی شہرت یافتہ ’’فلیچر سکول آف لاء اینڈ ڈپلومیسی‘‘‘ میں سکالر شپ پر چھ ماہ گزارنے کا موقعہ مل گیا ۔امریکی اخبارات کی تنظیم کے سرمائے سے چلائے ایک پروگرام میں ابلاغ کے کئی ماہرین کے طفیل ’’’پراپیگنڈہ‘‘ کی عملی حرکیات کو علمی (Academic)نظم سے سمجھنے کے قابل ہوا۔ ہمارے کورس کے دوران ہر صبح کا آغاز امریکہ کے مقبول ترین اخبارات میں نمایاں طورپر چھپی خبروں کے تجزیے سے ہوتا۔ ہمارے اُستاد سادہ مگر ماہرانہ سوالات کے ذریعے ہمیں یہ سوچنے کو اُکساتے کہ مذکورہ خبروں اور ان کے Displayکے ذریعے کیا پیغام یعنی Messageدیا گیا ہے۔ یہ پیغام ان اخباروں کے قارئین کو بہت مہارت سے کسی اہم ترین مسئلہ کو کس نگاہ سے دیکھنے کا عادی بنارہا ہے۔فلیچر سکول میں گزارے ان چھ مہینوں کے بعد میں اپنے گھر میں آئے اخبارات کے پلندے کو اس نگاہ سے پڑھنے کا عادی ہوگیا ہوں جو فقط ’’خبر‘‘ ہی پر توجہ نہیں دیتی۔ میڈیا کی معرفت پھیلائے ’’پیغام‘‘ کا سراغ لگانے کی کوشش کرتی ہے۔محض ’’خبر‘‘ کی بات ہو تو ان دنوں ہمارے میڈیاکا تمامتر فوکس کرونا کی وجہ سے نازل ہوئے عذاب پرمرکوز رہنا چاہیے۔ اس مرض کے وائرس کی فی الوقت حقیقی شاخت بھی نہیں ہوئی ہے۔ بنیادی طورپر فقط یہ دریافت ہوا ہے کہ ہمارے نظام تنفس کو اپنی جکڑ میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔اس کا علاج میسر نہیں۔ بے تحاشہ کیسوں میں اگرچہ مریض فطری طورپر ہمارے جسموں میں موجود مدافعتی نظام کی بدولت ازخود شفایاب ہوجاتا ہے۔سماجی تعلق کی بدولت یہ مرض البتہ ایک مریض سے دیگر انسانوں کو بہت تیزی کے ساتھ منتقل ہوتا ہے۔60برس سے زائد عمر والے افراد یا وہ نسبتاََ جوان لوگ جو بلڈپریشر، شوگر، پھیپھڑوں یا دل کے امراض کا پہلے ہی سے شکار ہیں کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں بہت دِقت محسوس کرتے ہیں۔کرونا کے علاج کے لئے دُنیا بھر کے ہسپتالوں میں متعدد ’’ٹوٹکے‘‘ آزمائے جارہے ہیں۔ مؤثر علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا۔کرونا کو جان لیوا وباء بنانے سے روکنے کے لئے ویکسین بھی تیار نہیں ہوئی۔صحت عامہ کے ماہرین محض فریاد کررہے ہیں کہ مؤثر علاج کی دریافت تک شہروں کو لاک ڈائون کے ذریعے بند رکھا جائے۔ لوگ سماجی دوری اختیار کرتے ہوئے اپنے گھروں میں محصور ہوجائیں۔ان کی تجویز پر کامل عملدرآمد مگر پاکستان جیسے ممالک کے لئے تقریباََ ناممکن ہے جہاں آبادی کی بے پناہ اکثریت دیہاڑی داروں اور چھوٹے کاروباری افراد پر مشتمل ہے۔ ہمارے لاکھوں نہیں بلکہ سینکڑوں گھرانے کرونا سے بچے رہنے کے باوجود اپنی معاشی بقاء کی فکر میں مبتلا ہوچکے ہیں۔کرونا کے حوالے سے سوالات کاانبار ہے۔ہمارا ریگولر اور سوشل میڈیا مگر تن دہی سے ان سوالات کے جواب تلاش کرتا نظر نہیں آرہا۔اخبارات دیکھتاہوں یا فون کھول کرسوشل میڈیا پر نگاہ ڈالتا ہوں تو چند لمحوں کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم ان دنوں ایک ہولناک وباء کی زد میں ہیں۔گزشتہ کئی دن ’’بے حیائی‘‘ پھیلاتے ’’بکائومیڈیا‘‘ کے ان سیلیبرٹی اینکر خواتین وحضرات کی مذمت میں صرف ہوگئے جنہوں نے مولانا طارق جمیل صاحب کی مبینہ طورپر توہین کی تھی۔ ’’بے حیائی‘‘ کے مرتکب ہمارے دین اور وطن کے دشمن ’’غیر ملکی ایجنٹ‘‘ اس حوالے سے ’’بے نقاب‘‘ ہوگئے تو اب صحافیانہ تجسس کامرکز یہ سوال بن گیا ہے کہ محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو وزارتِ اطلاعات سے فارغ کیوں کرنا پڑا۔ وہ اس ضمن میں اپنی ’’ہتک‘‘ کہاں تک برداشت کرپائیں گی۔مولانا طارق جمیل صاحب اور محترمہ فردوس عاشق ا عوان صاحبہ کی بدولت اُبھرے قضیے نے ’’چسکہ فروشی‘‘ کے بے پناہ امکانات بھی فراہم کئے۔میرے کئی دوستوں نے اپنے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے اس تناظر میں خوب رونق لگائی۔ دریں اثناء مگر سیاسی حوالوں سے ایک اہم ترین سوال بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔نظر بظاہر ہمارے حکمرانوں کو بہت شدت سے یہ پریشانی لاحق ہوگئی ہے کہ آئین میں موجود اٹھارویں ترمیم وطنِ عزیز کی بنیادیں کھوکھلی کررہی ہیں۔اس کی بدولت صوبے ’’خوش حال‘‘ اور وفاق ’’بدحال‘‘ ہورہا ہے۔وقت آگیا ہے کہ اس ترمیم سے نجات حاصل کی جائے۔اٹھارویں ترمیم سے نجات کے لئے مگر آئین میں ایک اور ترمیم درکار ہوگی۔مطلوبہ ترمیم کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے دوتہائی اکثریت کیساتھ منظور کروانا ہوگا۔ عمران حکومت کو اپنے تئیں یہ اکثریت حاصل نہیں۔’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے مبینہ طورپر بھری اپوزیشن جماعتوں کا تعاون درکار ہوگا۔قومی خزانہ لوٹنے والوں کو ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانے پر ڈٹی حکومت شاید اسی باعث نیب قوانین کو ’’نرم‘‘ بنانے پر تیار دِکھ رہی ہے۔جالبؔ سے ایک زمانے میں یہ مصرعہ منسوب ہوا تھا:’’ لاڑکانہ چلو ورنہ تھانے چلو‘‘۔ گزشتہ ہفتے ہمارے اخبارات کے ذریعے میرے وہمی ذہن کو بھی پیغام یہ ملا ہے کہ اپوزیشن کو بتایا جارہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم ختم کرنے کے لئے حکومتِ وقت کے ساتھ تعاون کرو اور اس کے عوض نیب سے اپنی جند چھڑوالو۔ تاثر یہ بھی پھیل رہا ہے کہ کرونا سے کئی ماہ قبل نیب کے خوف سے گھبرائے ’’چور اور لٹیرے‘‘ مجوزہ’’مک مکا‘‘پر آمادہ ہوچکے ہیں۔ جان بچی سولاکھوں پائے والی “Pragmatic”منطق بروئے کار آتی محسوس ہورہی ہے۔کرونا سے گھبرایا میرا دل مگر ہفتے کی صبح انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے صفحہ اوّل پرچھی ایک خبر سے مزید پریشان ہوگیا۔ یہ خبر ہمارے ایک محنتی ساتھی اسماعیل خان نے بہت تحقیق کے بعد لکھی تھی۔اس خبر میں پریشان کن انکشاف یہ ہوا ہے کہ کرونا کی وجہ سے خیبرپختونخواہ میں ہوئی ہلاکتیں ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں تقریباََ دوگنی ہیں۔ اجتماعی طورپر ابھی تک پاکستان کے جو افراد کرونا کی زد میں آئے ان میں سے دواعشاریہ دو فی صد اس سے جانبرنہ ہوسکے۔عالمی تناسب کے تناظر میں یہ تعداد افسوس ناک ہے مگر دل دہلادینے والی نہیں۔خیبرپختونخواہ میں لیکن کرونا کا ٹیسٹ مثبت آنے والے مریضوں میں اموات کی شرح 5.75ریکارڈ ہوئی ہے۔اتوار کی صبح کرونا کے باعث جو اموات منظرِ عام پر آئی ہیں ان میں سے 47فیصد یعنی تقریباََ آدھی خیبرپختونخواہ میں ریکارڈ ہوئی ہیں۔آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں یہ تناسب 28فی صد رہا۔ کرونا کے حوالے سے ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا میں وفاق اور سندھ کے مابین ایک جنگ چھڑی نظر آرہی ہے۔اسی جنگ کو اس حقیقت کے تناظر میں شاید ’’واجب‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے کہ سندھ میں تحریک انصاف نہیں بلکہ پیپلز پارٹی برسراقتدار ہے۔خیبرپختونخواہ میں لیکن تحریک انصاف 2013سے برسراقتدار ہے۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں تحریک انصاف نے مذکورہ صوبے میں صحتِ عامہ کا جو ’’مؤثر‘‘ نظام قائم کیا وہ 2018میں اس کی تاریخی کامیابی کا باعث ہوا۔ صحتِ عامہ کا مبینہ طورپر مؤثر نظام کرونا کے آگے ڈھیر ہوتا کیوں نظر آرہا ہے۔یہ سوال اٹھانے کی کسی کو فرصت ہی نہیں۔