جن ممالک نے سنجیدگی سے لاک ڈاؤن کرنا تھا انھوں نے لاک ڈاؤن کر ڈالا۔ عوام کو اس دوران زندہ رہنے کے لیے نقد و جِنس کی شکل میں بنیادی مدد بھی فراہم کی۔ ان ممالک کے کارپوریٹ سیکٹر نے بھی کاروبار کی تباہی اور بے روزگاری کا رونا رونے کے بجائے حکومتوں سے پوچھا ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟
حکومتوں نے کہا حفاظتی سوٹ، ماسک، شیلڈز، فیلڈ ہسپتالوں کے لیے بڑی عمارتیں، میدان، ضروری سامان، مفت تقسیم ہونے والا سینیٹائزر، وینٹی لیٹرز اور طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے الیکٹریکل بھٹیاں (انسنیریٹرز)، بجلی، پانی، گیس کی مسلسل سپلائی اور شہریوں کے یوٹیلٹی بلز کا التوا چاہیے۔ بیشتر کارپوریٹ سیکٹر نے کہا ہم تیار ہیں۔
حکومتوں نے کہا شکریہ۔ آپ آڑے وقت میں ہماری مدد کر رہے ہیں۔ وبا کے بعد ہم کھڑا ہونے میں آپ کی مدد کریں گے۔ بیشتر کارپوریٹ سیکٹر نے کہا شکریہ۔
حکومتوں نے کہا ہمیں ڈھائی لاکھ رضاکار چاہییں جو ہسپتالوں، بنیادی اشیا تقسیم کرنے والے اداروں، لاک ڈاؤن پر عمل کروانے والے اداروں کی مدد کر سکیں۔
چین، تائیوان، برطانیہ اور سپین سمیت کئی ممالک میں لوگوں نے کہا لبیک۔ اور اتنے رضاکار ہو گئے کہ حکومتوں نے کہا بس ہمیں اتنے نہیں چاہییں۔
حکومتوں نے کہا وبا ہمارے اندازوں سے زیادہ سنگین ہے لہذا چند ہفتے اور لاک ڈاؤن برداشت کرنا پڑے گا پھر ہم مرحلہ وار اسے نرم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لوگوں نے کہا لبیک۔
جن جن ممالک میں یہ سب ہوا۔ اب انھیں شجرِ امید پر محنت کا بُور نظر آ رہا ہے بہت سے ممالک میں متاثرین کے اعداد و شمار عروج پر پہنچنے کے بعد رفتہ رفتہ نیچے اتر رہے ہیں۔ زندگی خود کو نئی حقیقتوں کی عادی بناتی جا رہی ہے۔
مگر کئی ایسے ممالک بھی ہیں جنھوں نے پہلے پہل تو لشکرِ وبا کو ہنوز دلی دور است کے ترازو پر تولا اور اب جبکہ دلی محاصرے میں ہے تو کچھ ہُش ہُش کی آوازیں نکال کر کورونا کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کچھ کورونا سے ڈرنا نہیں رونا ہے پر عمل پیرا ہیں، کچھ کورونا سے ڈرنا نہیں آپس میں لڑنا ہے کھیل رہے ہیں۔ کچھ کی خواہش ہے کہ لاک ڈاؤن ہو بھی تو ’خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں‘ جیسا ہو۔
ہم نے لاک ڈاؤن کو بھی بنی اسرائیل کا بچھڑا بنا دیا۔ کتنا اونچا لمبا ہو، رنگ کیا ہو، سینگ سفید ہوں کہ سیاہ، سونے کا بنایا جائے کہ پیتل کا، بنا کے معبد میں رکھا جائے یا اس کے صحن میں۔ اگر پنجابی میں ہے تو عبرانی میں بھی یہ محاورہ ضرور ہو گا کہ ’من حرامی تے حجتاں ڈھیر۔‘
کبھی کہتے ہیں لاک ڈاؤن اشرافیہ نے لگوایا، کبھی کہتے ہیں آپ کے بھائی نے لگایا، کبھی کہتے ہیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کورونا کم پھیلا ہے اور جانی نقصان باقی ممالک سے کم ہے، کبھی کہتے ہیں لاک ڈاؤن سے اتنے لوگ نہیں مریں گے جتنے بھوک سے مر جائیں گے۔
تادمِ تحریر پاکستان میں کورونا سے لگ بھگ 440 اموات ہوئی ہیں۔ کوئی بتائے گا پچھلے دو ماہ میں بھوک سے کتنے لوگ مرے ہیں؟ اس عرصے میں کورونا سے لگ بھگ 20 ہزار افراد کے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ کوئی بتائے گا کہ اس عرصے میں فاقے کے وائرس سے کتنے پاکستانی نڈھال ہو کے گرے ہیں؟
اب ایک نئی میڈ ان پاکستان اصطلاح متعارف ہوئی ہے۔ سمارٹ ٹیسٹنگ، سمارٹ لاک ڈاؤن۔ جن پر روایتی لاک ڈاؤن لاگو نہ ہو سکا ان پر سمارٹ لاک ڈاؤن کا مسمریزم کیا جائے گا؟ جتنی ریاست سمارٹ بننے کی کوشش کر رہی ہے اس سے کہیں زیادہ عوام سمارٹ ثابت ہو رہے ہیں۔
ایسے لوگوں کو کیسے لاک ڈاؤن کیا جا سکتا ہے جنھیں قبرستانوں میں مرکزی دروازے سے نہ جانے دیا جائے تو پچھلی دیوار کے شگافوں سے اندر گھس جائیں۔ جہاں ڈبل سواری پر پابندی ہو مگر بچوں اور خواتین کو موٹر سائیکل پر گھمانے کا استثنیٰ ہو۔
دکاندار آدھے شٹر کھول کے بیٹھے ہوں اور پولیس کی گاڑی دیکھتے ہی شٹر بند کر کے پھر کھول لیتے ہوں۔ طیارے اور ٹرینیں بند ہوں مگر پرائیویٹ ٹیکسیوں کے لیے ہائی ویز کشادہ ہوں۔اور لوگ پہلے کی طرح ٹھنسے ہوئے اونچے اونچے کرائے دے کر لمبے لمبے سفر کر رہے ہوں۔
کیا عجب حیرتستان ہے جہاں عام آدمی کو سماجی دوری کے فوائد بتائے جائیں اور گورنر، سپیکر حتی کہ وزیرِ اعظم کچہریاں کر رہے ہوں۔ انتظامی معائنے فرما رہے ہوں، امدادی ڈبے تھامے ہجومِ جی حضوراں کے بیچ تصویر کھچوا رہے ہوں۔ جی چاہا ماسک لگا لیا نہ جی چاہا تو نہ لگایا۔
اب ایک گورنر اور ایک سپیکر صاحب قرنطینہ میں بیٹھے اپیل کر رہے ہیں کہ جو جو ان سے پچھلے ایک ہفتے میں ملے ہیں براہِ کرم اپنے ٹیسٹ کروا لیں۔ جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا۔۔۔
تازہ ترین شگوفہ یہ ہے کہ کورونا سے نمٹنے کی راہ میں ایک بنیادی رکاوٹ اٹھارویں آئینی ترمیم ہے۔ کورونا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند رے۔
بات بس اتنی سی ہے کہ پہلے اباجی بیٹوں سے ساری تنخواہ لے کر انھیں خرچہ دیتے تھے اب بیٹے ابا جی کو خرچہ پانی دے رہے ہیں۔
تو کیا پولیو سے نمٹنے میں بھی بنیادی رکاوٹ یہی اٹھارویں ترمیم رہی؟
اور عمران چاہیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا