Site icon DUNYA PAKISTAN

کیا یہ دبئی کا سب سے مستند پکوان ہے؟

Share

آمنہ الھاشمی کو یہ پسند نہیں کہ انھیں امارات کی پہلی ’شیف پیٹرن‘ کہا جائے۔ یہ وہ خطاب ہے جو دبئی کی شیف کی برادری نے انھیں متحدہ عرب امارات کی ریستوران کھولنے والی پہلی خاتون شیف ہونے پر دیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ اس طرح کا کا لقب انھیں ان کے مہمانوں سے دور کر دیتا ہے۔ آمنہ چار بچوں کی ماں ہیں اور ان کی ترجیح صحت مند اور سادہ کھانے ہیں جو وہ اپنے ریستوران مٹس اینڈ ٹریز میں پیش کرتی ہیں۔ ایک ایسے شہر میں جو نمائشی، پُرکشش اور آرائشی پکوانوں کا دیوانہ ہے، الھاشمی چاہتی ہیں کہ ان کے مہمان ان کے ریستورانوں میں گھر جیسا محسوس کریں۔

لیکن آمنہ کو چیلنج پسند ہے اور اگرچہ وہ ’پیٹرن‘ کے لفظ پر شرما جاتی ہیں، انھیں اپنی کامیابیوں اور اس حقیقت پر فخر ہے کہ وہ متحدہ عراب امارات کی خواتین کے لیے رول ماڈل یا مثالی شخصیت ہیں۔

ایک ایسے ملک میں جہاں خواتین کو شادی کرنے کے لیے ابھی بھی مرد ولی کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں عورت کو کام کرنے کے لیے مردوں سے اجازت لینے کا رواج ہے، یہ شاید عجیب لگے کہ عورتیں ملک کے طول و عرض میں چھوٹے بڑے تقریباً 48 فیصد کاروبار سنبھال رہی ہیں۔

حقیقت میں یہ ملک کئی طریقوں سے آزاد خیالات اپنا رہا ہے اور متحدہ عرب امارات میں خواتین کے لیے مشرقِ وسطی کے دوسرے پدر شاہی ممالک کی نسبت کام کرنے کے لیے بہترین حالات ہیں اور متحدہ عرب امارات کے تمام شہریوں کے لیے مفت تعلیم اور یونیورسٹیوں سے گریجویشن کی ڈگری لینے والی زیادہ خواتین کی وجہ سے بہت سی خواتین چاہتی ہیں کہ وہ اپنا کاروبار چلائیں اور اپنی باس خود ہوں۔

آمنہ اپنے کچن میں خواتین کے لیے کھانے پکانے کی کلاسز بھی چلاتی ہیں اور انھیں لوگوں کو یہ پڑھانے میں بہت راحت ملتی ہیں کہ کھانا کھانے اور پکانے کو بہتر کیسے بنایا جائے۔ اس وقت ان کے پاس 25 نئے شیف ہیں جو کھانا پکانا سیکھ رہے ہیں اور وہ ان کی ترقی دیکھ کر خوش ہوتی ہیں۔

وہ نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ پروفیشنل بنیں بلکہ وہ ان عورتوں اور مردوں کی مدد بھی کرتی ہیں جو یہ سیکھنا چاہتے ہیں کہ گھر پر کھانے کو کس بہتر بنایا جائے اور صحت مندانہ کھانا کھانے کی عادت بنائی جائے۔

آمنہ خود بھی بچپن میں کھانا کھاتے ہوئے بہت نخرے کرتی تھیں اور انھوں نے اپنے آپ کو کبھی بھی کھانے کی شوقین نہیں سمجھا۔ لیکن 22 سال کی عمر میں ان کی بھابھی نے انھیں بیکنگ سکھائی۔ آخر کار الھاشمی نے گھر پر اپنی تراکیب بنانی شروع کر دیں اور اپنے خاندان والوں اور دوستوں کی دعوتیں بھی کرتیں۔ ایک قدرتی کاروباری ہونے کے وجہ سے انھوں نے اپنی ڈشز کو انسٹاگرام پر ڈالنا شروع کر دیا جہاں ان کی تخلیقی صلاحیت اور ایک پبلک تھنک ٹینک میں سوشل میڈیا ریسرچر کا سابق تجربہ ان کے بہت کام آیا۔

ان کی بہت جلد ہی سوشل فولوئنگ بڑھ گئی اور انھوں نے دو سال گھر سے اکیلے بزنس سنبھالا، چیزیں تیار کیں، بیک کیں اور اپنی بیک کی ہوئی چیزوں کو ڈلیور کیا اور ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی دیکھ بھال بھی کی۔ بزنس کے ساتھ انھوں نے دبئی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کولنری آرٹس میں پیسٹری شیف کے تربیتی کورس میں داخلہ بھی لے لیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یہ سب پسند تھا، لیکن میں تھک جاتی تھی اور سبھی کچھ ساتھ لے کر چلنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن میرے شوہر کے پاس ایک اچھا خیال آیا اور میں نے ان پر بھروسہ کیا۔‘

یوسف الرستمانی نے اپنی بیوی کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنا ریستوران کھولیں اور ان کی مدد کرنے کے لیے 30 افراد کی ایک ٹیم بھی رکھ لی اور آخر کار سنہ 2016 میں انھوں نے جدید اور مقبول ساحلی سڑک سٹی والک پر اپنا ریستوران کھولا۔

آمنہ نے شروع ہی سے اپنے پورے جذبے اور پھرتی کے ساتھ اسے کامیاب بنانے میں جان لگا دی۔ جن کھانوں کو انھوں نے اپنے دنیا کے مختلف ممالک کے سفر کے دوران پسند کیا تھا وہ کھانے وہ وہاں پیش کرنے لگیں۔ ریزوٹوز، کریز، پیئلاز، جو سبھی تازہ مقامی چیزوں سے بنائے گئے تھے۔

انھوں نے نئے کاروبار کو بہت تحمل سے سنبھالا اور کھانا پکانے کے فن کو اپنے اظہار کے نئے ذریعے کے طور پر لیا اور اس سے محظوظ ہونے لگیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ کسی کو کبھی جلدی میں کھانا نہیں پکانا چاہیئے۔ جس دن ہم نے اکٹھے کھانا پکایا اس دن انھوں نے مجھے کہا کہ ’آپ کے پاس کھانے کے ذائقے کو محسوس کرنے اور اسے کوئی شکل اپناتے ہوئے دیکھنے کا وقت ہونا چاہیئے۔‘

جب ان کا حوصلہ بڑھا اور ان کے گاہک دوبارہ واپس آنے لگے تو الھاشمی روایتی اماراتی کھانوں کو بھی اپنے مینو پر لے آئیں۔ خالص روایتی ناشتے بالالیت (جس میں میٹھی سویوں کے اوپر آملیٹ رکھا جاتا ہے) اور اووزی (گوشت اور چاول کی ڈش) جسے پیسٹری پاؤچ میں پیش کیا جاتا ہے، کے علاوہ انھوں نے اپنے مینو میں تجربات کرنے شروع کر دیے اور اپنے روزانہ کے کھانوں میں اماراتی ’تڑکا‘ لگانا شروع کر دیا جس سے ایک الگ فیوژن فوڈ عمل میں آیا۔ ان کے بنائے ہوئے تھارید لسانیے کو ہی لے لیں جس میں الھاشمی نے گوشت کے قورمے کو روایتی اماراتی لیمب سٹیو میں تبدیل کیا اور پاسٹا شیٹس کو مقامی نرم ریگاگ بریڈ سے بدلا۔

اس طرح کے کھانے ایک ایسے شہر میں بہت منفرد لگتے ہیں جہاں بین الاقوامی شیفس، ذائقوں اور پرتعیش ریستورانوں کو روایتی اماراتی کھانوں کے مقابلے میں زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ لیکن الھاشمی اس طرح کی ڈشز سامنے لانے کے لیے بے چین ہیں۔ وہ بڑے فخر سے اپنا شیف والا یونیفارم پہنے ہوئے جس کے اوپر اماراتی جھنڈا لگا ہوا ہے لوگوں سے کہتی ہیں کہ وہ ان کے کھانے کے ذریعے اماراتی ثقافت کو دریافت کریں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اماراتی کھانوں پر بہت فخر ہے اور مجھے انھیں گاہکوں اور خاندان والوں کو پیش کرنا اچھا لگتا ہے۔ یہ گرم ہے، تسکین دیتا ہے، منفرد ہے اور اس کے پیچھے ایک کہانی ہے۔ اسی لیے اماراتی کھانے کو وہاں ہونا چاہیئے۔‘

اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ میں الھاشمی کے ہمراہ شہر کی سیر میں ان جگہوں پر گئی جنھیں وہ پسند کرتی ہیں اور وہ فوڈ کلچر دیکھا جسے وہ سمجھتی ہیں کہ اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جس طرح وہ اپنی ککنگ کلاسز میں کرتی ہیں، اسی طرح انھوں نے مجھے بھی اپنی ایک روایتی ڈش بنانا سیکھانے کی پیشکش کی۔ مجبوس نامی یہ ڈش تازہ مچھلی کی ڈش ہے جسے جڑی بوٹیوں، مصالحوں اور چاول کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اس ڈش سے وہ اکثر اپنے خاندان والوں کے ساتھ لطف اندوز ہوتی ہے۔ مجبوس عربی زبان کے لفظ مکبوس سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے دبا ہوا اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اس مچھلی کو گرم توے پر پکایا جاتا ہے۔

لیکن اسے پکانے سے پہلے ہمیں سب اجزا اکٹھے کرنے تھے۔

ہم ایک روایتی مصالحوں کی خوشبو سے بھرے ہوئے بازار میں ملے جہاں الھاشمی کی شوخ اور زندہ دل شخصیت اپنے پورے جلال میں نظر آئی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ کس طرح امارات سٹائل میں دوکانداروں سے سودا کرنا ہے۔ ہمیں کئی طرح کی جڑی بوٹیاں اور مصالحے چاہیئے تھے اور الھاشمی وہاں مچھلی کے لیے مکسڈ مصالحے اور لومی (دھوپ میں خشک کیے ہوئے لیموں) لینے آئی تھیں۔ مجھے زعفران کے لیے خود ہی مول بھاؤ کرنا پڑا۔

میں نے چند سٹالوں پر اس کی قیمت پوچھی اور آخر کار 20 درہم میں تھوڑا زعفران خرید پائی۔ الھاشمی نے مجھے بتایا کہ یہ سودا چار پاؤنڈ سے ذرا زیادہ کا تھا جو کہ ایک اچھی ڈیل تھی۔

پھر مجھے الھاشمی کے دو بھائیوں اور ان کے دوستوں کے ساتھ مچھلی پکڑنے جانا تھا۔ یہ مجھے خلیج کے پانیوں میں دور تک لے گئے اور شروع کی کچھ ناکامیوں کے بعد وہ بہت خوش ہوئے جب میں نے ایک باراکوڈا مچلی پکڑی۔

پھر میں سمندر سے صحرا میں گئی، میرے کھانے کا اگلا جز مجھے شہر کے مضافات میں ریتلے سنہری اونٹوں کے فارم میں لے گیا۔ میں زعفران والی آئیس کریم کے لیے تازہ اونٹنی کا دودھ ڈھونڈ رہی تھی جو ہمیں ال ھاشمی کے خاندان والوں کے لیے اسی رات ڈنر کے ساتھ پیش کرنا تھی۔

میرا ایڈوینچر آمنہ کے نئے ریستوران مٹس اینڈ ٹریز پر ختم ہوا جو دبئی میرینا کے ساتھ بلیو واٹر آئیلینڈ پر تھا۔ بالکل اس شخص کی طرح جو کھانا کھانا تو پسند کرتا ہے لیکن کچن میں اعتماد کھو بیٹھتا ہے، میں بھی ساتھ ساتھ بہت پرجوش اور نروس بھی تھی۔ لیکن ان کا شفیق طریقے سے سیکھانے کا طریقہ اور ان کے مادرانہ رویے نے فوراً ہی مجھے پرسکون کر دیا۔

ہم نے مچھلی پر مصالحہ اور لومی لگایا اور ملائم چاول جیسے میں نے کبھی نہی دیکھے تھے بگھوئے اور ان میں تھوڑا زیتون کا تیل ڈالا۔ ہم نے مچھلی اور مصالحوں کو ایک بڑے برتن میں پکنے دیا۔ ال ھاشمی نے مجھے اپنی پسندیدہ مشین دکھائی جو کہ ایک آئیس کریم میکر تھی۔ اونٹنی کے دودھ اور پستوں والی زعفران کی آئیس کریم میری پسندیدہ تھی۔ وہ کریمی تھی، میٹھی تھی اور اس کا ایسا ذائقہ جو مجھے بہت اچھا لگا تھا۔

شام کو آمنہ کے شوہر بچے اور خاندان کے دوسرے افراد ہماری بنائی ہوئی چیزیں چکھنے آ گئے۔ ان کے ساتھ گذارا ہوا میرا وقت اماراتی ثقافت کو جاننے کے لیے ایک زبردست تعارف تھا اور میں نے دبئی کا ایک ایسا رخ دیکھا جو بالکل غیر متوقع تھا۔ ان چکا چوند کر دینے والے تجربات سے بالکل مختلف جنھیں کچھ مسافر دبئی جیسے اس مختلف شناخت کے شہر میں حاصل کرنا چاہتے ہیں، مجھے ان سادہ چیزوں میں خوبصورت اور خوشی ملی۔

اماراتی مجبوس کی ترکیب

اجزا

ترکیب

  1. سب سے پہلے پانچ منٹ کے لیے مچھلی کو نمک اور لیموں میں رکھیں، پھر صاف کریں اور خشک کر لیں۔
  2. ادرک، مکسڈ مصالحے اور مزید نمک مچھلی کے دونوں طرف لگائیں۔
  3. مصالحہ لگی مچھلی کو بھونیں جب تک وہ سنہری براؤن نہیں ہو جاتی۔ اس کے بعد اسے ایک ٹرے پر رکھیں جس پر کاغذ رکھا ہو۔ اسے اب ایک طرف رکھ دیں۔
  4. ایک بڑے برتن میں پیاز کو ہلکی آنچ پر رکھیں اور انھیں نرم اور گولڈن براؤن ہونے دیں۔
  5. اس میں گھی یا زیتون کا تیل، لہسن، مرچیں، شملے کی مرچیں اور لومیں ڈالیں اور اسے تین یا چار منٹ تک ہلاتیں رہیں یا اس وقت تک جب تک لہسن خوشبودار اور نرم نہ ہو جائے۔
  6. اس میں زیرہ پاؤڈر، ہلدی، کالی مرچ اور ایک نمک کا چمچہ ڈالیں اور ہلاتیں رہیں۔
  7. ٹماٹر کی پیسٹ ملائیں اور دو منٹ تک پکائیں۔ اس کے بعد ٹماٹر اور سویا اور دھنیا کے پتے ڈالیں۔
  8. اس وقت تک پکائیں جب تک ٹماٹر مرجھا نہیں جاتے اور یہ مرکب ایک پیسٹ کی طرح نہیں بن جاتا (اگر زیادہ خشک لگے تو زیتون کا تیل ڈال دیں)۔
  9. اس میں فرائی کی مچھلی ڈالیں اور اس وقت تک اس میں ابھلا ہوا پانی ڈالتے رہیں جب مچھلی اس میں ڈوب نہیں جاتی۔
  10. جب پانی دوبھارا ابلے تو اس میں چاول ڈالیں اور اس میں اپنی ضرورت کے مطابق نمک ڈالیں۔
  11. ہلکی آنچ پر اس وقت تک پکائیں جب تک چاول پوری طرح پک نہیں جاتے۔
  12. گرما گرم پیش کریں۔
Exit mobile version