پاکستان

کورونا وائرس: ملک میں نافذ لاک ڈاؤن میں نرمی پر طبی برادری منقسم

Share

اسلام آباد: جہاں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے پابندیوں میں نرمی کی تجاویز کو حتمی شکل دے دی ہے وہیں طبی برادری وفاقی حکومت کی تجویز پر منقسم نظر آتی ہے۔

وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کے جاری کردہ بیان کے مطابق تجاویز میں تعمیراتی صنعت کا دوسرا مرحلہ، ریٹیل دکانیں کھولنا اور اسلام آباد کے ہسپتالوں میں کچھ آؤٹ پیشنٹ ڈپارٹمنٹس(او پی ڈیز) فعال کرنا شامل ہے۔

 رپورٹ کے مطابق اس میں یہ تجویز بھی دی گئی کہ دکانوں اور مالز کو صبح 9 سے 5 اور رات 8 سے 10 تک کھلا رکھا جائے۔

تاہم ڈاکٹروں کو خوف ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی ملک کے لیے تباہ کن ہوگی لیکن کچھ کا کہنا تھا ہے کہ عوام کو ’بھوک کے وائرس‘ سے محفوظ رکھنے کے لیے پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

اس ضمن میں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ وہ پابندیوں کے حق میں تھے ہیں لیکن چونکہ حکومت ایک دوسرے زاویے سے دیکھ رہی ہے اس لیے وہ تجویز دیںگے کہ ٹیسٹس کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ لاک ڈاؤن میں نرمی کردی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ یومیہ اجرت والے اور معاشرے کے دیگر طبقات معاشی مسائل کا شکار ہیںوزیراعظم عمران خان نے بارہا کہا ہے کہ انہیں غریبوں کا خیال کرنا ہے پاکستان کوئی امیر ملک نہیں اور یہ مسئلہ جلد حل ہونے والا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے میں تجویز دوں گا کہ ہمیں لاک ڈاؤن میں نرمی کرنی چاہیئے لیکن ٹیسٹس کی تعداد کو بڑھا دیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت الخدمت فاؤنڈیشن کورونا ٹیسٹ 3 ہزار روپے اور بحریہ ٹاؤن 2 ہزار روپے میں کررہا ہے حکومت کو چاہیئے کہ مخیر حضرات کو شامل کرے اور ٹیسٹ کی قیمت کم کی جائے۔

دوسری جانب ینگز ڈاکٹر ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر ڈاکٹر اسفند یار نے اس تجویز سے اختلاف کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اوپی ڈیز اور شاپنگ مالز کھولنے کی تجاویز سن کر حیرت میں پڑ گیا مجھے خدشہ ہے کہ اس سے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگا اور نظام صحت تباہ ہوجائے گا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ڈاکٹروں کو بھی وینٹی لیٹرز نہیں مل ریے تو یہ سوچنا چایئے کہ پابندیوں میں نرمی کے بعد کیا صورتحال ہوگی اس لیے میرے نزدیک یہ تجویز تباہ کن ہے اور اس پر نظرِ ثانی کرنی چاہیئے۔

اس سلسلے میں ڈان کو اپنی خیالات بتاتے ہوئے مائیکروبائیولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر جاوید عثمان کا کہنا تھا کہ اکثر عوام احکامات اور اصولوں پر اس طرح عمل نہیں کرتے جس طرح سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کیا جاتا ہے اس لیے آئندہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خراب ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو کیسز کی تعداد میں کمی کا انتظار کرنا چاہیے تھا لیکن جیسا کہ وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ ایک کروڑ 80 لاکھ افراد اپنی ملازمتوں سے محروم اور 7 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جاسکتے ہیں اس لیے حکومت کی منطق کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے ڈان سے کہا کہ اگر تجاویز پر عمل کیا گیا تو مسائل اور کورونا وائرس کیسز میں اضافہ ہوگا لیکن محسوس ہوتا ہےکہ بروقت لاک ڈاؤن نہ کرنے کے بعد اب حکومت کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا۔