Site icon DUNYA PAKISTAN

قومی اسمبلی کا غیرروایتی اور بے سود اجلاس

Share

صحافیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ Jack of all Tradesلیکن Master of Noneہوا کرتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ وہ زندگی کے ہر شعبے کی بابت تھوڑی شدھ بدھ رکھتے ہیں مگر کسی ایک شعبے کے بھی ’’ماہر‘‘ نہیں ہوتے۔ وطنِ عزیز میں اگرچہ کئی برسوں سے یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ ہمارے میڈیا نے اپنے فرائض بھلادینے کے بعد فقط ’’لفافہ وصولی‘‘ میں مہارت حاصل کی ہے۔اپنی اجتماعی ساکھ لٹانے کے بعد عمر کے آخری حصے میں واقعتا پچھتارہا ہوں کہ بہت اشتیاق سے نوجوانی ہی میں کل وقتی صحافت کا انتخاب کیوں کیا۔ اس پیشے سے جڑی اذیت ومشقت کو مسلسل برداشت کرنے کے باوجود اس سے وابستہ کیوں رہا۔

اپنی ملامت کو بھلاتے ہوئے فی الوقت انتہائی ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کرنے کو مجبور ہوں کہ منتخب پارلیمان کے کردار اور اس کے ذریعے ہوئی قانون سازی کے عمل کا میں ایک ’’جید ماہر‘‘ہوں۔ آٹھ سال کے طویل مارشل لاء کے بعد جب 1985میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے پارلیمان بحال ہوئی تو میں نے اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار کے لئے ’’پریس گیلری‘‘ والا کالم لکھنا شروع کیا تھا۔ یہ سلسلہ اس برس سے آج تک قائم ہوئی تمام اسمبلیوں کے بارے میں برقرار رہا۔ ان دنوں بھی جب قومی اسمبلی یا سینٹ کا اجلاس ہوتا ہے تو میں گوشہ نشینی ترک کرتے ہوئے پارلیمان جاتا ہوں اور وہاں سے لوٹ کر The Nationکے لئے پریس گیلری لکھتا ہوں۔پارلیمان سے میری وابستگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میری صحافت کی بقاء درحقیقت پارلیمان ہی پر منحصر ہے۔

پارلیمانی کارروائی پر اپنے رزق کا انحصار ہونے کے باوجود میں ایمان داری سے یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوں کہ آئندہ ہفتے کے آغاز میں قومی اسمبلی کا اجلاس جس انداز میں بلانے کا فیصلہ ہوا اس نے مجھے بہت مایوس کیا۔ ہمارے ایوان میں تعداد کے اعتبار سے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت- پاکستان مسلم لیگ (نون)- یہ اجلاس بلانے کو بے چین تھی۔قومی اسمبلی کے اجلاس کو یقینی بنانے کے لئے اس نے سپیکرکے دفتر میں ایک ریکوزیشن بھی جمع کروارکھی تھی۔آئین کا تقاضہ ہے کہ جب قواعد کے حوالے سے درست ٹھہری ریکوزیشن سپیکر کے دفتر میں باقاعدہ طورپر وصول ہوجائے تو 15دنوں کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا لازمی ہوگا۔

عمران حکومت کی خواہش تھی کہ اپوزیشن یہ اجلاس بلانے پر اصرار نہ کرے۔ریکوزیشن رضاکارانہ طورپر واپس لینے کو آمادہ ہوجائے۔ اپوزیشن رضا مند نہ ہوئی تو حکومت کی جانب سے تجویز آئی کہ قومی اسمبلی کا اجلاس انٹرنیٹ کی بدولت مہیا ہوئی Appsکے استعمال کے ذریعے ’’منعقد‘‘ کرلیا جائے۔

برطانیہ کی پارلیمان جسے دُنیا بھر کی پارلیمانوں کی ’’ماں‘‘ کہا جاتا ہے ان دنوں اسی نوعیت کا اجلاس منعقد کررہی ہے۔اس کے تمام اراکین مگر گھروں ہی میں بیٹھے نہیں رہتے۔ یہ انتظام ہوا ہے کہ وزراء اور اراکین کی باہمی مشاورت سے طے ہوئی کم از کم تعداد سماجی دوری کے تقاضوں کی پابندی کرتے ہوئے ایوان میں موجود رہے۔دیگر اراکین اپنے گھروں یا دفاتر میں بیٹھے وہاں ہوئی کارروائیوں کو براہِ راست دیکھتے رہیں۔وہ کارروائی میں حصہ ڈالنا چاہیں تو کمپیوٹر کے ذریعے اپنے خیالات کے اظہار کی سہولت استعمال کرسکتے ہیں۔

برطانوی پارلیمان نے اپنا اجلاس جاری رکھنے کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا اسے Hybridکہا جاتا ہے۔Real Timeاور Virtualکا اشتراک۔پارلیمان کی صدیوں تک پھیلی روایت کے تناظر میں یہ انتظام ’’آدھا تیتر آدھابٹیر‘‘ نظر آرہا ہے۔کرونا نے مگر زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق قدیم روایات کو تہہ وبالا کردیا ہے۔گھروں میں بیٹھ کر کام کرنے کا رواج بڑھ رہا ہے۔برطانوی پارلیمان کو بھی درمیانی راہ نکالنا پڑی ہے۔

بہتر یہی تھا کہ ہماری قومی اسمبلی بھی اپنا اجلاس منعقد کرنے کے لئے برطانوی پارلیمان کا اختیار کردہ Hybridبندوست اپناتی۔ یہ بندوبست شاید ہمارے ہاں ان دنوں جاری ’’جمہوری نظام‘‘ کا حقیقی نمائندہ بھی ہوتا۔ ہماری پارلیمان عمران حکومت کے قیام کے بعد شاعروں کے محبوب کی کمر کی مانند ’’کہیں ہے کہ نہیں ہے‘‘ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ریاستی امور کے بارے میں کلیدی فیصلے غیر منتخب اداروں اور مشیروں کی جانب سے ہوتے ہیں۔قومی اسمبلی میں محض تقاریر ہوتی ہیں۔ایک دوسرے پر کیچڑاُچھالا جاتا ہے یا نیب کی حراست میں موجود اراکین کی ایوان میں موجودگی کے لئے پروڈکشن آرڈر کی فریاد ہوتی ہے۔

بہرحال طے یہ ہوا ہے کہ پیر کے روز جو اجلاس ہوگا اس کا آغاز وقفۂ سوالات سے نہیں ہوگا۔ کوئی رکن تحریک استحقاق جمع نہیں کروائے گا۔تحریک التواء کے ذریعے کسی اہم ترین مسئلہ پر بھی حکومت سے جواب نہیں مانگا جائے گا۔حکومت کی توجہ طلب کرنے والے معاملات بھی نوٹس کے ذ ریعے نہیں اٹھائے جائیں گے۔تین گھنٹے کے اجلاس میں کرونا کے موضوع پر فقط تقاریر ہوں گی۔

پیر کے روز بلائے قومی اسمبلی کے اجلاس کے لئے جو طریقہ کار طے ہوا ہے اس پر غور کرتے ہوئے ہم بآسانی یہ طے کرسکتے ہیں کہ اس روز روایتی معنوں میں کسی پارلیمان کا اجلاس نہیں ہوگا۔عوام کے حقیقی نمائندے ہونے کے دعوے دار درحقیقت ایک تقریری مقابلے کے لئے جمع ہوں گے۔کرونا اس تقریر ی مقابلے کا عنوان ہوگا۔

میں ہرگز سمجھ نہیں پایا کہ کرونا کے موضوع پر فقط تقریر کرتے ہوئے ’’ہمارے نمائندے‘‘ اس وبا ء کے بارے میں وہ کونسے نئے خیالات وتصورات ہمارے سامنے لاسکتے ہیں جو دُنیا بھر میں پھیلے صحت عامہ کے مستند ماہرین ابھی تک ہمارے سامنے نہیں لاپائے ہیں۔قومی اسمبلی سے رجوع کئے بغیر عمران حکومت نے کرونا پرنگاہ رکھنے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی ادارہ بنادیا۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف اس ادارے کے اجلاس میں شریک ہوتے رہے۔ ان دنوں ڈپٹی وزیر اعظم نظر آتے اسد عمر صاحب روزانہ کی بنیاد پر اس ادارے کے اجلاس کی صدارت کرتے ہیں۔ وزرائے ا علیٰ کمپیوٹر کے ذریعے اس کے اجلاس میں ’’شامل ‘‘ ہوتے ہیں۔

اجلاس کے آغاز میں ملک بھر سے آئے وہ اعدادوشمار بیان ہوتے ہیں جن کے ذریعے علم ہوجاتا ہے کہ کتنے افراد کرونا کی زد میں آئے۔ اس مرض سے اب تک صحت یاب ہونے والوں کی تعداد کیا تھی۔کتنے بدنصیب جانبر نہ ہوپائے۔اس تعداد کو ذہن میں رکھتے ہوئے Hot Spotsڈھونڈنے کی کوشش ہوتی ہے۔ان مسائل کی نشاندہی بھی ہوجاتی ہے جو مختلف شہروں کے ہسپتالوں کو درپیش ہیں۔وفاقی حکومت کے NDMAجیسے ادارے اس ضمن میں مطلوبہ سہولتیں پہنچانے کا اہتمام کرتے ہیں۔عمومی صورتحال پر غور کے بعد یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ لاک ڈائون جاری رکھا جائے یا نہیں۔اگر اسے جاری رکھنا ہے تو وہ کونسے طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں جو کاروبار کو بتدریج کھولنے کی راہ نکالیں۔کرونا کے تناظر میں مذکورہ ادارہ یقینا حتمی فیصلہ ساز ادارہ بن چکا ہے۔اس ادارے کے ہوتے ہوئے قومی اسمبلی میں فقط تقاریر کے ذریعے ’’پارلیمانی بالادستی‘‘ کا ڈھونگ رچانا مجھے انتہائی بچگانہ فعل نظر آیا ہے۔ہماری اپوزیشن میں پچاس کے قریب ایسے سیاستدان ہیں جو 1990کی دہائی سے قومی اسمبلی کے لئے اکثر منتخب ہوتے رہے ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے ہرگز قاصر ہوں کہ ا یسے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ اراکین پارلیمان کرونا پر ’’تقریری مقابلے‘‘ کی مانند نظر آتے قومی اسمبلی کے لئے رضامند کیوں ہوئے۔

قومی اسمبلی کا بنیادی فریضہ تحریری صورت میں باقاعدہ اٹھائے سوالات کے ذریعے حکومت کو اہم ترین موضوعات پراطلاعات فراہم کرنے کو مجبور کرنا ہے۔اسی باعث ہر اجلاس کا آغاز ہمیشہ وقفۂ سوالات سے ہوتا ہے۔اس کا دورانیہ کم از کم ایک گھنٹہ ہوا کرتا ہے۔صحافتی اعتبار سے ’’اصل خبر‘‘ ہمیں اس وقفے کے دوران ہوئے سوالات اور ان کے جوابات کے ذریعے ملتی ہے۔’’پارلیمان کے وقار‘‘ پر خلوص نیت سے ایمان رکھنے والا کوئی رکن اسمبلی سوالات اٹھانے کے اس حق سے ٹھوس اور معقول وجوہات کے بغیر دستبردار ہونہیں سکتا۔ہماری ’’مستند اور تجربہ کار‘‘ اپوزیشن نے لیکن اس ضمن میں فیاضی برتی۔ یہ فیاضی جنگ کے میدان میں اُترے بغیر ہتھیار ڈال دینے کے مترادف ہے۔

وقفۂ سوالات کے بغیر ہم ’’اپنے نمائندوں‘‘ کی وساطت سے ہرگز یہ جان نہیں پائیں گے کہ پاکستان کرونا کی زد میں کیوں اور کیسے آیا۔ نظر بظاہر ایران سے آئے زائرین اور تبلیغی جماعت کے اجتماع کرونا کو پاکستان میں متعارف کروانے کا ذمہ دار تصور کئے جارہے ہیں۔’’ہمارے نمائندوں‘‘ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ مناسب سوالات کے ذریعے اس تصور سے متعلق حقائق کا کھوج لگاتے۔ حکومت کو یہ بیان کرنے کو مجبور کرتے کہ پاک-ایران سرحد پر موجود تفتان والی راہداری کے ذریعے کرونا کی زد میں آئے زائرین کی آمد کا سلسلہ کب شروع ہوا۔ ان کی نگہبانی کے انتظامات بروقت میسر ہوئے یا نہیں۔مذکورہ انتظامات کا معیار کیا تھا۔ ایسے ہی سوالات تبلیغی جماعت کے اجتماع کے بارے میں اٹھانا بھی لازمی ہے۔ان تمام سوالات سے آغاز کئے بغیر قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے ٹھوس اعدادوشمار پر مشتمل جوابات کی عدم موجودگی میں ہوئی تقاریر ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہوں گی۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کے علاوہ پیر کے روز بلایا اجلاس میری رائے میں مزید کچھ فراہم کرتا نظر نہیں آرہا۔

Exit mobile version