پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی ذوالفقار بخاری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جہانگیر ترین پر انحصار نہیں کرتے۔
بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت سازی اور اس سے پہلے بهی جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی کے لیے بہت کام کیے ہیں اور 2018 کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے چند لوگوں کو جہانگیر ترین ہی لے کر آئے ہیں۔
’لیکن وە لوگ پارٹی میں عمران خان کے لیے آئے تھے، جہانگیر ترین یا زلفی بخاری کے لیے نہیں۔ اُس وقت یہ کردار جہانگیر ترین کو ملا، چونکہ وە وزیراعظم کے قریب تهے، اس لیے ان کے توسط سے لوگوں نے پی ٹی آئی کی حکومت سازی میں مدد کی۔ جہانگیر ترین کی جگہ یہ کردار کسی اور کو بهی مل سکتا تها، اس لیے ایسا بالکل نہیں کہ وزیراعظم ان پر انحصار کرتے ہیں۔‘
تاہم انھوں نے بی بی سی سے گفتگو میں ان خبروں کی تردید کی کہ جہانگیر ترین وزیراعظم عمران خان کے خلاف محاذ آرائی کا ارادە رکهتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جہانگیر ترین پارٹی کے سینئر، پرانے اور اہم رہنما ہیں اور ان کا وزیر اعظم کے ساتھ بڑا گہرا اور پرانا تعلق ہے۔
’چینی اور آٹے بحران کی تحقیقات کا نتیجہ خواہ کچھ بھی آئے، میرے علم میں کم از کم ایسا کچھ بھی نہیں کہ وە پارٹی کے خلاف ہیں۔‘
خیال رہے کہ جہانگر ترین نے 2018 کے عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت سازی کے عمل میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جب 2018 کے انتخابات کے بعد عمران خان کو ایوان زیریں میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت تهی تو وہ کئی آزاد ارکان کو اپنے ذاتی جہاز میں بیٹھا کر عمران خان سے ملاقات کے لیے بنی گالا لے کر آتے اور جاتے رہے تھے۔
تاہم اپریل کے آغاز میں پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی رپورٹ میں ملک میں ماضی قریب میں پیدا ہونے والے چینی کے بحران کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار کے بارے میں کہا گیا کہ انھوں نے اس بحران سے ذاتی فائدہ اٹھایا۔
تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں جہانگیر ترین کی ’جے ڈی ڈبلیو‘ شوگر ملز اور ’جے کے کالونی- II‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ سال 2018-19 کے دوران حکومتی پالیسی سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کی شوگر ملز کو پہنچایا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کی سربراہی میں چھ رکنی انکوائری کمیشن نے انکشاف کیا ہے کہ حکومتی شخصیات نے سرکاری سبسڈی حاصل کرنے کے باوجود زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے فروری کے مہینے میں ایف آئی اے کو ملک میں چینی اور آٹے کے بحران سے متعلق مکمل تفتیش کر کے رپورٹ جمع کروانے کے احکامات صادر کیے تھے۔ ایف آئی اے نے تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی اداروں سے تحقیقات کے بعد یہ رپورٹس تیار کی ہیں۔
زلفی بخاری نے اس رپورٹ کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال ہر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسی کوئی بات نہیں ہے جیسی لوگ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور جہانگیر ترین میں بہت پرانا اور مضبوط تعلق ہے۔ میں سمجهتا ہوں کہ اس میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ وہ اپنی پارٹی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، انھوں نے پہلے بهی پی ٹی آئی کی خدمت کی ہے اور یقین ہے کہ آئندہ بهی کریں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان کوئی ناراضگی نہیں ہیں، اور دونوں کے درمیان ایک قریبی تعلق ہے اور ’ابهی تو ابتدائی انکوائری رپورٹ آئی ہے جب تک مکمل کیس کهل کر سامنے نہیں آئے گا وزیر اعظم جہانگیر ترین کے متعلق کوئی غلط فہمی قائم نہیں کریں گے۔‘
اس سوال پر کہ چینی بحران سے متعلق انکوائری رپورٹ میں تاخیر کیوں ہوئی ہے زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ یہ ایک تفصیلی رپورٹ ہے جس میں فرانزک وغیرہ کیا گیا ہے اور مختلف محکمے بھی اس میں کام کر رہے ہیں ’میرے خیال میں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ رپورٹ کب آئے گی اصل بات یہ ہے کہ رپورٹ تفصیلی ہونی چاہیے۔‘
انھوں نے ان خبروں کی تردید بھی کی کہ وفاقی کابینہ میں اختلافات ہیں۔
انھوں نے کہا کہ میڈیا غلط انداز میں خبروں کو پیش کرتا ہے دو لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے آپس میں اختلافات ہیں اور وہ دونوں ہی اکٹھے بیٹھ کر ان خبروں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو میرے خیال میں میڈیا کو زیادہ سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔