پاکستان کی صارف مارکیٹ یعنی کنزیومر مارکیٹ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ صرف اور صرف ایک مافیا ہے جس نے مارکیٹ کو اپنی مرضی سے زیردست رکھا ہوا ہے۔ گندم میں کوئی مافیا نہیں‘ صرف ذخیرہ اندوز ہیں‘ جو اپنے اپنے حساب سے اوروقت سے مارکیٹ کی صورتحال کے پیش نظر چھکا لگالیتے ہیں۔ طلب اور رسد کاتوازن بگڑے تو گندم ذخیرہ کرنے والے مال بنا لیتے ہیں۔ وہ بھی اس صورت میں کہ حکومت کی گرفت کمزورہو اور سرکاری ذخائر میں کمی ہو جائے۔ بصورت دیگر حال یہ ہوتا ہے کہ اگر گندم کی فصل اچھی نہ ہوتو سرکار گندم کی پیداوار تحصیلداروں اور پٹواریوں کے ذریعے ڈنڈے کے زور پر سرکاری قیمت پر خرید لیتی ہے اور اگر صورتحال الٹ ہو، یعنی فصل بھرپور ہو جائے تو گندم ٹکے ٹوکری ہو جاتی ہے اورکوئی خریدار اسے سرکاری ریٹ پر اٹھانے کوتیار نہیں ہوتا۔ ایسے میں مل مالکان اور بیوپاری کاشتکار کو لوٹ لیتے ہیں اور گندم ذخیرہ کرلیتے ہیں‘ آگے ان کی قسمت کہ کیا ریٹ ملے۔ پرائیویٹ طور پر گندم خریدنے والے اور فلور مل مالکان تبھی لمبا مال کماتے ہیں جب مارکیٹ میں سرکاری نرخ والی گندم دستیاب نہ ہو۔ اس حوالے سے آپ گندم ذخیرہ کرنے والوں کو مافیا قرار نہیں دے سکتے کہ وہ مارکیٹ کو ازخود کنٹرول نہیں کرتے بلکہ حکومتی نااہلی اور نالائقی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ تو ہرکوئی کر سکتا ہے۔ یہی حال چاول والوں کا ہے‘ بلکہ ان کا حال شاید سب سے پتلا ہے۔ چاول کی برآمد کا معاملہ بڑا غیریقینی سا ہے۔ اگر مختلف عوامل کے زیراثر ایکسپورٹ بڑھ جائے تو ملکی چاول کی قیمت تھوڑی بہتر ہو جاتی ہے اور اگر معاملہ الٹ ہوجائے یعنی برآمد کم ہو جائے یا رک جائے اور چاول کی فصل اچھی ہوتو لوکل مارکیٹ میں چاول کی قیمت گر جاتی ہے۔ چار چھ سال پہلے تو یہ حال تھا کہ تقریباً ساٹھ ستر فیصد رائس ملز بینکوں کی ڈیفالٹر ہو گئی تھیں۔ چاول کی اندرونی یا بیرونی مارکیٹ کو کنٹرول کرنا چاول کے بیوپاری یارائس ملز مالکان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ مارکیٹ فورسز ہیں جوچاول کی قیمت کا تعین کرتی ہیں۔ پاکستان کی برآمدات میں سب سے بڑا شعبہ ٹیکسٹائل ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی نمائندہ تنظیم اپٹما ہے۔ یہ کسی صنعتی سیکٹر کی سب سے طاقتور اور تگڑی تنظیم ہے لیکن اپنی تمام ترقوت اور طاقت کے باوجود یہ ٹیکسٹائل مارکیٹ کو کسی صورت کنٹرول نہیں کر سکتی؛ البتہ یہ ضرور ہے کہ مندی کی صورتحال میں یہ گورنمنٹ سے مختلف امدادی پیکیجز اور رعایتیں لے کر کسی حد تک اپنی انڈسٹری کا دال دلیا چلا لیتی ہے اور زرمبادلہ کے سب سے بڑے ذریعے یعنی ٹیکسٹائل سیکٹر کو خراب صورتحال میں ری بیٹ، ڈیوٹیز میں کمی، ایکسپورٹ پر ریفنڈ وغیرہ کے ذریعے وینٹی لیٹر پر لگا کر کام چلا لیتی ہے اور اس طرح پاکستان کی سب سے بڑی صنعت اور سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والا یہ سیکٹر اچھے برے دنوں میں چلتا رہتا ہے؛ تاہم ایک بات ذہن میں رہے کہ ایکسپورٹ کا دارومدار عالمی مارکیٹ کے پہلوانوں پر ہے۔ یادرہے کہ کپاس کا ریٹ بھی نیویارک میں کھلتا ہے اور روئی اور دھاگے کی فیوچر مارکیٹ کا فیصلہ بھی نیویارک میں ہوتا ہے۔ اوپر سے اس مارکیٹ کے ریٹ میں عالمی سطح پر کپاس کی پیداوار کا عمل دخل بہت ہی زیادہ ہے۔ اگر دنیا بھر میں کپاس کی فصل بمپر ہو جائے تو ہر جگہ کپاس سے لے کر روئی اور دھاگے تک کے ریٹ نیچے گر جاتے ہیں۔ اس سیکٹر کو آپ کسی صورت بھی مافیا نہیں کہہ سکتے کہ یہ مارکیٹ کو محض اپنی مرضی سے کنٹرول نہیں کر سکتے۔
یہی حال دیگر اجناس اور ضروریات زندگی کا ہے۔ سبزی کا حال تو سب سے برا ہے۔ یہاں سب سے زیادہ لوٹ مار آڑھتی اور دکاندار کرتا ہے۔ یہ چوروں اور ڈکیتوں کا گروہ ہے جو کاشتکار کو لوٹنے پر لگا ہوا ہے‘ لیکن یہ سب انفرادی لوٹ مار کے نمائندے ہیں۔ کاشتکار سے بینگن پانچ روپے کلو خرید کر آڑھتی دکاندار کو اسی روپے کے پانچ کلو دیتا ہے یعنی سولہ روپے کلو۔ اور آگے دکاندار گاہک کویہی بینگن ستر روپے کلو بیچتا ہے۔ قارئین! میں نے بینگن کی مثال اس لیے دی کہ دو چار ماہ پہلے میں اوپر بیان کردہ قیمتوں کا منڈی میں جا کر خود جائزہ لے چکا ہوں۔ ساری سبزیوں میں یہی صورتحال ہے لیکن کبھی کبھار معاملہ الٹ بھی ہو جاتا ہے۔ کبھی آلو ساٹھ روپے کلو ہوتے ہیں تو کبھی چھ روپے کلو۔ کبھی ٹماٹر دو سو روپے فی کلو ہوتا ہے تو کبھی دس روپے۔ پیاز کا بھی یہی حال ہے۔ سبزی کے ریٹ کا بھی زیادہ تعلق طلب اور رسد سے ہے۔ آج کل رمضان کی وجہ سے لیموں کا ریٹ چھ سو روپے کلو ہے اور ابھی لیموں کی فصل بھی پوری طرح تیار ہو کر مارکیٹ میں نہیں آئی۔ رمضان کے بعد یہی لیموں سو روپے کلو کے لگ بھگ ہو جائے گا۔ میرے خیال میں پاکستان میں مافیا صرف اور صرف ایک ہے اور وہ ہے شوگر مافیا۔ اس مافیا نے سارے کے سارے عوامل کو اپنی مرضی سے ترتیب دیا ہوا ہے۔ ایک زمانے میں شوگر ملز لگانے کے لئے اس کا شوگر کین زون میں ہونا ضروری تھا یا وہ گنا اس زون سے باہر لانے کا پابند تھا۔ پورے جنوبی پنجاب میں تب کپاس کاشت ہوتی تھی اور اس پورے علاقے میں شاید سات شوگر ملز تھیں۔ پنجاب کے آخری سرے پر صادق آباد کے پاس بخش آباد میں یونائیٹڈ شوگر ملز، خان پور میں حئی سنز، بہاولپور میں اشرف شوگر ملز، چشتیاں میں آدم شوگر ملز، لیہ میں لیہ شوگر ملز، بھکر میں فیکٹو شوگر ملز اور کمالیہ میں کمالیہ شوگر ملز۔ پھر چوہدریوں نے خانیوال کے قریب پنجاب شوگر ملز لگا لی۔ میاں صاحبان نے اتفاق شوگر ملز اور کشمیر شوگر ملز لگائیں۔ مظفر گڑھ میں تین چار ملز لگ گئیں۔ حیم یار خان میں چار چھ شوگر ملز لگ گئیں۔ میاں صاحبان اپنی گوجرہ، ننکانہ صاحب اور ساہیوال میں لگی ہوئی شوگر ملز اکھاڑ کر رحیم یار خان اور علی پور (مظفر گڑھ) لے آئے۔ شوگر ملز نے ساری کاٹن بیلٹ کا رگڑا نکال دیا۔ شوگر ملز کو اندھا دھند لائسنس جاری کیے گئے۔ ایک ایک منظور شدہ ملز کے لائسنس پر ایک ایک اور یونٹ لگا لیا گیا۔ تاندلیانوالہ میں لگی ہوئی شوگر ملز کے دو یونٹ اسی کھاتے میں مظفر گڑھ میں لگ گئے۔ تین ہزار ٹن کرشنگ کی استعداد والے یونٹ اٹھائیس ہزار ٹن یومیہ پر چلے گئے۔ اللہ جانے اس کی اجازت بھی لی گئی یا سب کچھ دھکے سے کر لیا گیا۔ لوٹ مار اس کے علاوہ تھی۔ ایکسپورٹ پر سبسڈی لی گئی اور ایکسپورٹ کے نتیجے میں ملک میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے چینی دوگنے ریٹ پر فروخت کی گئی۔ جب دل کیا سب نے مل کر ملز بند کر دیں اور گنے کا ریٹ گرا لیا۔ دو دو سال تک کاشتکاروں کے پیسے دبائے رکھے اور اس کے بعد ان کو پیسوں کے عوض چینی دے دی گئی اور ملز کے گیٹ پر وہی چینی دوبارہ اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے اونے پونے نقد خرید لی گئی‘ حتیٰ کہ یہ بھی ہوا کہ ملک میں چینی سالانہ ضروریات سے زیادہ بھی تھی تو قیمت میں من مانا اضافہ کرکے عوام کی جیبوں میں سے اربوں روپے نکال لیے گئے۔ مافیا یہ ہوتا ہے‘ کہ حالات کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ لے۔ بازو مروڑ کر اپنی مرضی مسلط کرے۔ مارکیٹ کو کنٹرول کرے۔ طلب اور رسد سے قطع نظر قیمت کا تعین کرے اور حکومت پالیسیاں اپنی مرضی سے بنوائے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اس ملک میں صرف ایک ہی Commodity مافیا ہے اور وہ شوگر مافیا ہے۔ پانی کی کمی والے ملک میں (جو روز بروز اور زیادہ ہوتی جائے گی) گنے کی کاشت کا کوئی منطقی جواز ہی نہیں۔ ویسے بھی ہمارا موسم گنے میں سے چینی کی ریکوری کے حوالے سے مناسب نہیں ہے۔ پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ نئی شوگر ملز کے قیام پر مکمل پابندی لگا دی جائے، کسی شوگر ملز کی شفٹنگ اور کرشنگ کی استعداد میں اضافہ ممنوع قرار دیا جائے اور بتدریج حالیہ شوگر ملز کو بیرون ملک سے خام چینی (Raw sugar) درآمد کرکے اس کی پراسیسنگ کے لیے استعمال کیا جائے اور جنوبی پنجاب میں کپاس کے کاشتکاروں کو اچھے بیج کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فروغ حاصل ہو جو ہمارا زرمبادلہ حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس سال ہمیں ملکی ضروریات پورا کرنے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کی روئی درآمد کرنا پڑے گی۔