Site icon DUNYA PAKISTAN

جاوید برکی: جرنیل کا بیٹا پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کپتان کیسے بنا؟

Share

سنہ 1962 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورۂ انگلینڈ کو کارکردگی کے اعتبار سے پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کے انتہائی مایوس کن دورے کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

اس دورے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان جاوید برکی تھے۔ پاکستانی ٹیم پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز چار صفر سے بُری طرح ہار گئی تھی۔

کھلاڑیوں کی غیرتسلی بخش کارکردگی اور فاسٹ بولرز کا ان فٹ ہوجانا شکست کے عمومی اسباب کے طور پر بیان کیے گئے لیکن اس دورے سے قبل کچھ ایسی باتیں ہوچکی تھیں جو اس دورے میں ٹیم کی کارکردگی کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔

سنہ 1961 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم جب انڈیا کے دورے سے واپس آئی تو ٹیم کے مینیجر ڈاکٹر جہانگیر خان کی رپورٹ سامنے آئی جس میں کپتان فضل محمود کا ذکر اچھے الفاظ میں نہیں تھا۔

1962 میں انگلینڈ کے دورے پر جانے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم۔ جاوید برکی کو پچھلی قطار کے وسط میں دیکھا جا سکتا ہے

اسی سال جب انگلینڈ کی ٹیم ٹیڈ ڈیکسٹر کی قیادت میں پاکستان آئی تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے امتیاز احمد کو قیادت سونپ دی۔ لیکن جب انگلینڈ کے دورے کا وقت قریب آیا تو حیران کن طور پر سینیئر کرکٹر حنیف محمد اور امتیاز احمد کی موجودگی میں قرعہ فال جاوید برکی کے نام نکلا جو 24 سال کی عمر میں ایک نوجوان کرکٹر تھے اور انھوں نے صرف آٹھ ٹیسٹ میچ کھیل رکھے تھے۔

جاوید برکی نے اپنے ایک انٹرویو میں کپتان بنائے جانے کے بارے میں کہا تھا کہ امتیاز احمد، حنیف محمد اور انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ نے میٹنگ کے لیے بلایا تھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ سلیکشن کمیٹی کے تقریباً تمام ارکان سینیئر بیوروکریٹس تھے جنھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ٹیم کی قیادت کریں گے چونکہ وہ خود ایک جونیئر سِول سرونٹ تھے لہذا ان کے لیے انکار کرنا ممکن نہ تھا۔

انھوں نے اپنے کپتان بنائے جانے کے بارے میں یہ جواز بھی پیش کیا تھا کہ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی طرف سے کھیل رہے تھے لہذا پاکستان کرکٹ بورڈ کا خیال تھا کہ ان کا یہ تجربہ ٹیم کے کام آئے گا۔

جاوید برکی کے والد لیفٹیننٹ جنرل واجد علی برکی سابق صدر ایوب خان کے قابل اعتماد ساتھی تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ جن تین فوجی جرنیلوں نے صدر سکندر مرزا سے پہلے سے تیار کردہ استعفے پر دستخط کرائے تھے ان میں جنرل واجد علی برکی بھی شامل تھے۔

اعلیٰ سطحی فون کال پر کپتانی؟

فضل محمود نے اپنی کتاب ’فرام ڈسک ٹو ڈان‘ میں جاوید برکی کو کپتانی دیے جانے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ اوپر سے آئے ہوئے احکامات کے سبب جاوید برکی کو کپتانی سونپی گئی تھی۔

فضل محمود کی کتاب ’فرام ڈسک ٹو ڈان‘

فضل محمود اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’ایک دن وہ اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ ایک فون کال آئی۔ آپریٹر نے کہا کہ فضل صاحب میں آپ کو یہ گفتگو سنوا رہا ہوں لیکن آپ خاموشی سے سنیے گا، کچھ نہیں بولیے گا، ورنہ میری نوکری چلی جائے گی۔‘

فضل محمود لکھتے ہیں کہ ’اس کے بعد اس شخص نے مجھے جو ٹیلی فونک گفتگو سنوائی وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایڈہاک کمیٹی کے اُس وقت کے سربراہ جسٹس اے آر کارنیلیئس اور کسی اعلیٰ افسر کے درمیان تھی۔ اس میں وہ اعلیٰ افسر جسٹس کارنیلیئس سے کہہ رہے تھے ہم جس کے بارے میں کہہ رہے ہیں آپ نے اسے پاکستانی ٹیم کا کپتان بنانا ہے۔

’جسٹس کارنیلیئس کا جواب تھا: سر آپ فکر نہ کریں۔‘

’آواز آئی۔ فضل محمود کا کیا ہوگا؟ جواب دیا گیا اس کا ہم خیال رکھ لیں گے۔‘

فضل محمود نے اپنی کتاب میں مزید لکھا ہے یہ گفتگو سن کر ان کا خون کھول اٹھا تھا اور وہ کئی راتوں تک نہ سو سکے۔

فضل محمود نے لکھا ہے کہ جب انگلینڈ کے دورے میں پاکستانی ٹیم پے درپے شکست سے دوچار ہوئی تو پورے ملک میں انھیں انگلینڈ بھیجنے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ اخبارات میں کالم اور مضامین لکھے گئے۔ پہلے تو کرکٹ بورڈ نے اس پر توجہ نہ دی لیکن پھر ایک دن انھیں پیغام ملا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ جسٹس کارنیلیئس ان سے ملنا چاہتے ہیں۔

تو وہ ان سے سپریم کورٹ میں ان کے چیمبر میں ملے۔ جسٹس کارنیلیئس اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس بھی تھے۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے آر کارنیلیئس کو عام طور پر ایک اصول پسند شخص کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے

فضل محمود کے مطابق جسٹس کارنیلیئس نے جب ان سے کہا کہ آپ انگلینڈ جاکر ٹیم میں شامل ہو جائیں تو وہ حیران رہ گئے کیونکہ انھوں نے ہی اعلیٰ حکام کو انھیں کرکٹ سے دور رکھنے کے بارے میں یقین دہانی کرائی تھی اور اب وہ ان سے ٹیم میں شامل ہونے کی درخواست کر رہے تھے۔

فضل محمود نے لکھا ہے کہ ’انھوں نے جواب دیا کہ وہ پریکٹس میں نہیں ہیں لہذا ان کے لیے یہ ممکن نہیں۔ جسٹس کارنیلیئس بہت شرمندہ تھے اور انھوں نے ان سے معذرت بھی کی اور کہا کہ پاکستانی ٹیم کو آپ ہزیمت سے بچالیں۔‘

فضل محمود نے اپنی کتاب میں جسٹس کارنیلیئس کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہ اس لیے بھی حیران کن ہے کہ جسٹس کارنیلیئس کو عام طور پر ایک اصول پسند شخص کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

انگلینڈ کے دورے میں کیا ہوا؟

فضل محمود نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ چوتھے ٹیسٹ میچ سے چند روز پہلے انگلینڈ پہنچے تھے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ پاکستانی ٹیم لگاتار تین ٹیسٹ ہارچکی تھی تاہم جاوید برکی کا ان کے ساتھ رویہ اچھا نہ تھا۔

فضل محمود کہتے ہیں کہ ٹرینٹ برج کے چوتھے ٹیسٹ میں انھوں نے 60 اوور تک طویل بولنگ سپیل کیا اور 130 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں، لیکن جب بھی انھوں نے جاوید برکی سے اپنی پسند کی فیلڈ سیٹ کرنے کے لیے کہا انھوں نے انکار کر دیا۔

جاوید برکی

دوسری جانب جاوید برکی نے اپنے ایک انٹرویو میں فضل محمود کو انگلینڈ بھیجے جانے کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹیم مینجمنٹ تیز بولر بشیر حیدر کو انگلینڈ بلانا چاہتی تھی۔

’لیکن فضل محمود کو بھیج دیا گیا جو اس وقت تک اپنا اثر کھو چکے تھے۔‘

جاوید برکی نے اس انٹرویو میں فضل محمود کے لیے سلو میڈیم لیگ سپنر کا لفظ استعمال کیا تھا۔

فضل محمود نے اوول کے پانچویں اور آخری ٹیسٹ میں 49 اوور کیے اور 192 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں۔ یہ وہی اوول گراؤنڈ تھا جہاں انھوں نے 1954 کے ٹیسٹ میں بارہ وکٹیں لے کر پاکستان کو تاریخی جیت سے ہمکنار کیا تھا۔

لیکن اس وقت کے اور اب کے فضل محمود میں واضح فرق آچکا تھا۔

اس بار نہ پاکستان جیتا اور نہ ہی اوول کی بالکونی کے نیچے شائقین جمع ہوئے جن کے پُرجوش نعروں کا فضل محمود ہاتھ ہلا کر جواب دیتے۔

اس طرح فضل محمود خاموشی کے ساتھ کرکٹ کی دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

Exit mobile version