منتخب تحریریں

معاون خصوصی برائے اطلاعات اور مارک ٹوئین کا انتساب

Share

وزیر اعظم عمران خان نے فردوس عاشق اعوان کو اس شتابی سے فارغ کیا کہ موصوفہ کو اس طرح باقاعدہ رونے کا موقعہ بھی نہ مل سکا‘ جس طرح وہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اپنی اسی وزارت ِاطلاعات سے فراغت پر روئی تھیں۔ اوپر سے مزید ظلم یہ ہوا کہ ان کی جگہ جس شخص کو مشیر اطلاعات بنایا گیا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے تو فردوس عاشق اعوان نے ‘اگر رونے پیٹنے کا ارادہ کیا بھی تھا تو وہ کینسل کر دیا۔ عقلمندی کا تقاضا بھی یہی تھا‘ تاہم انہوں نے ایک عدد پریس کانفرنس کے ذریعے دل کے پھپھولے پھوڑے اور اپنی فراغت کا سارا ملبہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان پر ڈال دیا۔ آج کل سارا ملبہ اعظم خان پر ڈالنے کا رواج چل رہا ہے۔
اللہ جانتا ہے کہ اس ملک میں بہت سی ایسی تعیناتیاں ہیں کہ جن پر عقل حیران و پریشان ہوتی ہے اور باوجود انتہائی غور و خوض کے ان کی کوئی معقول وجہ سمجھ نہیں آتی ‘بلکہ ان میں سے مزید چند ایک تو آگے سے اور بھی حیران کن ہو جاتی ہیں اور ان کی تو کوئی نامعقول وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ ہمارے پیارے عثمان بزدار اور عزیزہ فردوس عاشق اعوان کی ان کے منصب جلیلہ پر تعیناتیاں ایسی ہی دو عدد تعیناتیاں تھیں‘ جن کے بارے میں کبھی بھی کوئی معقول یا غیر معقول وجہ سمجھ میں نہیں آ سکی۔ جس نے بھی اس کے بارے میں سوال کیا جواب میں صرف اندازے اور تکے کے علاوہ کہنے کے لئے کبھی بھی کچھ نہیں تھا۔فردوس عاشق اعوان کی نہ تو آنے کی وجہ سمجھ آئی ہے اور نہ ہی جانے کی۔ اول تو یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ پارٹی میں کوئی بھی منتخب رکن پارلیمنٹ ایسا نہیں تھا کہ اطلاعات کی وزارت کے اہل سمجھا جاتا؟ اوپر سے جب فردوس عاشق اعوان کی تقرری ہوئی تو یہ ان چند تقرریوں میں سے ایک تھی جس پر نہ صرف خود پی ٹی آئی والے حیران و پریشان تھے ‘بلکہ باقاعدہ شرمندہ بھی تھے۔ فردوس عاشق اعوان کے بارے میں نیچے سے لے کر اوپر تک اور ورکرز سے لے کر وزراء تک سارے کے سارے ہی اس سلیکشن پر نالاں اور شرمندہ نظر آئے۔ ہمارے ایک دوست جو پی ٹی آئی کے غیر مشروط حامی ہیں جب بہت زیادہ اونچی ہواؤں میں ہوتے تھے تو ان کو زمین پر اتارنے کیلئے ہمارا ایک اور دوست پوچھ لیتا تھا کہ یہ باجی فردوس عاشق اعوان کی کیا خوبی ہے جس کی بنیاد پر ان کو وزیراعظم کا معاون خصوصی برائے اطلاعات لگایا گیا ہے ؟تو ہمارے اس پی ٹی آئی والے دوست کی باقاعدہ سٹی گم ہو جاتی تھی اور وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگ جاتا تھا۔ اب مجھے ایک بات کی بڑی خوشی ہے کہ اسے کم از کم اس سوال کی وجہ سے پسپائی اور شرمندگی اختیار نہیں کرنی پڑے گی۔
بات ہو رہی تھی فردوس عاشق اعوان کے معاون خصوصی اطلاعات بننے پر ہونے والی حیرانی کی‘ تاہم اب مزید حیرانی اس بات پر ہے کہ انہیں ہٹایا کیوں گیا ہے؟ اگر موصوفہ کی کارکردگی پی ٹی آئی کے مجموعی مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھی جائے تو ماشا اللہ سے کافی شاندار کارکردگی کا مظاہر کر رہی تھیں۔ مخالفین کے لتے لینا‘ ان کو بے عزت کرنا‘ ان کی طبیعت صاف کرنا‘ انہیں طعنے مارنا‘ ان کا ٹھٹھااڑانا‘ ان کی نقلیں اتارنا‘ انہیں جگتیں مارنا اور حتی المقدور برا بھلا کہنا۔ غرض وہ کون سی خوبی تھی ‘جس کا مظاہرہ موصوفہ نے دورانِ وزارت (وہ عملی طور پر وزیر بنی تھیں) نہ کیا ہو؟ اگر پی ٹی آئی کی نظر سے موصوفہ کو کارکردگی پر نمبر دیئے جائیں تو وہ سو میں سے سو نہ سہی‘ مگر نوے سے زیادہ نمبروں کی حقدار تھیں۔ کون سی لفظی چومکھی تھی جو موصوفہ نے نہیں لڑی؟ کس کو دندان شکن جواب نہیں دیا؟ کس کو برے کے گھر تک نہیں پہنچایا؟ کہاں اپنی فتح کے جھنڈے نہیں گاڑے؟ کسی بھی شخص کے لیے محض اپنے اکلوتے قدرتی منہ سے موصوفہ کے مقابلے پر پورا اترنا ناممکنات میں سے تھا۔ایسے میں اچانک کیا افتاد آن پڑی کہ عمران خان کو اپنی روایتی بے مروتی کا ایک بار پھر مظاہرہ کرنا پڑا؟
ایمانداری کی بات ہے کہ فردوس عاشق اعوان کی فراغت ان کی تعیناتی سے بھی زیادہ حیران کن ہے۔ کچھ لوگ اس کی وجہ کرپشن بیان کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کرپشن کے الزامات موصوفہ پر محض ملبہ ڈالنے والا معاملہ ہے۔ ویسے اگر کرپشن کے الزامات کو سچ بھی مان لیا جائے تو اس میں کیا نئی بات ہے ؟ موصوفہ پر یہ الزام تو کافی پرانا ہے اور جب وہ پیپلزپارٹی میں تھیں تب بھی ان پر بڑی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں کرپشن کرنے اور تھوڑے تھوڑے پیسوں پر ہاتھ صاف کرنے کے واقعات زبان زدعام تھے‘ اگر سب پرانی اطلاعات کے باوجود موصوفہ کو تمام منتخب ارکان کے ہوتے ہوئے بھی سب پر ترجیح دی گئی اور مشاورت کی کرسی پر بٹھایا گیا تھا تو اب ان کرپشن کی اطلاعات پر فراغت کی کوئی منطقی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ اگر اس قسم کے الزامات پر کہ موصوفہ نے تین گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں گیارہ ملازموں سے گھر کا کام لے رہی تھیں‘ پی ٹی وی میں ناجائز بھرتیاں کیں تھیں اور ٹھیکوں میں کمیشن لے رہی تھیں تو ایمانداری کی بات ہے کہ اس قسم کے الزامات پر تو آدھی کابینہ اور سارے مشیر ان فارغ ہو جائیں گے۔
ویسے اس حکومت میں ایک اور بڑا مزہ ہے کہ اگر کرپشن کے الزامات پر کسی وزیر یا مشیر کو فارغ کرنا پڑ بھی جائے تو اسے کسی دوسری وزارت میں اکاموڈیٹ کر دیا جاتا ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی معاملہ ہے کہ جیسے کسی غیرت مند میرا ثی کی بیٹی کسی امیر زادے کے ساتھ فرار ہو گئی‘ میراثی کو اپنی بیٹی پر شدید غصہ آیا اور بالآخر اس نے بھاگ دوڑ کر کے کسی نہ کسی طرح اپنی بیٹی برآمد کروالی۔ اب‘ اسے ایک اور پریشانی نے گھیر لیا۔ جہاں وہ ایک طرف اس بھاگ جانے والی کو سزا دینا چاہتا تھا دوسری طرف اسے اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ لڑکا نہایت ہونہار اور دولتمند ہے اور اسے ”ضائع کرنے‘‘پر بھی آمادہ نہ تھا۔ اس نے اس کا یہ حل نکالا کہ بھاگ جانے والی اپنی لڑکی کو قتل کر دیا اور اپنی دوسری بیٹی کو اس لڑکے سے بیاہ کر کے رخصت کر دیا۔ بالکل اسی طرح کرپشن یا کسی اور وجہ پر وزیر موصوف کو ایک وزارت سے فارغ کیا جاتا ہے اور دوسری وزارت عطا کر دی جاتی ہے۔
میرے دو دوست آپس میں ان نئی تبدیلیوں پر بات کر رہے تھے ‘ان میں سے ایک دوست پٹواری ہے اور دوسرا کھلاڑی ہے۔ ایک پوچھنے لگا کہ ریٹائرڈ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی اطلاعات کے معاون خصوصی پر تعیناتی سے آپ کیا یہ نہیں سمجھتے کہ وہ تحریک انصاف میں سیاست کرنے آئے ہیں ؟ دوسرا دوست کہنے لگا تو آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جنرل ( ر) عبدالقادر بلوچ ‘ جنرل ( ر) عبدالقیوم اور جنرل ( ر) ناصر جنجوعہ( ن) لیگ میں ایسے ہی آگئے تھے ؟ بحث اسی ایک جملے پر مشتمل رہی اور پہلا دوست میدان چھوڑ کر افطاری کی تیاری میں لگ گیا۔ میں نے اپنے ایک باخبر دوست کو فون کرکے دریافت کیا کہ عمران خان نے اپنے معاون خصوصی برائے اطلاعات کیلئے جنرل (ر) عاصم باجوہ کا جو انتخاب کیا ہے‘ اس سے کیا پیغام دینا مقصود ہے۔ اس نے کہا جو پیغام دینا مقصود تھا ‘وہ وہاں پہنچ گیا ہے‘ جہاں اس پیغام کو پہنچانا مقصود تھا۔ میں اس کی بات سن کر زور سے ہنسا اور کہا کہ تم نے بالکل وہی بات کی ہے جو مارک ٹوئین نے اپنی ایک کتاب کے انتساب میں لکھی تھی کہ ”وہ لوگ جو ایسی کتابوں کو پسند کرتے ہیں ‘اس کتاب کو ویسا ہی پائیں گے‘ جیسی کتابیں وہ پسند کرتے ہیں‘‘۔