پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اور اینکر پرسن عامر لیاقت حسین ایک مرتبہ پھر اپنے بیانات کے باعث سوشل میڈیا پر صارفین کی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
عامر لیاقت ماضی میں بھی تنازعات کی زد میں رہے ہیں اور اس مرتبہ انھوں نے بالی وڈ اداکاروں عرفان خان اور سری دیوی کے انتقال کے حوالے سے بھی ایک ایسا مذاق کیا جس کے بعد سے انھیں سوشل میڈیا پر ایک شدید ردِعمل کا سامنا ہے۔
تاہم عامر لیاقت نے اس حوالے سے اب سے کچھ دیر قبل ایک ویڈیو پیغام میں اپنے بیان پر معافی مانگی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ انسانیت کے ناطے معافی مانگ رہے ہیں۔
پاکستان میں رمضان کے حوالے سے مقامی میڈیا پر خصوصی نشریات کا تصور کوئی نئی بات نہیں۔ اس طرز کی نشریات کا ذکر ہو اور عامر لیاقت حسین کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں۔
عامر لیاقت کو مقامی میڈیا پر بطور اینکر پرسن کام کرتے ہوئے ایک دہائی سے زیادہ وقت ہو گیا ہے۔ اس دوران وہ مختلف ٹی وی چینلز کی خصوصی رمضان نشریات کا بطور اینکر پرسن حصہ رہے ہیں۔
البتہ گذشتہ روز عامر لیاقت نے ایسا کیا کہا جس پر انھیں معافی مانگنی پڑی؟
’مجھے عامر لیاقت کے شو کا حصہ بننے پر افسوس ہے‘
ایک نجی ٹی وی کے پروگرام ’جیوے پاکستان‘ کے میزبان عامر لیاقت نے پاکستان کے معروف اداکار عدنان صدیقی کو اپنے شو میں مدعو کیا تھا۔
اس شو کے دوران ایک موقع پر عامر لیاقت نے عدنان صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ملک سے باہر آپ جس کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں ان کا انتقال ہو جاتا ہے۔ انھوں نے عدنان صدیقی کو کہا کہ آپ کی وجہ سے دو لوگوں، رانی مکھر جی اور بپاشا باسو کی زندگی بچ گئی۔
عامر لیاقت نے بتایا کہ عدنان صدیقی نے حال ہی میں ایسی دو فلموں میں کام کرنے سے انکار کیا ہے جن میں یہ دونوں اداکارائیں بطور ہیروئن کاسٹ ہوئی تھیں۔
انھوں نے اس بیان سے قبل بالی وڈ کے معروف اداکار عرفان خان اور سری دیوی کا حوالہ دیا جن کے ساتھ عدنان صدیقی نے ماضی میں کام کیا تھا۔
یاد رہے کہ سری دیوی 25 فروری 2018 کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئیں تھی جبکہ عرفان خان کا انتقال 29 اپریل 2020 کو ہوا۔
تاہم عدنان صدیقی کا اس پر کہنا تھا کہ انھیں سری دیوی اور عرفان خان کے انتقال کا بے حد افسوس ہے اور انھوں نے عامر لیاقت کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ آپ کے لیے مذاق ہو گا مگر میرے لیے یہ مذاق نہیں۔‘
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شو کے بعد جاری ایک بیان میں عدنان صدیقی نے لکھا کہ’اس دنیا سے گزر جانے والوں کے حوالے سے مذاق کرنا نہایت نامناسب ہے، اس بیان سے صرف وہ (عامر لیاقت) اور میں ہی نہیں بلکہ ہمارا ملک غلط انداز میں پیش ہوا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے عامر لیاقت کے شو کا حصہ بننے پر افسوس ہے۔‘
سوشل میڈیا پر ردعمل
اس پروگرام کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی اور صارفین نے عامر لیاقت کو ان کے اس متنازع بیان کے باعث شدید تنقید کا بھی نشانہ بنایا۔
عامر لیاقت کی جانب سے معذرت کرنے پر ایک صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسے اچھا نہیں لگتا جب کوئی معافی مانگے مگر تواتر سے اسی طرز کی غلطی کرنے والے شخص کی معافی کیا کوئی معنی بھی رکھتی ہے۔
سوشل میڈیا پر صارفین ایک جانب جہاں عدنان صدیقی کے رویے کو سراہتے نظر آئے وہیں دیگر صارفین نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ نجی ٹی وی چینلز عامر لیاقت کی تنازعات سے بھری تاریخ جانتے ہوئے انھیں بھرتی کیوں کرتے ہیں؟
لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز یعنی لمز کے شعبہ عمرانیات سے منسلک معلمہ ندا کرمانی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ عامر لیاقت کی جانب سے کہی گئی نازیبا بات یا عمل ہمیں اب بھی حیرت میں کیوں مبتلا کر دیتا ہے؟
گذشتہ برس عامر لیاقت نے عورت مارچ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے والا غیر ملکی ایجینڈا‘ قرار دیا تھا جس کے بعد بھی انھیں ٹوئٹر پر ایک شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
عامر لیاقت اور تنازعات، چولی دامن کا ساتھ
اپنے پروگرام میں نفرت انگیز مواد شیئر کرنے پر عامر لیاقت حسین کو متعدد بار نہ صرف پیمرا کی جانب سے نوٹسز جاری ہوئے ہیں مگر عدالتوں نے بھی کئی بار ان کے بیانات کا نوٹس لیا ہے۔
پیمرا نے 26 جنوری 2017 کو متعدد شکایات کی مد میں نجی ٹی وی پروگرام ’ایسے نہیں چلے گا‘ پر پابندی عائد کر دی تھی۔
واضح رہے کہ اس پروگرام کے میزبان عامر لیاقت نے سپریم کورٹ کے احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نجی ٹی وی چینل جیو کے مالک میر شکیل الرحمن اور دیگر افراد کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی تھی۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے سات نومبر 2018 کو اس متعلق عامر لیاقت حسین پر فرد جرم عائد کی تھی۔
ماضی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی عامر لیاقت حسین پر ٹی وی پروگرم میں نفرت انگیز تقاریر کرنے پر نہ صرف ان کے پروگرام پر پابندی عائد کی بلکہ عامر لیاقت حسین پر کسی بھی پروگرام میں بطور مبصر مدعو کرنے پر بھی پابندی عائد کی تھی۔
اس حالیہ تنازعہ اور ماضی کے ان واقعات میں مشترکہ بات یہی تھی کہ عامر لیاقت حسین نے تب بھی معافی مانگی تھی۔
’پیمرا کو اس بیان پر نوٹس لینا چاہیے‘
عامر لیاقت کی جانب سے معافی کے باوجود صارفین پاکستان میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ عامر لیاقت کے اس بیان پر نوٹس لیں۔
پیمرا نے اس سے قبل مقامی انٹرٹینمنٹ ٹی وی چینلز کو متنازع اور غیر اخلاقی موضوعات پر مبنی ڈراموں کو نشر کرنے کے خلاف بھی ہدایات جاری کرتا رہا ہے۔
پیمرا نے سنہ 2015 میں ٹی وی چینیلز کے لیے ایک باقاعدہ ضابطہ کار جاری کیا تھا جس میں واضح کیا گیا تھا کہ نازیبا اور غیر اخلاقی مواد پر پابندی ہو گی۔ البتہ اس ضابطہ کار کی عمل داری پر پیمرا کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔