روز صبح اٹھنے سے لے کر رات کو بستر میں جانے تک وقت ہماری زندگی پر حکمرانی اور اس کی سمت متعین کرتا ہے۔ گھڑی پر بار بار نظر ڈالنے سے نہیں بچا جا سکتا۔ مثبت انداز میں دیکھا جائے تو یہی وہ ایندھن ہے جو جدید معاشرے کو چلا رہا ہے۔
ورنہ کروڑوں لوگوں کا اپنے کام پر وقت پر پہچنا یا جہازوں، ٹرینوں اور نقل و حمل کے دوسرے ذرائع کے درمیان بین الاقوامی سطح پر ربط کیسے ممکن ہو سکے گا۔ مالیاتی لین دین کا انحصار ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت پر ہوتا ہے اور نیویگیشن کے جو نظام ہم روز استعمال کرتے ہیں وہ دنیا کے گرد گھومنے والی سیٹیلاٹس کی وجہ سے کام کرتے ہیں۔
جن میں انتہائی قابلِ اعتبار گھڑیاں لگی ہوتی ہیں جو ایک سیکنڈ بھی غلط نہیں ہوتیں۔
انفرادی طور پر ہم سب حیران کن حد تک وقت کی کمی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو کام ہم کرنا چاہتے ہیں، انھیں ختم کرنے کے لیے دن میں ناکافی گھنٹے ہیں۔ اِس لیے بھول بھلیوں میں چوہوں کی مانند ہم ہر وقت تیزی میں دکھائی دیتے ہیں۔
وقت کا دباؤ ہمیں تیز چلنے پر مجبور کرتا ہے، ہم تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہیں، ہماری کارکردگی خراب ہوتی ہے، ہم سخت ذہنی دباؤ اور کام کے دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ اِس کی وجہ سے کھانے پینے میں احتیاط نہیں کرتے اور صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
مسلسل کام میں لگے رہنے کا مطلب ہے کہ ہم زیادہ تر ایک خودکار نظام میں زندہ رہتے ہیں اور وقت کی پرواہ کیے بغیر تیزی سے دن کے آغاز سے اختتام کی جانب بڑھتے ہیں۔
اِسی لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ موجودہ لمحوں میں زندہ رہنے کا نظریہ اور وقت سے ماورا ہونے کے احساس کا تجربہ بہت مقبول ہوا ہے۔
جب ناروے کے سومیرائے نامی جزیرے نے یہ اعلان کیا کہ وہ وقت کو ختم کر کے دنیا کا پہلا ٹائم فری علاقہ بن رہا ہے تو یہ خبر دنیا بھر میں شہ سرخی بنی۔
گھڑی کو بھول کر جب اور جو مرضی آئے کرنے کا خیال بالکل دیو مالائی تھا۔ آپ صبح چار بجے تیراکی کرنا چاہتے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں۔
بدقسمتی سے ایک حقیقی پیشکش کے بجائے یہ ناروے کے ایک سیاحتی ادارے کی جانب سے مارکیٹنگ کا حربہ ثابت ہوا۔
جرمنی کے انسٹیٹیوٹ فار فرنٹیئر ایریاز ان سائکالوجی سے منسلک ماہرِ نفسیات مارک وِٹمین وقت اور انسان کے نفسیاتی تعلق کے بارے میں سمجھاتے ہیں کہ ‘شعوری طور پر اگر دیکھا جائے تو وقت کے بارے میں ہم اپنے اندر موجود آگہی کو ختم نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ہماری ذات کے احساس سے جڑی ہوئی ہے۔`
`اپنے جسم کے بارے میں ہمارا احساس وقت کے گزرنے کے احساس کی بھی بنیاد ہے۔ وقت اور ہماری ذات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔’
ذرا سوچیے کہ جب آپ ڈانس کر رہے ہوں یا کسی ایسے کام میں مصروف ہوں جس میں آپ کو مزا آ رہا ہو تو وقت گزرنے کا پتہ نہیں چلتا۔ اِس کے بجائے تصور کیجیے کہ آپ کسی بے مزا سی میٹنگ میں بیٹھے ہوں تو وقت کتنا آہستہ گزرتا ہے اور آپ خود کو گھسیٹ رہے ہوتے ہیں۔
پیرس میں کرونوبائولوجسٹ آندرے کلارسفلڈ کہتے ہیں کہ اگر ہمیں کسی غار میں بند کر دیا جائے اور ہمیں باہر دن اور رات کا کوئی اندازہ نہ ہو تب بھی انسانی جسم 24 گھنٹوں والے ایک دائرے کے مطابق چلتا ہے جسے سرکیڈین ردھم کہا جاتا ہے۔
آندرے کلارسفلڈ جانداروں میں حیاتیاتی ردھم کا مطالعہ کرتے ہیں۔
`ہمارے جسم کے اکثر خلیوں کی اپنی کسی حد تک خود مختار گھڑیاں ہوتی ہیں اور اگر ان گھڑیوں اور جسم کے درمیان توازن خراب ہو جائے تو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
کینیڈا کی سائمن فریزر یونیورسٹی سے منسلک ہولی اینڈریسن کہتی ہیں کہ وقت اور وقت کے گزرنے کے بغیر کوئی بھی شعوری تجربہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہولی اینڈرسن فلاسفی آف سائنس اینڈ میٹافزکس کا مطالعہ کرتی ہیں۔
ہم وقت اور اس کے گزرنے کے تصور کو اِس بنیادی سطح پر تو نہیں چھوڑ سکتے لیکن وقت کے ساتھ اپنے جنون سے شاید چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔
وقت کا استبداد
کہا جاتا ہے کہ وقت کی پیمائش سمیرین دورمیں شروع ہوئی۔
یہ چار ہزار سال قبل مسیح میں وہ علاقہ تھا، جو آج جنوبی عراق ہے۔ اِن لوگوں نے دن کو 12 حصوں میں تقسیم کیا اور پانی کی گھڑیوں استعمال کیں۔ اِس کے بعد قدیم مصر میں دن کو 12 حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے تکونے مینار بنائے گئے۔
ان لوگوں نے طلوع اور غروب ہونے کے دوران سورج کی حرکت کو استعمال کیا۔ موسم کے لحاظ سے دن کے یہ بارہ حصے چھوٹے بڑے ہوتے تھے۔ یہ طریقہ کاشتکاری کے کلینڈر کی ضروریات کے مطابق اپنے طرز زندگی کو ڈھالنے میں اِن لوگوں کی مدد کرتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ درست گھڑیوں کی ضرورت بڑھتی گئی اور سورج والے ڈائل، موم بتی والی گھڑیاں اور مشینی پینڈولم والی گھڑیاں سامنے آئیں۔
17 ویں صدی تک ایسی گھڑیاں آ گئیں کہ جن میں 10 منٹ کی کمی بیشی کے ساتھ وقت کا تعین کر لیا جاتا۔
لیکن انیسویں صدی میں جب ریلوے کا نظام پورے امریکہ میں پھیلنے لگا تو لوگوں نے عالمی معیار کے مطابق وقت کو ترتیب دینے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ انیسویں صدی کے شروع میں امریکہ کے ہر شہر کا اپنا ٹائم زون تھا۔ اُس زمانے میں 300 مختلف مقامی وقت استعمال کیے جا رہے تھے۔
ایک قابلِ اعتماد نظامِ اوقات کے ساتھ ٹرینوں کو چلانا تقریباً ناممکن تھا۔ لہٰذا سنہ 1883 میں امریکہ میں ٹائم زون متعارف کرائے گئے۔ اِس کے بعد اگلے برس گرینچ میریڈین ٹائم یعنی جی ایم ٹی متعارف کرایا گیا جو 24 گھنٹے والا ایک بین الاقوامی نظام تھا۔
اب آبٹیکل ایٹامک گھڑیاں تیاری کے مراحل میں ہیں۔ یہ ایسی گھڑیاں ہیں جن میں اگلے 15 ارب سال تک ایک سیکنڈ بھی آگے یا پیچھے نہیں ہو گا۔
صنعتی انقلاب کے دوران ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ انسانوں پر گھڑیوں نے حکومت کرنا شروع کر دی۔ گھڑی کے وقت کے ذریعے انسانوں کے مجمع کو منظم کیا گیا۔ اِس طرح انفرادی کے بجائے اجتماعی وقت کا انتظام کیا گیا۔
صنعتی سرگرمیوں کے دوران مالکان کے لیے ضروری تھا کہ تمام مزدوروں کے درمیان ربط ہو، خام مال کی ترسیل منظم طریقے سے ہو اور پیداوار زیادہ سے زیادہ ہو۔
یہ سب اہداف گھڑی سے ہی حاصل کیے جا سکتے تھے اور اِسی نے گھڑی کے ساتھ ہمارے تعلق کی مکمل طور پر بدل دیا۔
گھڑی والے وقت کے نقصانات
ہمارے جسم ارتقائی عمل سے گزر کر روشنی اور گرمی، دن اور رات کے دائروں سے ہم آہنگ ہو چکے ہیں۔ ایسے جسموں کو مجبور کرنا کہ وہ وقت کے ایک ایسے تصور سے جڑ جائیں، جو اس فطری بہاؤ کو نظر انداز کرتا ہو، کئی مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
مثال کے طور پر شفٹوں میں کام کرنے والے لوگ کئی طرح کی ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ مسلسل گھڑی کے وقت کی پابندی کرتے ہیں اور ان کے سونے اور جاگنے کے فطری سائیکل میں خلل پڑتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت کی یہی قسم ان چیزیوں سے مطابقت نہیں رکھتی جو ہمارے اردگرد کی دنیا میں ہو رہی ہیں۔
اِس کی وجہ سے ہم دنیا سے غافل ہو کر اپنی توجہ صرف اُس ٹیکنالوجی اور پابندی کی جانب کر لیتے ہیں جس کا تعلق ہماری نوکری سے ہے۔ اِس طرح یہ ہمیں سرمایہ دارانہ ترقی کے معاشی نظام سے جوڑ دیتا ہے جو ہماری بہبود کے بجائے کام کو اہمیت دیتا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی بھی اِس سلسلے میں کوئی مدد کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ کلائی کی گھڑیاں جو کچھ دہائیوں پہلے تک ہر جگہ نظر آتی تھیں اب بڑی حد تک ہماری کلائیوں سے غائب ہو چکی ہیں۔ اِن کے بجائے اب موبائل فون اور کمپیوٹر کے ذریعے ہمارے شیڈول ڈیجیٹل ہو چکے ہیں۔
یہ فون اور کمپیوٹر مختلف طریقوں سے ہر وقت ہماری توجہ حاصل کرتے رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ ہمیں ہر وقت متحرک رکھتا ہے جبکہ ای میل کا مطلب ہے کہ دن کے اختتام پر بھی ہم گھڑی سے دور نہیں ہو سکتے۔ گھڑی والا وقت اب ارتقا کے مراحل طے کرتا ہوا ایک دوسری شکل اختیار کر رہا ہے۔
ایک ایسی شکل جو ہماری زندگی میں پہلے سے زیادہ مداخلت کر رہی ہے۔
ای ٹی ایچ زیورخ سے منسلک سماجی سائنسدان ہیلگا نووٹنی کہتی ہیں `دفاتر میں انتظام چلانے کا کام تیزی سے ڈیجیٹل حکمتِ عملی کو منتقل ہو جائے گا اور ہمیں چیزوں کو یاد دلانا اور ہماری ترجیحات طے کرنے جیسے روایتی کام بھی یہی کرے گا۔’
یہ اہم ہے کہ ہم وقت کیسے گزارتے ہیں۔ ایک گھنٹہ بہت طویل یا بہت مختصر ہو سکتا ہے اِس کا انحصار اِس پر ہے کہ یہ گھنٹہ آپ نے کسی ٹریفک جام میں گزارا ہے یا کسی پارٹی میں۔
ہم گھڑی کے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں؟
وقت کی قید سے آزاد ہو کر کام کرنے کے لیے تیار ہو جائیں جیسے الارم کے بجائے فطری طور پر سو کر اٹھنا یا اس وقت تک ورزش کریں جب تک آپ محسوس نہ کریں کہ اب رک جانا چاہیے۔ اِس طرح کے کام کرنے سے آپ کے جسم کے فطری ردِعمل بہتر ہو جائیں گے۔
آنے والے وقت میں ہمیں اپنے آپ سے سخت سوالات کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم واقعی کس طرح رہنا چاہتے ہیں۔
اپنے جسم کے فطری توازن سے مطابقت پیدا کرنے سے ہمیں اپنے آپ کو اچھا رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ مجموعی طور پر معاشرے میں اِس بات پر اتفاق ہونا بھی ضروری ہے کہ ہم کام کو اپنے نجی وقت پر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔
بجائے اِس کے کہ ہم اپنے کام کو اتنی ترجیح دیں کہ باقی سب کچھ بے معنی ہو جائے، ایک ایسا معاشرہ جہاں آپ اپنا، اپنے تعلقات اور دنیا کا خیال رکھنے کو ترجیح دیتے ہوں، وہاں وقت کی قدروقیمت کا ایک مختلف تصور ہو گا۔
برمنگھم یونیورسٹی کے تاریخ دان ڈیوڈ گینج کہتے ہیں کہ `ہم جس معاشی ماڈل میں جی رہے ہیں وہ پائیدار نہیں ہے اور گھڑی والے وقت کا پورا وجود اِسی معاشی ماڈل سے منسلک کر دیا گیا ہے۔’
ڈیوڈ گینج کے مطابق اِس طرح کے سماجی فریم ورک کو قابل عمل بنانے کے لیے وقت کے ایک مخصوص تصور کی ضرورت تھی اور گھڑی والا وقت یہ ضرورت پوری کرتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اِس کا متبادل ممکن ہے۔
ایسا یقیناً ماضی میں ہو چکا ہے اور آج بھی ایسے علاقے ہیں جہاں لوگ گھڑی والے وقت کی سخت پابندی کو نہیں مانتے۔
مثال کے طور پر ایتھوپیا وہ ملک ہے جہاں زیادہ تر لوگ وقت کا تعین طلوعِ آفتاب سے کرتے ہیں۔
لیکن کیا دوسرے علاقوں میں یہ طریقہ کام کرے گا؟
مثلاً آئس لینڈ میں روز مرہ کی زندگی کا بہاؤ افریقہ کے ریگستانوں سے مختلف ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اِس دنیا میں، جو ذرائع آمد و رفت میں ترقی کی وجہ سے سکڑ چکی ہے، کیا مختلف علاقوں میں وقت کی پیمائش کے مختلف نظام چل سکتے ہیں؟