پاکستان میں چینی بحران کی تفتیش: معطل ہونے والے ایف آئی اے کے سینیئر افسر سجاد مصطفی باجوہ کون ہیں؟
’مجھے آپ سے یہ توقع نہیں تھی۔‘
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سربراہ اور وزیرِ اعظم کی طرف سے تشکیل دیے جانے والے چینی بحران تحقیقاتی کمیشن کے چیئرمین واجد ضیا نے اپنے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے سجاد مصطفی باجوہ سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔
یہ 21 اپریل کا دن اور شام ساڑھے پانچ بجے کا وقت تھا۔
یہ ملاقات وفاقی ادارے کے اسلام آباد میں واقع صدر دفتر کے کانفرنس روم میں ہو رہی تھی اور اس ملاقات میں کمیشن کے دوسرے دو ارکان، انٹیلیجنس بیورو کے سینیئر افسر احمد کمال اور محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل گوہر نفیس بھی واجد ضیا کے دائیں جانب موجود تھے۔
صحافی شاہد اسلم کو اس ملاقات کی تفصیلات متعدد سینیئر سرکاری افسران اور سجاد باجوہ کے اس خط سے ملی ہیں جو انھوں نے اپنی معطلی کے بعد واجد ضیا کے نام 22 اپریل کو لکھا تھا۔
’کیا ہوا سر؟‘
سجاد باجوہ نے اپنے باس سے پوچھا۔
’باجوہ صاحب آپ کے الائنس شوگر ملز کے لوگوں سے رابطے ہیں اور آپ انھیں اس انکوائری کے حوالے سے گائیڈ بھی کر رہے ہیں۔‘
واجد ضیا نے سامنے بیٹھے ہوئے سجاد باجوہ سے مزید سوالات کر دیے۔
’جی بالکل! میں رابطے میں تھا۔‘ سجاد باجوہ نے جواب دیا اور وضاحت کی کہ ریکارڈ لینے، چینی مل کے متعلقہ لوگوں سے سوالات کرنے اور ان کے بیانات قلمبند کرنے کے لیے متعلقہ افراد کو بلانے کے لیے ان سے رابطہ ضرور تھا جو کہ ہر تحقیقاتی افسر کا ہوتا ہے۔
سجاد باجوہ کو یہ بھی کہا گیا کہ آپ مبینہ طور پر مختلف طریقوں سے تحقیقات میں تاخیر بھی کر رہے ہیں۔ اس پر سجاد کا کہنا تھا کہ ان حالات میں وہ انکوائری کمیٹی کی سربراہی نہیں کر سکتے اور یہ انکوائری کسی اور کو دے دی جائے۔
واجد ضیا بولے ’وہ تو ہم آپ سے لیں گے ہی۔‘
اگلے دن یعنی 22 اپریل کو پتہ چلا کہ ایف آئی اے کے اس سینیئر افسر کو مل مالکان کو مبینہ طور پر انکوائری میں فائدہ پہنچانے کے الزام میں معطل کر کے انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔
جس کے جواب میں پھر سجاد باجوہ نے 15 صفحات پر مشتمل ایک خط واجد ضیا کے نام تحریر کیا۔ جس میں وہ تمام حقائق تحریر کیے جس کی وجہ سے انھیں انکوائری کمیٹی سے الگ ہونا پڑا۔
جب چینی بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کے رکن اور ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن پنجاب گوہر نفیس سے رابطہ کیا کہ آیا ان کی سجاد باجوہ کے ساتھ اس ملاقات میں یا اس کے بعد کسی قسم کی تلخی یا کشیدگی ہوئی تھی اور جو باتیں سجاد باجوہ نے واجد ضیا کے نام خط میں تحریر کیں ہیں کیا ان میں کوئی صداقت ہے یا نہیں، تو انھوں نے بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس معاملے پر بات نہیں کرنا چاہتا۔‘
یاد رہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے 20 فروری کو چینی کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے سربراہ کی سربراہی میں ایک تین رکنی اعلیٰ سطحی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا جس میں انٹیلیجنس بیورو کے ایک سینیئر افسر اور اینٹی کرپشن پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل کو رکن نامزد کیا تھا۔
انکوائری کمیشن کے لیے جو ضابطہ کار ترتیب دیا گیا تھا اس میں 14 نکات شامل تھے۔ انکوائری کمیشن نے اپنی ابتدائی رپورٹ 31 مارچ کو وزیر اعظم کو پیش کر دی جسے اپریل کے شروع میں عوام کے لیے عام بھی کر دیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم عمران خان نے حقائق کی مزید جانچ پڑتال کے لیے انکوائری کمیشن کو چینی کی نو مخصوص ملوں کا 25 اپریل تک فرانزک آڈٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ فرانزک رپورٹ کی روشنی میں جو بھی ملوث پایا گیا اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔
انکوائری کمیشن نے کام جلد مکمل کرنے کے لیے سٹیٹ بینک، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، انٹیلیجنس بیورو، انٹر سروسز انٹیلیجنس، ایف آئی اے وغیرہ جیسے اداروں سے افسران کا انتخاب کیا اور نو مختلف ٹیمیں تشکیل دے دیں جن میں سے ایک کی سربراہی سجاد باجوہ کر رہے تھے۔
سجاد باجوہ کون ہیں؟
سنہ 1988 کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی مرکز میں حکومت قائم ہوئی اور بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں لیکن پنجاب میں ان کا حریف گروپ اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی زیرِ قیادت میدان میں موجود تھا۔
دونوں اطراف سے سیاسی جوڑ توڑ جاری تھا اور آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے منتخب چار ارکان قومی اسمبلی جن میں فیصل آباد کے مصطفیٰ باجوہ بھی شامل تھے اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے جا ملے اور انھیں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
یہ نواز شریف کی آئی جے آئی کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا۔ دوسری طرف سجاد مصطفیٰ باجوہ کو جو اس وقت ایک تحصیل دار کی حیثیت سے ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے، انھیں والد کی بے نظیر سے ملاقات کا خمیازہ نوکری سے برطرفی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
بے نظیر بھٹو نے اپنی حکومت قائم ہونے کے ساتھ ہی بھرتیوں کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی طرز پر ایک ادارہ قائم کیا تھا جسے پلیسمنٹ بیورو کہا جاتا تھا۔ اس بیورو کا کام مختلف سرکاری محکموں میں نئی بھرتیاں کرنا تھا۔
جنوری 1990 میں سجاد مصطفیٰ باجوہ کئی دیگر امیدواروں کی طرح پلیسمنٹ بیورو کے ذریعے ایف آئی اے میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھرتی ہو گئے۔
اسی دوران جوڑ توڑ کی سیاست میں پنجاب بازی لے گیا اور دسمبر 1990 میں نواز شریف قومی اتحاد کے مشترکہ پلیٹ فارم سے بطور وزیرِ اعظم حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
نواز شریف نے حکومت میں آتے ہی وہ تمام لوگ جو پلیسمنٹ بیورو کے ذریعے بھرتی ہوئے تھے ان سب کو نوکری سے فارغ کر کے گھر بھیج دیا۔ ان تمام افراد بشمول سجاد مصطفیٰ باجوہ نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور ان سب کو بحال ہونے میں تین برس کا عرصہ لگا۔
شریف خاندان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تفتیش
تب تک سنہ1993 آ چکا تھا اور اس وقت بے نظیر بھٹو ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہو چکی تھیں۔ 1994 میں سجاد باجوہ کو اپنے کیریئر کا پہلا بڑا کیس سونپا گیا اور وہ شریف خاندان کی ملکیت میں حدیبیہ پیپر ملز کا مشہور زمانہ کیس تھا جس کی پہلی بار تفتیش ہو رہی تھی۔
سجاد باجوہ ایف آئی اے کی اس ٹیم کی بھی سربراہی کر رہے تھے جس نے تفتیش کے سلسلے میں لاہور میں قلعہ گجر سنگھ پولیس لائنز کے پاس واقع حدیبیہ پیپر ملز کے مرکزی دفتر سے نواز شریف اور شہباز شریف کے والد میاں شریف کو بھی گرفتار کیا تھا۔
تحقیقات کے دوران ہی شہباز شریف لندن چلے گئے لیکن جب 1996 میں وہ لاہور ایئرپورٹ کے حج ٹرمینل پر گرفتاری دینے کے لیے اترے تو وہاں انھیں گرفتار کرنے کے لیے پھر سجاد باجوہ موجود تھے۔
سجاد باجوہ کو اسلام آباد میں موجود اپنے سینیئرز سے سخت ہدایات تھیں کہ شہباز شریف کو بالکل بھی کسی قسم کی رعایت نہ دی جائے اور انھیں اترنے کے ساتھ ہی گاڑی پر بٹھا کر اسلام آباد منتقل کیا جائے۔
چنانچہ یوں ہی ہوا شہباز شریف کو جہاز سے اترتے ہی گرفتار کرلیا گیا لیکن انھوں نے سجاد باجوہ سے درخواست کی چونکہ وہ طویل سفر کر کے آئے ہیں اور ان کی کمر میں سخت درد ہے لہٰذا انھیں کچھ دیر ٹہلنے کی اجازت دی جائے۔ سجاد باجوہ نے شہباز شریف کی درخواست مانتے ہوئے شہباز شریف کو کچھ دیر ٹہلنے کی اجازت دی اور بعدازاں انھیں اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔
سنہ1997 میں حالات نے ایک بار پھر کروٹ لی اور ملک میں ایک بار پھر نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہو گئی۔ نواز شریف نے وزیر اعظم بننے کے فوری بعد سجاد باجوہ کو ایک بار پھر معطل کر دیا۔ نواز شریف نے ان پر الزام لگایا کہ انھوں نے حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات کے دوران مختلف بینکوں سے فارن کرنسی اکاؤنٹس کی تفصیلات متعلقہ عدالت کی اجازت کے بغیر طلب کی تھیں۔
اس وقت کے ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمن حسین اصغر جو کہ موجودہ ڈپٹی چیئرمین نیب ہیں، انھیں سجاد باجوہ کے کیس کا انکوائری افسر مقرر کر دیا گیا۔ اپنے کیریئر کے دوران ہمیشہ پیشہ وارانہ قابلیت اورایمانداری کو ملحوظ خاطر رکھنے کی شہرت کے حامل حسین اصغر نے سجاد باجوہ کو کلین چٹ دیتے ہوئے لکھا کہ انھوں نے فارن کرنسی اکاؤنٹ کی تمام تفصیلات عدالت کی اجازت کے بعد ہی طلب کی تھیں اور ان کا کام قانون کے عین مطابق تھا۔
رپورٹ جب وزارت داخلہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے ہوتی ہوئی وزیر اعظم آفس پہنچی تو نواز شریف ناراض ہو گئے اور حسین اصغر، اس وقت کے ڈپٹی سیکرٹری داخلہ حسین چوہدری اور سیکریٹری داخلہ حفیظ ﷲ اسحٰق سمیت تینوں افسران کو ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا گیا۔
شریف فیملی کے ساتھ سجاد باجوہ کا یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ نواز شریف نے ان کے خلاف دوبارہ تحقیقات کے لیے مختلف اداروں کے سینیئر افسران پر مشتمل ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی۔ وہ تحقیقات ابھی جاری تھیں کہ 12 اکتوبر 1999 کو ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور نواز شریف بھی گرفتار کر لیے گئے۔
سابق جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دوران سجاد باجوہ کے خلاف تحقیقات مکمل ہوئیں اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے لکھا کہ سجاد باجوہ نے تمام کارروائی قانونی پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے انجام دی تھی اس لیے عہدے پر دوبارہ بحال ہو گئے۔
شریف خاندان کے حوالے سے سجاد باجوہ کے امتحانات یہاں بھی ختم نہیں ہوئے بلکہ جب وہ سنہ 2000 میں بحال ہو کر راولپنڈی میں تعینات ہوئے تو وہاں جو سب سے پہلا کیس انھیں سونپا گیا وہ بھی نواز شریف کے ہی خلاف تھا جس میں انھوں نے بطور وزیر اعظم ایک افسر کو مبینہ طور پر قوائد و ضوابط سے ہٹ کر ترقیاں دی تھیں۔
اس وقت کی فوجی قیادت چاہتی تھی کہ نواز شریف کے خلاف اس کیس کا بھی ریفرنس بنے لیکن سجاد باجوہ نے سارے معاملے کی تحقیقات کرتے ہوئے 22 افسران جنھوں نے اس سارے کیس کی فائل تیار کی تھی اور منظوری کے لیے وزیر اعظم کو بھیجی تھی ان کے خلاف ایکشن لینے کے لیے لکھ دیا۔
اس بات کو ایشو بنا کر انھیں دوبارہ معطل کر کے انکوائری شروع کر دی گئی اور 2001 میں انھیں نوکری سے ہی فارغ کر دیا گیا۔ سجاد باجوہ نے ٖفیڈرل سروس ٹربیونل سے 2006 میں کیس جیتا اور دوبارہ بحال ہو گئے جبکہ ان کی ریگولرائزیشن ہائی کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں 2008 میں ممکن ہوئی۔
انسپکشن و مانیٹرنگ سیل سے واہگہ بارڈر تک تبادلے اور معطلیاں
سنہ 2008 کے الیکشن کے نتیجے میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو سجاد باجوہ کے بھائی طارق محمود باجوہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر فیصل آباد سے ایم این اے منتخب ہو گئے اسی دوران سجاد باجوہ ڈپوٹیشن پر پہلے لندن بعد میں کینیڈا چلے گئے اور سنہ 2011 میں اپنے والد کے بیمار ہونے پر واپس لوٹ آئے۔
واپسی پر ان کی تعیناتی ایف آئی اے کے سپیشل انویسٹیگیشن یونٹ میں ہوئی یہ یونٹ اہم کیسز کی تحقیقات کے لیے بنایا گیا تھا۔ ان ہی دنوں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ شریف کے مبینہ قتل کی سازش کے کیس کی تحقیقات سپیشل انویسٹیگیشن یونٹ کو دی گئیں اور اس وقت کی حکومت کے اصرار کے باوجود سجاد باجوہ اور ٹیم نے عدم ثبوتوں کی بنیاد پر شریف برادران کے خلاف کچھ نہ لکھا۔
اگست 2014 سے اپریل 2020 تک سجاد باجوہ کا تقریباً 16 مرتبہ ایک سے دوسرے شہر تبادلہ ہوتا رہا جبکہ ان کی معطلی اس کے علاوہ ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق، سجاد باجوہ نے جب بھی کسی غلط بات کے خلاف اپنا موقف اپنایا تو اس کا نتیجہ ان کے تبادلے کی صورت میں ہی نکلا۔
سنہ 2014 میں بینک آف پنجاب کے اربوں روپے کے قرض نادہندگان کے خلاف تحقیقات کرتے ہوئے جب انھوں نے بینک کے سینیئر افسران سے قوائد و ضوابط سے ہٹ کر قرض دینے کی بابت سوالات شروع کیے تو انھیں لاہور سے ہٹا کر فیصل آباد بھیج دیا گیا۔
فیصل آباد میں جب ایک بڑے صنعت کار گروپ کے خلاف مبینہ مالی بد عنوانی کے معاملات کی تحقیقات شروع کیں تو وہاں سے تبادلہ کر کے دوبارہ لاہور سائبر کرائم ونگ اور پھر وہاں سے واہگہ بارڈر بھیج دیا گیا جہاں وہ ایک سال تک تعینات رہے۔
ایک برس بعد ایک مرتبہ پھر انھیں تبدیل کر کے اسلام آباد ایئرپورٹ، پھر وہاں سے لاہور اینٹی کرپشن سرکل، پھر آئل اینڈ گیس سیل لاہور، وہاں سے انسپکشن ومانیٹرنگ سیل لاہور، پھر انچارج گجرات سرکل، وہاں سے اسلام آباد ہیڈ کواٹر، پھرانٹرنل اکاؤنٹبیلیٹی ایف آئی اے ونگ اسلام آباد، اس کے بعد انچارج سائبر کرائم ونگ لاہور، پھر ایف آئی اے ہیڈ کواٹر، وہاں سے سینئر سٹاف افسر ٹو اے ڈی جی سائبر کرائم اور وہاں سے انچارج پنڈی زون اور آخر میں ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ لاہور تعینات کیا گیا۔ جہاں سے انھیں چینی تحقیقاتی کمیشن کی وجہ سے اب پھر معطل کر دیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا نے انھیں پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سید خورشید شاہ کے خلاف نیب کی طرف سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں ایف آئی اے کی طرف سے نمائندگی کے لیے بھیجا تھا اور آئی پی پیز کے خلاف وزیر اعظم کی بنائی گئی خصوصی ٹیم میں ایف آئی اے کی نمائندگی بھی سجاد باجوہ نے ہی کی تھی۔
ایک ایماندار، پیشہ ور اور قابل افسر
سجاد باجوہ کے ساتھ کئی برس کام کرنے والے ان کے چند ساتھی اور افسران سجاد باجوہ کو ایک ایماندار، پیشہ ور اور قابل افسر کے طور پر جانتے ہیں۔
ایف آئی اے کے ایک سینیئر ریٹائرڈ افسر صفدر ملک نے سجاد باجوہ کے کام کے طریقہ کار پر صحافی شاہد اسلم سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 90 کی دہائی میں سجاد باجوہ بطور اسٹنٹ ڈائریکٹر راولپنڈی ان کے ماتحت کام کر چکے ہیں اور انھوں نے سجاد جیسا ایماندار اور فرض شناس افسر اپنے کیریئر میں نہیں دیکھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انھیں اخبار سے علم ہوا ہے سجاد باجوہ پر الزامات لگا کر انکوائری ٹیم سے ہٹایا گیا ہے لیکن ابھی تک سجاد پر ملزمان سے پیسے لینے یا مانگنے جیسے الزامات سامنے نہیں آئے۔‘ انھوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوا ہے انکوائری میں سب سامنے آ جائے گا۔
ایف آئی اے کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ وہ براہ راست تو اس انکوائری سے منسلک نہیں لیکن وہ سجاد باجوہ کو اچھی طرح جانتے ہیں اور یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ انھوں نے کسی لالچ میں آ کر انکوائری میں ملزمان کی مدد کرنے کی کوشش کی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں اچھی کارکردگی کا صلہ ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ، جتنی اچھی کارکردگی ہو گی اتنے زیادہ تبادلے ہوں گے۔‘
وفاقی وزیر داخلہ کا رد عمل
وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈئیر(ریٹائرڈ) اعجاز شاہ نے صحافی شاہد اسلم سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چینی بحران پر قائم تحقیقاتی کمیشن کو مزید دو ہفتے کا وقت دیا گیا ہے اور دو ہفتے بعد کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے پر وزیر اعظم سخت ایکشن لیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا رپورٹ آنے دیں پھر دیکھئے گا کہ ہر وہ شخص جو ملوث پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی ہو گی چاہے وہ (وزیر اعظم) کے دائیں ہوا یا بائیں۔
وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا ’اگر رپورٹ آنے کے بعد ان (قریبی) لوگوں کے خلاف ایکشن نہ لیا گیا تو پھر حکومت کے پاس دوسرا راستہ کیا بچے گا، سچ ضرور سامنے آئے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ کمیشن وزیر اعظم نے خود بڑی خلوص نیت سے بنایا ہے اور وہ خود اس کے معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب وہ وقت گئے جب آپ کسی کو ڈرا، دھمکا کے اپنی مرضی کا فیصلہ لے سکتے تھے، اب میں بھی بطور وزیر داخلہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے سربراہ کو کوئی غلط کام نہیں کہہ سکتا۔‘
’اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، لوگوں میں شعور و آگاہی آ گئی ہے اب کچھ بھی چھپا نہیں رہ سکتا۔ اب سازشی نظریات کو پروان چڑھانے کے زمانے بھی گئے، ان سے بچنے کا آسان سا طریقہ ہے کہ آپ سچ بتا دیں۔‘
چینی کمیشن کی ایک ٹیم کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سجاد باجوہ کو مبینہ طور پر الائنس ملز کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے الزامات کے بعد ہٹائے جانے سے پیدا ہونی والی صورتحال پر بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’اس سے رپورٹ کیسے متنازع ہو گئی، وہ تو حقائق پر مبنی ہی ہو گی۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ سجاد باجوہ کو ذاتی طور پر نہیں جانتے اور نہ ہی اس بارے میں علم ہیں کہ انھوں نے کیا کیا ہے لیکن انھیں ہٹائے جانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں انھیں کسی مالی بد عنوانی کی وجہ سے ہی ہٹایا گیا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس سارے واقعے کا علم نہیں لیکن میں اپنے تجربے کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ کی فریکونسی اپنے باس والی نہیں ہے تو آپ یقینا مصیبت کو دعوت دیتے ہیں۔‘
ایف آئی اے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن میر واعظ نیاز نے صحافی شاہد اسلم سے بات کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا تھا کہ سجاد باجوہ کو معطلی کے کئی روز گزرنے کے باوجود ابھی تک چارج شیٹ جاری نہیں کی جا سکی ہے۔