‘انھوں نے میری گود میں دم توڑا۔ میں اُن کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکی۔ میں لوگوں کو مدد کے لیے کہتی رہی لیکن کسی نے میری مدد نہیں کی۔ وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔ میں نے خود اُنھیں سٹریچر پر ڈالا اور ہسپتال لے گئی لیکن انھوں نے میرے شوہر کو داخل نہیں کیا۔ کسی نے بھی ایڈمٹ نہیں کیا۔’
یہ الفاظ ہیں دلوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر فرقان الحق کی اہلیہ کے جنھیں چند دن پہلے کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔
سوشل میڈیا پر موجود ایک ٹیلی فون کال کی آڈیو ریکارڈنگ کے مطابق اتوار کو اپنی موت سے کچھ دیر پہلے تک ڈاکٹر فرقان الحق مختلف ہسپتالوں میں اپنے لیے وینٹیلیٹر تلاش کرنے کی تگ و دو میں لگے تھے۔
اِس آڈیو ریکارڈنگ میں کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ڈاکٹر فرقان الحق اپنے کسی واقف کار سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کریں تاکہ اُنھیں ہسپتال میں ایڈمٹ کیا جا سکے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ تمام ہسپتال بھرے ہوئے ہیں لہٰذا اُنھیں کہیں جگہ نہیں مل رہی ہے۔
غم سے نڈھال ڈاکٹر فرقان الحق کی بیوہ نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ ہفتے اُن کے شوہر کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد وہ دونوں سیلف آئسولیشن میں چلے گئے۔
‘جب انھیں بخار ہوا تو میں اُن کو لے کر کمرے میں بند ہو گئی تھی۔ اتوار کی صبح ڈاکٹر صاحب کو سانس لینے میں مشکل ہوئی تو اُنھوں نے ہسپتال منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے کئی ہسپتالوں سے رابطہ کیا لیکن ہمیں بتایا گیا کہ کسی ہسپتال میں جگہ نہیں ہے۔’
امن ہیلتھ کیئرسروسز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد نوید نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ بین الاقوامی پروٹوکولز کے تحت کسی بھی مریض کو ہسپتال شفٹ کرنے سے پہلے فون پر علامات کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔
‘ہمارا کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر مختلف ہسپتالوں سے منسلک ہوتا ہے جس کی بنیاد پر ہم اہلخانہ کو بیڈز اور وینٹیلیٹرز کی موجودگی یا عدم موجودگی کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں جس کی وہ خود بھی تصدیق کرسکتے ہیں۔’
عابد نوید کے مطابق اتوار کی صبح اُن کے ادارے کو ڈاکٹر فرقان الحق کی کال موصول ہوئی جس میں انھوں نے بتایا کہ وہ کورونا پازیٹیو ہیں اور انڈس ہسپتال جانا چاہتے ہیں۔
‘ہمارے عملے نے اُنھیں انڈس ہسپتال میں جگہ کی عدم موجودگی کے بارے میں بتایا اور کہا کہ وہ ہسپتال سے ایک بار پھر تصدیق کر لیں۔ اُنھوں نے دوبارہ کال کی اور بتایا کہ انڈس ہسپتال میں واقعی جگہ نہیں ہے لیکن انھوں نے ایس آئی یو ٹی میں بات کر لی ہے۔’
عابد نوید کا کہنا تھا کہ امن ہیلتھ کیئرسروسز کی ایمبولینس نے ڈاکٹر فرقان الحق کو گھر سے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) منتقل کیا لیکن ہسپتال انتظامیہ نے جگہ کی کمی کے باعث اُنھیں ایڈمٹ کرنے سے انکار کر دیا جس پر ایمبولینس اُنھیں گھر لے آئی۔
ڈاکٹر فرقان الحق کی اہلیہ نے بتایا کہ گھر پہنچنے پر اُنھوں نے ڈاکٹر فرقان کو ایک نجی ہسپتال منتقل کرنے کی درخواست کی جہاں وہ کچھ عرصہ کام کر چکے تھے۔ لیکن جب ایمبولینس اُنھیں لے کر وہاں پہنچی تو انھیں ایڈمٹ کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
‘اُس پر میرے شوہر نے کہا کہ یہ لوگ مجھے نچا رہے ہیں تم مجھے گھر لے چلو۔’
گھر پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہی ڈاکٹر فرقان الحق کی موت واقع ہو گئی۔
اِس بارے میں جب سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) سے رابطہ کیا گیا تو بی بی سی کو بتایا گیا کہ ادارہ تمام پہلوؤں سے واقعے کی تحقیقات کر رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ ڈاکٹر فرقان الحق کی اندوہناک موت سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
‘پاکستان میں صحت کا نظام پہلے ہی مخدوش ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ کورونا کے کیسز کی تعداد بڑھنے کی صورت میں ابھی سے تیاری کرے اور طبی سہولیات کی فراہمی کے اقدامات کرے۔ حکومت کو چاہیے کہ کورونا سے متعلق طبی سہولیات کا ڈیٹا بیس تیار کرے جس میں ہسپتالوں کے نام اور اُن میں موجود بستروں اور وینٹیلیٹرز کی موجودگی کے بارے میں معلومات موجود ہوں۔’
ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق ایمرجنسی کی صورت میں اکثر مریض اور اہلخانہ ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال چکر لگاتے رہتے ہیں اور اِسی دوران مریض وفات پا جاتا ہے۔
‘ایک جامع اور مربوط ڈیٹا بیس کی موجودگی میں کسی بھی ہنگامی صورتحال میں مریض اور اُس کے اہلخانہ وقت ضائع کیے بغیر ہسپتال پہنچ سکیں گے اور مریض کو بستر یا وینٹیلیٹر کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہسپتال سے واپس نہیں جانا پڑے گا۔’
سوشل میڈیا پر ہی ایک اور ٹیلی فون کال میں ڈاکٹر فرقان الحق اور اُن کی اہلیہ کو اپنی ایک رشتہ دار سے بات کرتے سُنا جا سکتا ہے۔ یہ کال اُن کے انتقال سے ایک دن پہلے کی ہے۔
اِس آڈیو ریکارڈنگ میں ڈاکٹر فرقان کی بھتیجی اصرار کر رہی ہیں کہ وہ ہسپتال کی ایمرجنسی میں جائیں تاکہ وہاں ڈاکٹر اُن کا معائنہ کر کے فیصلہ کریں کہ اُنھیں ہسپتال میں داخل کیا جائے یا گھر واپس بھیج دیا جائے۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ جب ایمبولینس اُن کے گھر آئے گی تو تمام محلہ جمع ہو جائے گا اور اُن کے اہلخانہ کو آئسولیٹ کر دیا جائے گا۔
کال میں وہ کہتے سُنائی دے رہے ہیں کہ فی الحال وہ انتظار کرنا چاہتے ہیں کہ اُن کے علامات بہتر ہو جائیں۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق ڈاکٹر فرقان الحق کی موت منفی معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتی ہے۔
‘ڈاکٹر فرقان کی طرح اور بھی بہت سے لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہ اور اُن کی اہلیہ دونوں پازیٹیو تھے لہٰذا فکرمند تھے کہ اگر وہ دونوں ہسپتال چلے گئے تو محلے والے کیا کہیں گے اور اُن کی بیٹیوں کی دیکھ بھال کون کرے گا۔
ضرورت اِس بات کی ہے کہ معاشرہ اِس معاملے میں اپنا رویہ تبدیل کرے تاکہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی مدد کی جا سکے۔’
ماہرینِ صحت کے مطابق کورونا وائرس کے باعث ملک بھر کی طرح کراچی کے ہسپتالوں پر بھی شدید دباؤ ہے۔ اِس وقت جناح پوسٹ گریجوٹ میڈیکل سینٹر، سول ہسپتال، سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ، اوجھا انسٹیٹیوٹ، انڈس ہسپتال اور آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کورونا کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔
طبی عملے کے مطابق ہسپتالوں اور فیلڈ ہاسپٹلز میں بیڈز اور وینٹیلیٹرز کی شدید کمی ہے جبکہ صوبائی محکمہِ صحت کے مطابق سندھ کے مختلف سرکاری ہسپتالوں میں اِس وقت دو سو چوبیس وینٹیلیٹرز موجود ہیں۔