مومن خان مومنؔ ، غالب کے ہم عصر تھے۔ دونوں باکمال شاعر تھے مگر دونوں کے فکر و اندازِ زندگی مکمل طور پر متضاد تھے۔ غالبؔ بادہ خوار، جدت پسند اور ترقی کے حامی تھے، وہ دلّی کے انگریز حاکم فریزر کو والد جتنا رتبہ دیتے تھے۔
دوسری طرف مومنؔ‘ سید احمد شہید کے ہاتھ پر بیعت تھے، تصوف کے مخالف اور استعمار کے خلاف تھے ، جہاد کے حامی تھے۔ غالب اور مومن دونوں ہی مغلیہ دربار اور انگریزوں کی آویزش کے دور کے حالات سے متاثر ہوئے اور دونوں کی تحریروں میں اس زمانے کے مسائل کا پرتو نظر آتا ہے، غالب کے مومن کے نام خطوط بھی موجود ہیں۔
آج مومنؔ کی ایک غزل نظر سے گزری تو ایک شعر پر آ کر رک گیا، یوں لگا کہ یہ شعر ریاست ِ پاکستان کے آج کے حالات کی مکمل ترجمانی کرتا ہے؎
پامال ہم نہ ہوتے فقط جور چرخ سے
آئی ہماری جان پر آفت کئی طرح
یعنی ہم صرف قسمت اور تقدیر کے ظلم اور جورو ستم سے پامال اور تباہ نہیں ہوئے ہماری جان پر اور بھی آفتیں نازل ہوئیں۔ اِس شعر کے عین مطابق پاکستان پہلے ہی معاشی بحران سے دوچار تھا اوپر سے کورونا نامی بلا نے آ کر ہمارے مصائب میں اور اضافہ کر دیا اور اس پر مستزاد یہ کہ بلا سوچے سمجھے جو پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں ان کے اثرات مستقبل کو بھی مخدوش کر رہے ہیں۔
غریبوں کی امداد کے نام پر 200ارب روپے کی خطیر رقم بانٹی جا رہی ہے، اتنی بڑی رقم ملک کا ترقیاتی بجٹ ختم کر کے اس مد میں لائی گئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سال نہ سڑکیں بنیں گی نہ پانی کے منصوبے مکمل ہوں گے، نہ زراعت کی اسکیموں پر پیسہ خرچ ہو گا حتیٰ کہ جنگلات کے فروغ اور ماہی پروری کے منصوبوں کے لئے بجٹ بھی کم کر دیا گیا ہے۔
پنجاب کی تین بڑی فصلوں گندم، چاول اور گنے کے کاشتکاروں کا حال پہلے ہی بہت برا تھا، بجٹ پر کٹ لگنے سے ان کی حالت مخدوش سے مخدوش تر ہو جائے گی۔ پینے کے پانی کے منصوبے رکنے سے موسم گرما میں انسان اور جانور پیاس بجھانے کے بھی قابل نہیں رہیں گے۔ معیشت اور کورونا بحرانوں سے نکل بھی گئے تو زرعی اور دیہی مسائل کا بحران سر اٹھائے ہمارے سامنے کھڑا ہو گا۔
آج تک سمجھ نہیں آ سکا کہ ہم لاک ڈائون کرنا چاہتے ہیں یا اسے کھولنا چاہتے ہیں؟ ہماری معاشی حالت پہلے ہی کافی خراب تھی، ٹیکس بڑھائے جا رہے تھے، تاثر دیا گیا تھا کہ معاشی بحران ہے مگر اب کابینہ کو اعتماد میں لئے اور ڈیٹا شیئر کئے بغیر 200ارب روپے تقسیم کر دیے گئے ہیں۔
یوں لگتا ہے کورونا کے آتے ہی ہم اچانک امیر ہو گئے ہیں۔ ایک زمانے میں تو بینظیرانکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے 40ارب روپے پر چیں بہ چیں ہوا جاتا تھا، اب 200ارب روپے بانٹے جانے پر کسی ماتھے پر شکن کیوں نہیں پڑی؟ خزانہ خالی ہو گیا تو دفاع، زراعت، ذرائع رسل و رسائل کیسے چلیں گے؟
اس دور میں ایک اور آفت بھی بڑے زور سے حملہ آور ہے اور وہ آفت ہے اندرونی لڑائیوں اور درباری سازشوں کی۔ ایک طرف کورونا کا دور چل رہا ہے اور دوسری طرف عاقل و بالغ ڈاکٹر بابر اعوان اور ذہین و فطین وزیر قانون فروغ نسیم کے درمیان اندرونی رسہ کشی جاری ہے۔
ڈاکٹر بابر اعوان ماضی میں وزیر قانون رہے ہیں اس لئے انہیں وزارتِ قانون پر اختیار میں دلچسپی ہو سکتی ہے تاہم انہیں صرف SAPMیعنی خصوصی مشیر برائے وزیر اعظم بنایا گیا ہے وہ مکمل وزیر نہیں ہیں اس لئے انہیں اپنی تمام سمریوں کی منظوری وزیر اعظم آفس سے لینا پڑے گی۔ یہ خبر بھی گرم ہے کہ ڈاکٹر بابر اعوان کو ارکانِ اسمبلی کے فنڈز کی مد میں اربوں روپے کا بجٹ ملا ہے۔
دوسری طرف ڈاکٹر فروغ نسیم رات گئے تک محنت کا چراغ جلائے وزیر بلاک میں بیٹھے ہوتے ہیں، فائل پر فائل پڑھتے ہیں جبکہ بابر اعوان سیاست اور سر کار دربار میں رسوخ کے حوالے سے ان سے زیادہ تجربہ کار ہیں ، فی الحال زلفی بخاری اور وزیراعظم کے قریبی حلقے میں بابر اعوان پاپولر جا رہے ہیں مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ فروغ نسیم عدلیہ سے اپنے بہترین تعلقات کے ذریعے بازی الٹاتے ہیں یا پھر خود سازش کا شکار ہوتے ہیں۔
ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں لاک ڈائون بھی ہے اور نرمی۔ انتظامی حوالے سے کئی ماہ سے جو آفت آئی ہوئی ہے وہ بھی ابھی جاری ہے۔
جانے والے چیف سیکرٹری اعظم سلیمان ککے زئی تھے، دلچسپ بات یہ ہے نئے آنے والے چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک بھی ککے زئی ہیں۔ ایم اے او کالج کے مشہور پرنسپل ڈاکٹر ڈی (دلاور) حسین اور آئی جی شیخ اسرار کے عزیز ہیں۔ انگریزی زبان و ادب کے ماسٹرز ہیں۔شریف النفس ، اچھے منیجر اور بہترین فالوور ہیں۔ اعظم سلیمان ملک آگے بڑھ کر کام کرتے رہے وہ لیڈر شپ کا رول سنبھالے ہوئے تھے، جواد رفیق اور بزدار صاحب کی اچھی نبھے گی۔
آفت کا شکار صرف حکومت نہیں اپوزیشن بھی ہے۔ نون لیگ کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے یقین ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف نیچے گر رہا ہے مگر نون لیگ کے پاس کچھ ایسا کرنے کو نہیں ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے زوال کو تیز کر سکے۔ نہ جلسے ہو سکتے ہیں نہ لوگ تحریک کے لئے باہر نکلنے کو تیار ہیں، آ جا کر بیان بازی ہے سو وہ نون لیگ کر رہی ہے۔
دوسرا مسئلہ بیانیے کا ہے، شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ سے عزت و احترام کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں لیکن وہ لیڈر شپ جس نے گزشتہ دو برسوں میں قید و بند سہی ہے اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو چلایا ہے اس کے لئے مشکل ہے کہ وہ مفاہمتی بیانیے کو فوراً تسلیم کر لے۔ مسلم لیگ نون کے اندر بیانیے کے کنٹرول کا اختیار اب بھی نواز شریف کے پاس ہے۔ نواز شریف ماضی میں بھی اپنی پارٹی کو بیانیہ دیتے رہے ہیں۔
وہ جدہ جلا وطنی کو بھی خوبصورت بیانیہ دے کر لوگوں کو مطمئن کرنے کا فن جانتے ہیں تو دوسری طرف وہ غلام اسحاق خان اور جنرل پرویز مشرف سے اپنی محاذ آرائی کو بیانیے میں لانے کا گر بھی جانتے ہیں۔ ان کا ہاتھ ہمیشہ اپنی پارٹی کی نبض پر ہوتا ہے وہ ایک دم سے اپنے فلسفے، نظریے یا بیانیے کو سامنے نہیں لاتا۔ پہلے اپنے بیانیے کے لئے وہ اینٹ، گارا، بجری اور سیمنٹ اکٹھا کرتے ہیں پھر بیانیے کی عمارت کی تعمیر کرتے ہیں۔
ماضی میں بھی مختلف ایشوز پر ان کی چپ اور خاموشی کے بڑے لمبے لمبے روزے اور ناغے رہے ہیں۔ بھارت سے تعلقات کے حوالے سے وہ آج تک کچھ نہیں بولے، کارگل کے حوالے سے اقتدار سے رخصت ہونے کے ایک سال بعد بولے۔ ضیاء الحق ، جونیجو اور جتوئی کے بارے میں اُنہوں نے اپنے اندرونی خیالات کا اظہار کئی سال کے بعد کیا تھا۔
معاشی، سماجی اور زرعی کے ساتھ ساتھ بجٹ کے بعد سیاسی آفت بھی آ سکتی ہے۔ ملک کے سیاسی حالات کافی عرصے سے جمود کا شکار ہیں۔ حکومت کے لئے تو یہ ماحول سازگار ہے، اپوزیشن بھی کوئی حرکت نہیں کر رہی، عوام خاموش ہیں، ادارے تعاون پر آمادہ، لیکن ہمیشہ تو ایسے نہیں چل سکتا۔
اپوزیشن کے صبر کا دامن چھوٹ رہا ہے۔ عوام حالات کی چکی میں پستے جا رہے ہیں، میڈیا معاشی تنگ دستی کا شکار ہے، کسی ایک طبقے میں اُبال آ گیا تو باقی سب بھی اکٹھے ہو جائیں گے۔