امریکہ کی جانب سے پاکستان کے سابق پولیس افسر راؤ انوار کی انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے افراد کی فہرست میں شمولیت کے بعد انھیں امریکہ کی حد تک مختلف نوعیت کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
منگل کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر بیرونی ممالک کے اثاثہ جات کو کنٹرول کرنے سے متعلق امریکی محکمہ خزانہ کے دفتر نے مختلف ممالک کی 18 شخصیات بشمول راؤ انوار پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
مگر عملی طور پر ان پابندیوں کا مطلب کیا ہے؟
امریکہ میں لامار یونیورسٹی میں شعبہ صحافت سے منسلک پروفیسر اویس سلیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ خزانہ سے جاری ہونے والے آرڈر کے بعد راؤ انوار کے امریکہ میں ذاتی اثاثے یا کسی رشتہ دار کے نام پر ایسے اثاثے ہیں جن میں ان کا حصہ 50 فیصد سے زائد ہو، ایسے اثاثے منجمد تصور ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ اگر کوئی امریکی کمپنی یا شخص ان کے ساتھ کاروباری روابط رکھتا ہے یا کوئی امریکہ سے انھیں رقوم کی ترسیلات کرتا ہے تو اب ایسا کرنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ امریکہ کی حد تک کسی بھی نوعیت کی فنانشل ٹرانزیکشن یا پراپرٹی کا لین دین راؤ انوار کے نام سے نہیں ہو سکے گا۔
اویس سلیم کے مطابق ان پابندیوں کے باعث ان کی امریکہ آمد و رفت، اگر ہے تو، متاثر ہو گی اور اس بنیاد پر ان کو مستقبل میں امریکی ویزہ جاری نہیں کیا جائے گا۔ ’اگرچہ آرڈر میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے مگر جب اطلاق کی بات آئے گی تو اس کا یہی مطلب ہو گا۔‘
پابندی کے پاکستان کے لیے کیا معنی ہیں؟
ڈاکٹر اویس سلیم کا کہنا ہے کہ امریکہ اس سے پہلے پاکستان کے مختلف گروپس اور شخصیات پر انفرادی حیثیت میں پابندیاں عائد کرتا رہا ہے تاہم ان پابندیوں کا پاکستان کے لیے مطلب علامتی نوعیت کا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر جب تک امریکہ کی جانب سے انفرادی حیثیت میں جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید پر پابندیاں عائد کی جاتی رہیں تو پاکستان نے ان کی روشنی میں کوئی خاص اقدام نہیں کیا، نہ تو ان کی نقل و حمل پر پابندی عائد کی اور نہ ہی ان کے اثاثوں پر کسی نوعیت کی پابندی لگائی۔
مگر جب اقوام متحدہ کی جانب سے پابندی لگی اور دباؤ بڑھا تو پاکستان نے اس پر کان دھرنا شروع کیے۔
’امریکہ کی جانب سے انفرادی حیثیت میں راؤ انوار پر لگائی جانے والی پابندی کا اخلاقی طور پر تو پاکستان پر دباؤ ہو گا لیکن کیا پاکستان امریکہ کی جانب سے پابندیاں لگائے جانے کے بعد راؤ انوار پر سختی کرے گا یا ملک میں ان کے اثاثے منجمد کرے گا یا ان کے زیر التوا کیسز میں جلدی کرے گا، میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کچھ ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ دو طرفہ ملاقاتوں میں یہ معاملہ زیر بحث آ سکتا ہے مگر امریکہ اپنے ملک میں کیے جانے والے اقدام پر پاکستان میں عملدرآمد کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ ’ایسا ماضی میں بھی نہیں ہوا اور شاید اب بھی نہیں ہو گا۔‘
راؤ انوار پر پابندی
امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے منگل کو تحریری طور پر جاری پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ راؤ انوار سمیت دیگر ممالک بشمول برما، لیبیا، سلواکیا، ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو اور جنوبی سوڈان کی شخصیات اور ادارے شامل ہیں۔
بیان کے مطابق فہرست میں موجود 18 افراد نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔
محکمہ خزانہ کے ڈپٹی سیکریٹری جسٹن جی کے مطابق اس اقدام میں ان افراد پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جنھوں نے ان معصوم لوگوں کو قتل کیا یا قتل کرنے کا حکم دیا جو انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوئے اور ان میں صحافی، اپوزیشن ممبران اور وکلا شامل تھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ راؤ انوار خان نے اطلاعات کے مطابق ضلع ملیر میں پولیس کے سینیئر سپرنٹینڈنٹ پولیس کی حیثیت سے بہت سے جعلی پولیس مقابلے کیے جن میں پولیس کے ہاتھوں لوگ مارے گئے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ 190 پولیس مقابلوں میں ملوث تھے جن میں نقیب اللہ محسود سمیت 400 افراد ہلاک ہوئے۔
پریس ریلیز کے مطابق مبینہ طور پر راؤ انوار نے پولیس کے اس نیٹ ورک کی سربراہی اور جرائم میں ملوث ٹھگوں کی مدد کی جو بھتہ خوری، زمین پر قبضہ کرنے، منشیات اور قتل میں مدد کرتے تھے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ راؤ انوار ساز باز کرنے، بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے ذمہ دار رہے ہیں۔
گذشتہ سال جنوری میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نقیب اللہ کو تین ساتھیوں سمیت پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور نقیب اللہ کا تعلق شدت پسند تنظیموں داعش اور لشکر جھنگوی سے ظاہر کیا تھا۔ تاہم عدالت نے نقیب اللہ محسود کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے ان پر دائر تمام مقدمات خارج کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
رواں برس مارچ میں کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور دیگر افراد پر نقیب اللہ محسود کے قتل کی فرد جرم عائد کی تھی جبکہ راؤ انوار سمیت تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔
راؤ انوار کون ہیں؟
کراچی پولیس کے راؤ انوار شاید واحد رینکر افسر ہیں جنھوں نے کسی ضلعے کی سربراہی کی۔ راؤ انوار 1980 کی دہائی میں پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے، بطور سب انسپکٹر ترقی پاتے ہی ایس ایچ او کے منصب پر پہنچ گئے، اس عرصے میں وہ زیادہ تر گڈاپ تھانے پر تعینات رہے۔سنہ 1992 میں جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو راؤ انوار اس میں بھی پیش پیش تھے، جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب ایم کیو ایم کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا تو راؤ انوار رخصت پر چلے گئے اور یہ عرصہ انھوں نے دبئی میں گزارا، بعد میں انھوں نے بلوچستان میں سروس جوائن کی۔سنہ 2008 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں اقتدار سنبھالا تو راؤ انوار نے دوبارہ کراچی کا رخ کیا، اس کے بعد دس برسوں کے دوران وہ زیادہ تر ایس پی ملیر کے عہدے پر ہی تعینات رہے۔
راؤ انوار نے سنہ 2016 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ 150 سے زائد پولیس مقابلے کر چکے ہیں اگر انھیں ہٹایا نہیں گیا تو وہ اس میں اضافہ کریں گے۔ ان مقابلوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے بتایا تھا کہ ان کا پہلا مقابلہ ایم کیو ایم کے فہیم کمانڈو کے ساتھ ہوا تھا جس میں وہ مارا گیا۔