کورونا وائرس: مشرق وسطیٰ میں کووڈ 19 پھیلانے میں ایران کی ایئر لائن ماہان ایئر کا کردار
بی بی سی نے ایک تحقیق کی ہے کہ کس طرح ایک ایرانی ایئر لائن ماہان ایئر نے مشرق وسطیٰ میں کووڈ 19 پھیلانے میں کیا کردار ادا کیا اور متعدد ممالک کی جانب سے ایران کے ساتھ پروازوں پر پابندی کے باوجود انھیں کیسے جاری رکھا گیا۔
بی بی سی نیوز عربی نے فلائٹ ٹریکنگ کی معلومات کا جائزہ لیا اور ماہان ایئر کے اندر لوگوں سے بات کی تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ ایئرلائن نے کس طرح جنوری کے آخر سے لے کر مارچ کے آخر تک ایران، عراق، متحدہ عرب امارات اور شام کے درمیان حکام کی جانب سے پابندیوں کے باوجود کئی سو بار پروازیں اڑائیں۔
ان سب ممالک نے اپنی جانب سے پابندیوں کے باوجود ماہان ایئر کے طیاروں کو اُترنے کی اجازت دی۔
ایران نے 31 جنوری کو چین اور وہاں سے آنے والی تمام پروازیں معطل کر دیں اور اس کے بعد متعدد ممالک نے فروری اور مارچ میں ایران سے آنے والی پروازوں پر پابندی عائد کر دی تھی کیونکہ وہ مشرق وسطیٰ میں وبا کا مرکز بن گیا تھا۔
تاہم ایئرلائن اس کے باوجود پروازیں چلاتی رہی جس کے نتیجے میں اس پر تنقید کی گئی کہ وہ مسافروں اور عملے کی صحت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ جب عملے نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ اُن کے پیاروں میں اور ملک میں وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے تو اُنھیں خاموش کرا دیا گیا اور دھمکایا گیا کہ اُن کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
بی بی سی نے ماہان ایئر سے اُن کا مؤقف جاننے کی کوشش کی لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔
ماہان ایئر کیا ہے؟
ماہان ایئر ایران کی ایک نجی ایئر لائن کمپنی ہے۔
ماہان ایئر کا کہنا ہے کہ اُن کی ملکیت میں 55 طیارے ہیں اور وہ سالانہ اوسطً پچاس لاکھ مسافروں کو دنیا بھر میں 66 مقامات تک لے جاتے ہیں۔
اس کے ایرانی فوجی دستے پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کے ساتھ روابط ہیں۔ لہٰذا اس سے پہلے سنہ 2011 میں اس کی جانچ پڑتال ہوئی، امریکہ نے ایئرلائن پر پابندیاں عائد کی اور الزام لگایا کہ یہ کمپنی آئی آر جی سی کے لیے ہتھیار اور عملے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہے۔
ایئر لائن شام ، لبنان اور عراق میں ایران کی کارروائیوں کی حمایت کرتی ہے۔۔۔ ان سب ممالک کے آئی آر جی سی سے روابط ہیں۔
طبی مشورے نظر انداز کیے گئے
فلائٹ ڈیٹا اور لبنان اور عراق میں اپنے رابطوں سے بات چیت کر کے بی بی سی نیوز عربی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان ممالک میں کووڈ 19 کے پہلے متاثرین ماہان ایئر کی پروازوں پر سفر کر کے آئے تھے۔
19 فروری کو ایک ایرانی طالب علم نے ماہان ایئر کی پرواز ڈبلیو 55062 پر ایران کے دارالحکومت تہران سے عراقی شہر نجف تک سفر کیا۔ 24 فروری کو عراق میں کووڈ 19 کا پہلا باضابطہ کیس رپورٹ کیا گیا جو اسی شخص کا تھا۔
20 فروری کو ایک 41 برس کی لبنانی خاتون زیارت کے بعد تہران سے ماہان ایئر کی پرواز ڈبلیو 5112 پر سفر کر کے لبنان کے دارالحکومت بیروت پہنچیں۔ اس کے اگلے ہی روز لبنان میں پہلے باضابطہ کیس کی تصدیق ہوئی۔
ان واقعات پر دونوں ممالک میں غصے کا اظہار کیا گیا لیکن اس کے باوجود ماہان ایئر نے اپنی پروازیں جاری رکھیں۔
عراقی حکومت نے 20 فروری کو ایران سے آنے اور جانے والی پروازوں کو معطل کر دیا۔ تاہم بی بی سی یہ بات منظر عام پر لایا ہے کہ پابندی کے بعد بھی کم از کم 15 مزید پروازیں چلیں جن کو عراقی حکومت کی طرف سے اجازت ملی۔
ان میں سے اکثر طیاروں پر ایران سے عراق کے مذہبی مقامات تک آنے والے زائرین سوار تھے۔
بی بی سی کو دیے گئے بیان میں عراقی حکومت نے کہا کہ یہ پروازیں شہریوں کی وطن واپسی کے لیے چلیں تھیں اور انھیں عراق کی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے منظوری حاصل تھی۔
انھوں نے کہا کہ عراق سے ایران جانے والی پروازیں جاری رہیں گی لیکن ایران کے مسافروں پر عراق میں داخل ہونے پر پابندی ہے۔
چین اور ایران میں وبا کی بلند ترین سطح کے دوران آپریشن جاری رہا
بی بی سی کی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ جب چین میں کووڈ 19 بلند ترین سطح پر تھا تو اس دوران ماہان ایئر کی پروازیں ایران سے چین کے چار بڑے شہروں بیجنگ، شنگھائی، گوانگژو اور شنزن کے درمیان چلتی رہیں۔
ایران نے لازماً 31 جنوری کو اپنی ہی پابندیوں کے خلاف جاتے ہوئے ماہان ایئر کو چین جانے کی اجازت دی ہو گی۔
ماہان ایئر نے چینی سوشل میڈیا پر تصاویر پوسٹ کیں جن میں یہ دکھایا کہ جنوری کے آخر سے لے کر 20 اپریل کے دوران چھ پروازیں امداد کے لیے استعمال ہوئیں اور چار کی نشاندہی کی جنھیں چین سے ایرانی باشندوں کو نکال کر وطن واپس لانے کے لیے چلایا گیا۔ ان میں آخری پروازیں 5 فروری کو چلیں۔
فلائٹ ٹریکنگ ڈیٹا کا جائزہ لے کر اور اسے ماہان ایئر کے باضابطہ بیان سے ملا کر ہماری تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ چین کے ساتھ پروازوں پر ایرانی پابندی کے اعلان کے بعد 157 پروازیں چلیں۔
چونکہ دوسری ایئر لائنز نے اپنی پروازیں بند کر دی تھیں، فلائٹ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ 31 جنوری سے 20 اپریل کے دوران صرف ماہان ایئر وہ ایئرلائن تھی جس نے ایران اور چین کے درمیان براہِ راست پروازیں چلائیں۔
ماہان ایئر نے ایران میں وبا کی بلند ترین سطح کے دوران مسافروں کے ایران سے دوسرے ممالک تک سفر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
شام نے 8 مارچ کو باضابطہ طور پر ایران جانے اور وہاں سے آنے والی تمام پروازیں معطل کیں۔ تاہم ماہان ایئر نے پابندی کے بعد مزید 8 پروازیں چلائیں۔
ماہان ایئر نے دبئی کے لیے 37، ترکی کے لیے 19 اور ملائیشیا اور تھائی لینڈ سمیت دیگر مقامات کے لیے 18 مزید پروازیں چلائیں۔
اس دوران دوسری ایئر لائنز بھی تھیں جو ایران آ اور جا رہی تھیں لیکن صرف ماہان ایئر اتنے بڑے پیمانے پر چل رہی تھی۔
ماہان کے عملے کو خاموش کرا دیا گیا
بی بی سی نے شواہد حاصل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وائرس پھیلانے میں ماہان ایئر کے کردار پر عملے کو خاموش کرا دیا گیا تھا حالانکہ اس بارے میں ان کی پریشانی بڑھ رہی تھی۔
ماہان ایئر کے اندر باوثوق ذرائع کے مطابق فروری کے آخر تک ماہان ایئر میں طیارے کے اندر کام کرنے والے عملے کے 50 ممبران میں وائرس کی علامت ظاہر ہوئی تھیں۔
عملے نے معاملہ اٹھانے کے لیے سوشل میڈیا کا رُخ کیا اور کہا کہ انھیں مخصوص حفاظتی سامان یا لباس نہیں دیا جا رہا۔
فروری کی 27 تاریخ کو ائیرلائن کے لیے کام کرنے والے عملے نے پہلی بار کھلے عام آواز اُٹھائی۔ شرق ڈیلی میں ایک مضمون شائع ہوا، ماہان ایئر کا عملہ فکرمند ہے کہ انھیں چین سے واپس لوٹنے کے بعد خود ساختہ تنہائی اختیار کرنے کے لیے وقت نہیں دیا جا رہا۔
اپریل کی 18 تاریخ کو ماہان ایئر کے عملے کے 1300 افراد نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے اور ایئرلائن پر الزام لگایا کہ انھوں نے مشکل صورتحال کا مقابلے کرنے میں بدانتظامی دکھائی ہے۔
ایویا نیوز میں شائع ہونے والے خط میں یہ بھی کہا گیا کہ عملے کی پی پی ایز کے لیے درخواست جو ایئرلائن کی صنعت کے نمائندہ ادارے دی انٹرنیشنل ایئر اینڈ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کی سفارشات کے مطابق ہے، اسے مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ اور یہ کہ اُن پر الزام لگایا جا رہا تھا کہ اُن کی وجہ سے اُن کے پیاروں اور ملک میں وائرس پھیلا ہے۔
بی بی سی نے ایک معاہدے کی نقل حاصل کی ہے جو ماہان ایئر کے ملازمین کو دیا گیا تھا، اس میں انھیں دھمکی دی گئی کہ اگر انھوں نے اپنے خدشات کا کھلے عام اظہار کیا تو اُن کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔
بی بی سی نے ماہان ایئر اور دوسرے ممالک، جنھوں نے ایران سے آنے والی پروازوں پر پابندی کے باوجود انھیں اُترنے کی اجازت دی، سے اُن کا مؤقف جاننے کی کوشش کی ہے مگر اُنھوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔