لاک ڈاؤن جنسی بیماریوں کو ختم کرنے کا نادر موقع ہے
کوئی پارٹیاں نہیں، کوئی کھینچا تانی نہیں، کوئی نئے جنسی ساتھی نہیں۔
سیلف آئسولیشن یا خود ساختہ تنہائی کی وجہ سے لوگوں کی جنسی زندگی میں بڑی تبدیلی آئی ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ کیونکہ آج کل نئے جنسی ساتھیوں کے ساتھ تعلقات نہیں بنائے جا رہے، اس لیے یہ جنسی عمل کے ذریعے منتقل ہونے والی متعدی بیماریوں (ایس ٹی آئی) کو مستقل طور پر کم کرنے کا زندگی میں ایک مرتبہ ہی آنے والا موقع ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گھر میں لاک ڈاؤن کے دوران ایس ٹی آئی ٹیسٹ کروانا ’گیم چینجر‘ ہو سکتا ہے، کیونکہ جو لوگ لاک ڈاؤن کے قوانین کی پابندی کر رہے ہیں وہ ایک سے زیادہ لوگوں کے ساتھ سیکس نہیں کر رہے اور اس طرح انفیکشن بھی نہیں پھیل رہا۔
برٹش ایسوسی ایشن فار سیکشوئل ہیلتھ اینڈ ایچ آئی وی کے صدر ڈاکٹر جان مکسورلے نے ریڈیو 1 نیوزبیٹ کو بتایا ’اگر ہم سب کے انفیکشنز کا ٹیسٹ اور علاج کریں، تو یہ آگے بڑھنے کے لیے ایک گیم چینجر ہو گا کیونکہ لوگ آہستہ آہستہ معمول کی طرف بڑھ رہے ہیں۔’
وہ اور جنسی صحت کے دوسرے ماہرین چاہتے ہیں کہ لوگوں کے اب ٹیسٹ کیے جائیں، اگر ان میں کوئی علامت نہیں ہے تو پھر بھی۔
اب ٹیسٹ کیوں؟
کورونا وائرس کی وجہ سے برطانیہ میں برطانیہ میں جنسی صحت کی 54 فیصد خدمات بند ہو گئی ہیں، اور 38 فیصد جنسی صحت کے عملے کو نیشنل ہیلتھ سروس کے دوسرے حصوں میں بھیج دیا گیا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگوں کو کلینک جانے کے بجائے ان بیماریوں سے متعلق مشورے فون پر ہی مل رہے ہیں، تشخیص بھی یہیں ہو رہی ہے اور کچھ معاملات میں تو علاج بھی فون ہی پر ہو رہا ہے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے گھر پر مفت ٹیسٹنگ کرنے والی کٹس مہیا کرنے والی تنظیم ایس ایچ:24 کے ساتھ منسلک جسٹن ہاربوٹل کہتے ہیں کہ ’اگر لوگ گھر پر ٹیسٹنگ شروع رکھیں اور اس وقفے کے دوران ہر کسی کا ٹیسٹ ہو جائے تو یہ واقعی زندگی میں ایک مرتبہ ہونے والا واقعہ ہو گا۔ میرا خیال نہیں کہ ایچ آئی وی کی وبا کے شروع میں بھی آپ کو ایسا صاف ستھرا موقع میسر آیا ہو جہاں اجتماعی طور پر بطور ایک آبادی، لوگوں نے نئے پارٹنرز کے ساتھ سیکس بند کر رکھا ہو۔‘
ایچ آئی وی کی شرح کس طرح متاثر ہو سکتی ہے
زیادہ امکان یہ ہے کہ کوئی اس وقت ایچ آئی وی وائرس منتقل کر سکتا ہے جب اسے یہ وائرس ابھی لگا ہی ہو کیونکہ اس وقت یہ جسم میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران مثبت ایچ آئی وی تشخیص کا مطلب ہے کہ اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ کوئی شخص دوسرے افراد کے ساتھ ان کے سب سے زیادہ انفیکشن کے دور میں سیکس نہیں کرے گا۔ اس کے بعد وہ علاج شروع کر کے اپنے جسم میں وائرس کی سطح اس حد تک لا سکتے ہیں جہاں وہ نظر نہ آئیں، مطلب یہ کہ اب یہ دوسروں کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔
لندن کے ڈین سٹریٹ کلینک، جہاں برطانیہ کے ہم جنس پرست افراد میں ایک چوتھائی ایچ آئی وی کے کیسز کی تشخیص کی جاتی ہے، کے ڈاکٹر گیری وہٹلاک کہتے ہیں کہ ‘ہمارے خیال میں ہو سکتا ہے کہ کم سے کم لوگ ہوں جو کہ بڑے پیمانے پر بیماری پھیلانے والے ہوں۔’
‘اگر وہ علاج شروع کر دیں، یا بیماری نہ پھیلانے والے ہو جائیں، تو وہ کسی کو منتقل نہیں کر سکتے، اس لیے یہ ہمارے لیے پوری نسل میں ایک بار آنے والا موقع ہے کہ ایچ آئی وی کے زیادہ خطرے کی زد میں موجود افراد کو ٹیسٹ کیا جائے۔’
لاک ڈاؤن کے دوران ڈین سٹریٹ کلینک میں پی ای پی (وہ دوا جو ایچ آئی وی سے متاثرہ شخص کے ساتھ تعلق کے فوراً بعد لی جاتی ہے تاکہ انفیکشن نہ لگ جائے) کے نسخے کے لیے آنے والے لوگوں کی اوسط تعداد ہفتے میں 50 سے کم ہو کر 10 سے بھی کم رہ گئی ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران تشخیص کی گئی ایس ٹی آئی کا علاج ابھی بھی ماہرین کو ہی کرنا ہے۔ صرف کلیمیڈیا (پیشاب کی نالی میں سوزش پید کرنے والی بیماری) کا علاج ڈاک کے ذریعے بھیجی گئی ادویات کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر مکسورلے امید کرتے ہیں کہ لاک ڈاؤن ’سیفلس‘ جیسی بیماری کو ’تاریخ کی کتابوں‘ تک محدود رکھنے کا ایک موقع بھی ہے۔
’اس سال کے آغاز میں سیفلس ان حدوں تک پہنچ چکی تھی جن کو ہم نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے نہیں دیکھا تھا۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ آن لائن مدد سے ان لوگوں کی بھی مدد ہو گی جو جنسی صحت کے کلینکس سے دور رہتے ہیں، یا وہ لوگ جو پہلے بہت مصروف تھے اور ڈاکٹر سے وقت نہیں لے پائے تھے۔
اگرچہ ڈاکٹر وہٹلاک سمجھتے ہیں کہ ہوم ٹیسٹنگ سے این ایچ ایس کی سروسز کچھ حد تک زیادہ بہتر ہو سکتی ہیں، لیکن وہ کچھ لوگوں کے لیے سروسز کلینک سے باہر لے جانے کے بارے میں بھی محتاط ہیں۔
’ہوم ٹیسٹنگ میں مشکل یہ ہے کہ آپ شاید مزید ٹیسٹنگ کا موقع ضائع کر دیں۔ مثال کے طور پر گونوریا (سوزاک) کے متعلق ایک تشویش یہ ہے کہ وہ مزاحمت کرتا ہے۔‘
’کئی سروسز وہ ہیں جو ہم اس وقت دیتے ہیں جب لوگ ہمارے پاس آتے ہیں، جیسا کہ رسک میں کمی کا مشورہ، آمنے سامنے بیٹھ کر مشورہ حاصل کرنا، اور ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جب ہم اس سمت جا رہے ہوں تو اسے نہ بھول جائیں۔’
ہر کوئی چاہتا ہے کہ ‘کام جاری رہے’
جنسی صحت کے ماہرین بھی چاہتے ہیں کہ برطانیہ میں لوگ لاک ڈاؤن کے بعد جلد ہی اپنی جنسی زندگیاں واپس حاصل کر پائیں۔
جسٹن کہتے ہیں کہ ‘ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس کے بعد لوگ کچھ ‘پاگل’ سے ہو جائیں گے جو کہ کافی حد تک معقول ردِ عمل ہو گا۔
‘اگر آپ مہینوں انتظار کرتے رہیں، تو اجتماعی طور پر سبھی سیکس کی تلاش میں نکلیں گے اور جذبات کا کچھ اظہار کریں گے۔’
لیکن ایسا کرنے سے پہلے دونوں ڈاکٹر، گیری اور جان، کہتے ہیں کہ ٹیسٹنگ اہم ہے۔
جان کہتے ہیں کہ ‘یہ لوگوں کے لیے نارمل نہیں ہے کہ وہ گھروں میں بند رہیں۔ ایک پر مسرت، محفوظ اور صحت مند جنسی زندگی زندگی کا ایک حصہ ہے۔’
‘اب وقت ہے کہ سیکس کے متعلق سوچا جائے، مستقبل کے متعلق سوچا جائے۔ کیا آپ نے حال ہی میں ٹیسٹ کروایا ہے؟ اگر نہیں، تو شاید اب وقت ہے کہ یہ کروا لیا جائے۔’
کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو کچھ ہے؟
اگر آپ کو لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران آپ کو ایس ٹی آئی لگ گئی ہے، تو مشورہ بہت سیدھا سادہ ہے۔
گیری کہتے ہیں کہ پھر ‘آن لائن ٹیسٹنگ تلاش کریں، اگر آپ ایسا کچھ کرنا چاہتے ہیں تو۔’
وہ یہ بھی لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ برطانیہ کے کئی حصوں میں دوبدو ملاقاتوں کے لیے بھی کلینکس کھلے ہوئے ہیں۔
‘حکومت لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کو طبی نگہداشت حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے، سو آپ کو مدد حاصل کرنے کے لیے سفر کی اجازت ہے۔’
‘یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو پتہ رہے کہ ہم ہیں اور ہم سروسز مہیا کر رہے ہیں۔’