یہ 2000 کا سال تھا جب ایک کے بعد ایک میچ فکسنگ سکینڈل اور اس کے نتیجے میں قائم کردہ تحقیقاتی کمیشنوں کی کارروائیوں اور رپورٹس نے کرکٹ کی دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
پاکستان۔ جنوبی افریقہ اور انڈیا اس کا مرکز تھے لیکن ظاہر ہے اس کے تباہ کن اثرات پوری کرکٹ دنیا پر مرتب ہوئے تھے۔
ایک جانب پاکستان میں جسٹس ملک محمد قیوم کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آئی تھی تو دوسری جانب انڈیا میں سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن ( سی بی آئی ) کی رپورٹ نے سب کے ہوش اڑا دیے تھے اور جنوبی افریقہ میں کنگ کمیشن کے سامنے ہنسی کرونئے کے اعتراف جرم نے اس کھیل کی شفافیت پر سے اعتبار ختم کردیا تھا۔
میچ فکسنگ کی ان تمام کہانیوں میں یہ بات قدر مشترک تھی کہ کرپٹ کرکٹرز کے بک میکرز سے رابطوں کا سراغ ان کی ٹیلیفونک کالز کے ذریعے ملا تھا۔
ہنسی کرونئے کی بک میکر کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو۔
’ہیلو۔ ہائی ۔ ہنسی۔‘
’ہیلو ۔ ہائی سنجے۔‘
ان رسمی کلمات کے بعد ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو جب دہلی پولیس کے افسران نے سنی تو وہ سوچ میں پڑ گئے کہ ایک بک میکر جنوبی افریقا کے کسی شخص سے رابطے میں کیوں ہے؟
دراصل دہلی پولیس زبردستی رقم کی وصولی کے کیس میں مختلف کاروباری شخصیات کی موبائل فون کالز پر نظر رکھے ہوئے تھی لیکن خود انھیں بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس سے بھی بڑی چیز ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔
تیرہ مارچ 2000 کو دہلی پولیس کرائم برانچ نے مشکوک فون کال میں بک میکر سنجے چاؤلہ کے ساتھ گفتگو میں شریک جس شخص کی آواز شناخت کی وہ کوئی اور نہیں بلکہ جنوبی افریقی کرکٹ ٹیم کے کپتان ہنسی کرونئے تھے۔
سات اپریل 2000 کو دہلی پولیس نے اپنی تحقیقات کی بنیاد پر ہنسی کرونئے اور سنجے چاؤلہ کے خلاف دھوکہ دہی کا باضابطہ مقدمہ درج کرلیا۔ بین الاقوامی کرکٹ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی کرکٹر کے خلاف میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کا مقدمہ درج ہوا۔
دہلی پولیس نے اس ٹیلی فونک گفتگو کا مکمل مسودہ بھی جاری کردیا تھا جس میں میچ فکس کرنے کے لین دین کے علاوہ جنوبی افریقہ کے چند دیگر کرکٹرز کے نام بھی موجود تھے۔
ہنسی کرونئے نے پہلے تو میچ فکسنگ سے اپنے تعلق سے انکار کیا تھا لیکن پھر انھوں نے اعتراف کر لیا کہ انھوں نے پہلے مکمل سچ نہیں بتایا تھا۔ نہ صرف ان کی کپتانی گئی بلکہ ان پر تاحیات پابندی بھی عائد کی گئی۔
میچ فکسنگ کے سنگین الزامات سامنے آنے کے بعد جنوبی افریقی حکومت نے کنگ کمیشن قائم کیا۔ کرونئے نے کنگ کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں یہ انکشاف کیا کہ انھیں مبینہ طور پر بک میکر سے ملوانے والے انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان اظہر الدین تھے۔
کرونئے یکم جون 2002 کو ایک چھوٹے نجی جہاز کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
اظہرالدین پر تاحیات پابندی
انڈین تحقیقاتی ادارے سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن ( سی بی آئی ) نے میچ فکسنگ سے متعلق اپنی تحقیقات مکمل کرکے نومبر 2000 میں رپورٹ جاری کی جس کے مطابق اظہرالدین پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔
ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے والے اجے شرما پر بھی تاحیات پابندی کا فیصلہ کیا گیا جبکہ اجے جادیجا، منوج پربھارکر اور انڈین ٹیم کے فزیو ڈاکٹر علی ایرانی پر پانچ سالہ پابندی عائد کی گئی تھی۔
راشد لطیف کیفراہم کردہ آڈیو ٹیپس
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف وہ پہلے کرکٹر تھے جنھوں نے پاکستانی کرکٹ میں مبینہ میچ فکسنگ کے خلاف آواز بلند کی تھی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی درخواست پر حکومت پاکستان نے تیرہ اگست 1998 کو جسٹس ملک محمد قیوم پر مشتمل ایک رکنی کمیشن قائم کیا تو راشد لطیف نے اس کمیشن کے سامنے کچھ آڈیو ٹیپس پیش کیے تھے جن میں ان کے اپنے چند ساتھی کرکٹرز کی گفتگو ریکارڈ تھی جو مبینہ طور پر میچ فکسنگ سے متعلق تھی۔
راشد لطیف کو میچ فکسنگ کی مبینہ پیشکش 1993 میں پاکستان اور زمبابوے کے درمیان راولپنڈی میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچوں کے دوران ہوئی تھی۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستانی ٹیم کے سری لنکا، نیوزی لینڈ اور زمبابوے کے دوروں کے دوران مشکوک افراد سے رابطوں کی خبریں منظر عام پر آئی تھیں اور ٹیم کے منیجر انتخاب عالم کو اس صورتحال کے پیش نظر کھلاڑیوں سے قرآن پاک پر حلف لینا پڑا تھا۔
اسی دوران راشد لطیف اور باسط علی نے زمبابوے کے دورے کے دوران انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا۔
راشد لطیف نے جب ٹیم میں مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں آواز بلند کی تو ان سے ایک دوست نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے؟ جواب نفی میں ملنے پر اس دوست نے راشد لطیف سے کہا تھا کہ ثبوت کے بغیر تم اپنی بات کیسے ثابت کرسکو گے۔
راشد لطیف بعد ازاں ثبوت کے طور پر آڈیو ٹیپس کے ساتھ سامنے آئے لیکن طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ چند پاکستانی کرکٹرز کی میچ فکسنگ سے مبینہ تعلق پر مبنی یہ گفتگو کس طرح ریکارڈ ہوئی تھی اور ان تک یہ ٹیپس کس طرح پہنچے۔
یاد رہے کہ جسٹس ملک محمد قیوم کمیشن نے میچ فکسنگ کی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد سابق کپتان سلیم ملک اور فاسٹ بولر عطا الرحمن پر تاحیات پابندی کی سفارش کی تھی جبکہ سلیم ملک، وسیم اکرم، مشتاق احمد، عطا الرحمن، وقاریونس، انضمام الحق، اکرم رضا اور سعید انور پر جرمانے عائد کیے گئے تھے۔
قانون میں صوتی شواہد کی کتنی اہمیت ہے؟
جسٹس ملک محمد قیوم بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عدالت میں آڈیو شواہد پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا جب تک اس کی فرانزک تصدیق نہ ہو تاہم چونکہ میچ فکسنگ کی انکوائری تھی لہذا راشد لطیف کے فراہم کردہ وہ آڈیو ٹیپس کمیشن نے سنے تھے اور ان سے کمیشن کی کارروائی کو آگے بڑھانے میں مدد ملی تھی۔
جنوبی افریقہ میں کنگ کمیشن کی سماعت کے دوران جسٹس ای ایل کنگ نے بھی یہ بات واضح کی تھی کہ اگر جنوبی افریقی کرکٹ کو کرپشن سے صاف کرنا ہے تو کرکٹرز کی فون کالز اور ای میلز پر کڑی نظر رکھنی ہوگی اور ایسا کرنا جنوبی افریقی آئین میں موجود انسانی حقوق کی شقوں کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔
سلمان بٹ کیسے زد میں آئے؟
سنہ 2010 میں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کے سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کے متعلق نیوز آف دی ورلڈ کے سٹنگ آپریشن سے قبل ہی کچھ ایسی باتیں ہوچکی تھیں جس نے ٹیم کے اس وقت کے کپتان شاہد آفریدی کو حیران کردیا تھا۔
شاہد آفریدی نے اپنی کتابʹ گیم چینجرʹ میں اس معاملے کا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سری لنکا کے دورے میں مظہر مجید کھلاڑیوں کے بہت قریب تھا اس دوران ان کا موبائل فون ان کے بیٹے سے خراب ہو گیا۔
مظہرمجید نے فون لندن میں ٹھیک کرنے کے لیے دیا ۔ اس پاکستانی دکاندار نے فون ٹھیک کرنے کے دوران ان پیغامات کو دیکھ لیا جو مظہر مجید اور سلمان بٹ کے درمیان ہوئے تھے۔
شاہد آفریدی نے لکھا ہے کہ دکاندار اور ان کے ایک مشترکہ دوست کے توسط سے جب یہ پیغامات ان تک پہنچے تو وہ حیران رہ گئے تھے۔
شاہد آفریدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مظہرمجید اور سلمان بٹ کے درمیان مشکوک رابطوں کے بارے میں انھیں آل راؤنڈر عبدالرزاق نے بھی آگاہ کیا تھا لیکن انھیں یقین نہیں آیا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا تھا لیکن جب انھوں نے خود وہ پیغامات پڑھے تو انھیں اندازہ ہوا کہ معاملہ خراب ہے۔
شاہد آفریدی کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہیڈ کوچ وقار یونس اور منیجر یاور سعید کو اس صورتحال سے آگاہ کیا لیکن ان کی نہیں سنی گئی بلکہ یاور سعید نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم اس بارے میں کیا کرسکتے ہیں؟
شاہد آفریدی نے اس صورتحال کے پیش نظر ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا اور ان کی جگہ سلمان بٹ کو کپتان مقرر کردیا گیا۔
لیکن اسی دورے میں سپاٹ فکسنگ سکینڈل سامنے آگیا جس کے نتیجے میں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو نہ صرف آئی سی سی کی جانب سے پابندیوں کا سامنا رہا بلکہ برطانوی عدالت نے بھی ان تینوں کو سزائیں سنائی تھیں۔ مظہرمجید کو بھی بتیس ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔